سمارٹ سٹی کا شہری افسانہ

سہیل سالمؔ

جشن خزاں کے تعلق سے شہر کی ایک مشہور ٹور کمپنی نے زبرون پارک میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔ میں اور میرا دوست چنار باغ کے اسٹاپ پر فضاء کا انتظار کر رہے تھے۔ سمارٹ سٹی کے جوکر سے ہماری ملاقات اسی اسٹاپ پر ہوئی تھی ۔انہوں نے ہم سے اوپن سرکس کا ایڈریس پوچھ لیا ۔وہ کافی خوش دکھائی دے رہا تھا ان کے بائیں جانب ایک بندر بھی تھا۔اس طرف اشارہ کرکے انہوں نے بتایا کہ اس بندر کا سرکس میں رجسٹریشن کروانا ہے۔یہ سرکس میں اپنے کرتب دیکھا کر سبھی سامعین کو محظوظ کرے گا ۔بندر بھی سمارت سٹی کے جوکر کی بھی باتیں سن کر خوش ہوا۔
’’ہم نے اسے سرکس کا ایڈریس بتاتے ہوئے پوچھ لیا کہ بندر کے گلے میں یہ کیا لٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ سرکس کا آئینہ ہے اور جب میں نے اس آئینے میں خود کا حلیہ دیکھنا چاہا‘‘
’’ تو آئینے نے مجھ سے پوچھا کیا دیکھ رہے ہو؟۔۔۔‘‘
’’دیکھ رہا ہوں شہر اور گائوں کے لوگوں سمارٹ بنے کی دوڑ دھوپ میں رشتوںکے چراغوں کو تیز آندھیوں کے حوالے کرتے ہیں اور زندگی کو ان راستوں کے حوالے کرتے ہیں۔ جن پر چلنے سے پہلے انا کا تاج حاصل کرنا پہلی شرط ہو۔۔۔ اور۔۔‘‘
’’ اور کیا؟ اس نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔۔؟‘‘
’’دیکھ رہا ہوں کہ یہ کون سمارٹ بنے جارہے ہیں؟ اور کیا ملے گا ان کو سمارٹ بن کر۔۔۔‘‘
’’کون ہوسکتے ہیں؟ یہ لوگ۔۔۔!!!
اپنے ذہن پر تھوڑا بہت دبائو ڈالنے کے بعد مجھے یاد آہی گیا۔۔۔۔ہاں ہاں!!! یہ وہی لوگ جنہوں نے خوبصورت کہساروں پر گد پالے ہیں،سمندر میں بوڑھی مچھلی کا خون کر کے پورے سمندر کا رنگ بدل دیا،محبت کے تاج محل میں تلسی کے پودے پر تیزآب چھڑکا،اعتماد کو سولی پر چڑھایا ،آبشاروں کی روانی پر پہرے لگائے،موسموں کو قید کیا،چنار کے پتے کی شہہ رگ نوچ لی ،تہذیب کا دھوم دھام سے جنازہ نکالا،
محبت کو نفرت کے زیورات سے آراستہ کر کے اس کی ہیت بگاڑ دی،علم کی چڑیاں کو بے ہوش کر کے اس کے پر کاٹے،قلم کی سیاہی میںجھوٹ کا زہر ملایا اور پرانی کہانی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
’’ اور آپ کو کس نے بتایا؟ ان لوگوں نے ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں۔آخر یہ کس بستی کے لوگ ہیں؟ان کا رہن سہن کیسا ہیں؟
ان کی بھی اپنی تاریخ تو ہوگی۔۔۔۔‘‘
’’ہا ں ہاں !!!وہ میری اور تمہاری طرح تخلیق کار کا شہہ پارہ ہے۔وہ بھی ارسطو کا سماجی جانور ہے۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے خوابوں میں رنگ پھرنے کے لئے قدرت کی آنکھوں کو بے نور کر رہا ہے۔وہ چھوٹی چھوٹی بستیوں میں آتش کدے تعمیر کر وارہا ہے۔اس منصوبے کو پایہ تکیل تک پہچانے کے لئے وہ تنہا نہیں ہے۔‘‘
’’کیا کوئی اور بھی اس کے کارواں میں شامل ہے۔۔۔آئینے نے پھر سے سنجیدگی سے پوچھا۔۔؟‘‘
’’ہاں!!! ‘‘
’’کون ہے وہ لوگ؟‘‘
وہی جس سے نہ بہارکی قدر ہے اور نہ ہی موسم کی پہچان۔وہ کوئی پڑوسی نہیں ہے ۔وہ بھی ہمارے آنگن میں رہتا ہے اورجب اس کی پیاس یا بھوک بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنی بھوک یا پیاس مٹانے کے لئے نئی ہوائوں کو جنم دیتا ہے۔آس پاس کی شادابی پر ویرانی چھا جاتی ہے۔کناروں پر پرندوں کی چہچاہٹ ،باغواںاور لہلاتے کھیتوں کی ہریالی اچانک غائب ہوجاتی ہے۔خانقاہوں،زیارت گہوں ،عبادت گاہوں اور مندروں کے کبوتر ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔آسمان آتش فشاں کا روپ دھا ر لیتا ہے اورہر طرف آگ ہی آگ ۔۔۔۔لیکن مجھے یقین ہے۔
’’کیا اور کس بات کا یقین ہے؟۔آئینے نے ایک اور سوال میرے سامنے رکھ دیا۔‘‘
زرد پتوں کے زرد موسم میں محبت کے گیت گائے جائے گے۔ چھوٹے چھوٹے فرشتے روشنی میں غوطہ رن ہونگے۔شچائی کی چمک دھمک سے ہر اک چہرے کا رنگ نورانی ہوگا۔امن و امان کی چاندانی زمیت پر اترا آئے گی ۔ہر اک گھر کی دیوار پر محبت کے پوسٹر لگائے جائے گے۔ کے پوسٹر در دیآفتاب کی شعاعوں سے لبریز نئی بہار کا آغاز ہوگا۔ایک نئی نویلی دلہن پہاڑوں سے اتر کر ہماری بستی میں نئی زندگی کا آغاز کرے گی۔چنار کے پتوں کی خوشبو سے سارا خزاں مہک اٹھاے گا،مہاجر پرندے پھر سے بہار کے موسم میں جھیل ڈل میں نہانے آئے گے اور زندگی پھر سے لہراتی بل کھاتی جھوتی نظر آئے گی۔زندگی کا ہر ایک لمحہ حسین ہوگا ۔
’’یہ آزاد فضائوں میں اڑان بھرنے کا موقع کب نصیب ہوگا۔۔۔اس نے پھر سے پو چھ لیا ۔۔؟‘‘
جب سورج اپنی آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوگا۔جب ستارے ہمارے آنگن کے بدن پر نور کی کرنیں بکھیرتے رہیں گے۔پہاڑوں ور کوہساروں کے دریچوں سے جب میٹھی صدائیں آئیں گی۔ہر طرف جب امیدوں کے چراغ روشن ہونگے۔جب پھولوں کی خوشبوئوں سے پوری فضا معطر ہوگی اور پری محل کی پریا ںاس معطر فضا میں اپنا رخت سفر باندھ رہی ہوگی۔جب چنار کے شاخوں پر پرندے جوق در جوق اپنے آشیانے سجائے گے ۔جب بوڑھے مکان کے لبوں پر تبسم نمودار ہوگی ۔جب سڑکوں سے خوف کے بت اٹھائی جائے گے۔جب ہو شام و سحر جوش اور مستی کے ساتھ گزر جائے گی۔
چند ہی لمحوں کے بعد بس اسٹاپ پر فضاء پہنچ گئی ۔ہم نے اور سمارٹ سٹی کے جوکر نے بندر کے ساتھ اپنا اپنا راستہ دیکھ لیا۔زبرون پارک پہنچ کر ہم نے دیکھ کہ تقریب ایک گھنٹے پہلی شروع ہو چکی ہے۔جشن خزاں کی تقریب میں سمارٹ سٹی کے تمام معزز شہری مدعو کیے گئے تھے اور جن کی اب تاج پوشی کی جارہی تھی۔سمارٹ سٹی کے ا ن معزز شہریوں کی عزت افزائی دیکھ کر میرے وجود پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی کہ آنے والے کل کا کیا ماجرا ہوگا۔آنے والے دور میں جشن خزاں میں کیا کیا گل کھلائے جائے گے۔سمارٹ سٹی کا نقشہ کیسا ہوگا۔سمارٹ سٹی کا شہری بننے کے لئے کون سا انوکھا کام انجام دیناہوگا۔
’’کیا ہم بھی سمارٹ سٹی کے شہری ہونگے؟؟؟‘‘

���
رعناواری سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9103654553