سفر ِسعادت کی داستانِ جذب و شوق ذکرِ خیر

بشارت بشیرؔ
ہاں یہاں یہ بھی نہ بھولئے کہ مسجد قبا سے صرف ایک کلو میٹر کی دوری پر تاریخی مسجد جمعہ واقع ہے۔ مدینہ تشریف آوری کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوسالم کی بستی میں یہاں ہی نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مسجد عتبان و مسجد نبی انیف کی بھی اپنی تابناک تاریخ ہے، مسجد نبوی ؐ شریف کے شمالی جانب ۹۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد ابی ذؓرفقر بوذرؓ کی یاد دلاتی ہے ۔مسجد اجاجہ مسجد نبی ظفر ، مسجد فضیح، مسجد سیقیا، مسجد نبی دینار ، مسجد نبوی کے شمال مغر میں ۵۲۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد  بسبق ، شارع سید الشہداء ؓ کے قریب مسجد مستراح  کے جنو ب میں ۳۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد شیخین اور مسجدمستراح کی کڑیاں تاریخ سے ملاکر دیکھ لی جائیں تو زائر عرصہ تک تاریخ کی وادیوں میں سیر کرتے ہوئے عجب حظہ ولطف وسرور وعزم و ہمت کا احساس کرے گا۔
ثینتہ الوداع اپنی تاریخ خود بتائے گا، شارع سید الشہداء اورشارع ابوبکر ؓ کے سنگم پر واقع تھا، مسجد نبوی کے شمالی مغربی کونے سے قریباً ۷۵۰ میٹر دوریہاں ایک مسجد قائم ہے،دوسرا ثنیتہ قبا کی طرف تھا۔ مکہ مکرمہ آنے جانے والے یہاں سے گذر تے تھے، یہاں ہی آمد مدینہ کے موقع پر چھوٹی بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے دوران’’طلع البدرعلینا‘‘ کے مسرت بھرے گیت گائے تھے ۔ یہاں آج ایک گرلز اسکول قائم ہے، یہ جگہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کی یاد دلاکر ذہن و دل میں انقلاب بپاکئے دیتی ہے، یہاں عبرت کے لئے اس قلعے کے کھنڈرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جو قلعہ کعب بن اشرف کے نام سے موسوم ہے، یہ قلعہ اسلام کے خلاف سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مکروفریب کے تانے بانے بُننے کا مرکز رہا، کعب بن اشرف ایک مالدار شاعر تھا، ماں یہودی تھی ، یہودیت رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی، بدترین اسلام دشمن تھا، اپنے اشعار میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ کیخلاف زہر انگیز یاں کرنے کا عادی تھا۔ اپنے ہی قلعہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے اس قلعہ کے کھنڈرات آج بھی مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں بطحان ڈیم کے راستے میں دائیں جانب ہر دیکھنے والے کو ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘ کہہ کر نصیحت حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں جبل احد اور میدان احد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، کچھ زائرین یہاں آتے ہیں لیکن تاریخ سے عد م واقفیت کی بنا پر بس ادھر ادھر نظر دوڑاکر اپنا راستہ لیتے ہیں، ہاںجبل احد جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسی میدان احد اور جیل رماہ میں ہوئے حق و باطل کے درمیان ہونے والے  معرکہ نے عجب غلغلہ پیدا کیا ۔ فتح بالکل قریب تھی لیکن چند جانثار اپنی مقرر کردہ جگہوں سے تھوڑی دیر کے لئے کیا ہٹ گئے کہ زبردست پریشانیوں اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ خود حضور ؐ صرف اپنے چندساتھیوں سمیت میدان احد میں ڈٹے رہے اور کئی زخم مبارک چہرے کو لگے۔فداہُ اَبی وَاُمی ۔ انہیں کہا گیا تھا۔
فلک ٹوٹے زمین پھٹ جائے موت آئے کہ دم نکلے
مر ہرگز نہ ہادی کی اطاعت سے قدم نکلے
بس تھوڑی دیر دائر ہ اطاعت سے باہر آئے تو ہوش ربا مناظر دکھائے گئے، پھر سنبھلے ، دامن اطاعت میں آگئے تو ہاری ہوئی جنگ جیت کر ظفر یاب ہوئے، یہاں پہنچ کر طالب علم تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے، جبل رماۃ کے تیراندازوں کی یا د سید الشہداء حمزہؓ کی شہادت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوہ استقامت بن کے کھڑا رہنا یہ سب یاد آکر ذہن و دل میں عجب طرح کا انقلاب بپا کردیتا ہے،شہداء احد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق میدان قتال میں ہی دفن کیاگیا، احد پہاڑ کے دامن میں غار کے نیچے جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ظہر کی نماز ادا کی وہاں ایک مسجد بنی تھی جس کے اب آثار باقی ہیں، ارد گرد حفاظتی جنگلہ لگایاگیا ہے۔
مدینہ منورہ کے عین وسط میں جبل سلع ہے مغربی دامن میں بنو حرام کی آبادی تھی، جنگ خندق کے دوران اسی پہاڑ کے قریب غار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا، دعائیں کیں، فتح نصیب ہوئی، حکومت نے اس پہاڑ کے گرد لوہے کے مضبوط جنگلے نصب کئے ہیں، اسی پہاڑکے دامن میں جنگ خندق کے دوران صحابہ خیمہ زن تھے ، اور اس کی خوبصورتی کے لئے مصنوعی آبشار لگائے گئے ہیں ، ایک باغیچہ بھی باغیچہ فتح کے نام سے یہاں موسوم ہے، مدینہ منورہ کی تاریخ میں مساجد سبعہ کو جو سلع پہاڑ کے دامن میں واقع ہیں بڑی اہمیت حاصل ہیں، اور جن عظیم تر شخصیات کے مبارک ناموں سے یہ مساجد موسوم و منسوب ہیں ان کی حیات مبارک کا ور ق ورق انسان کے اندر انقلاب انگیز تبدیلیاں بپا کردیتا ہے، مسجد نبی حرام ، مسجد منارتین، مقام بیداء وادی عقیق، وادیٔ بطحان، وادیٔ مہزور، وادیٔ قناہ عاقول ڈیم، بس دیکھنے اور ان کی تاریخ جاننے سے تعلق رکھتے ہیں، مدینہ منورہ میں بعض تاریخی کنویں بزبان حال اپنا اپنا ماضی بیان کرتے ہیں، بئر رومہ، بئر حا، بئر غرس، بئرعروۃ، بس ان کی تاریخ جاننے سمجھنے کی ضرورت ہے، بئر اریسں تو وہ کنواں ہے جس میں حضور ؐ کے انتقال پرملال کے بعد خلفاء کے ہاتھ میں آنے والے وہ مقد س انگوٹھی جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے مقدس ہاتھ سے گر گئی ہے۔ یہ کنواں مسجد قبا کے قریب مغربی جانب واقع تھا، ارو جودھویں صدی کے آخر میں سڑک کی توسیع کے دوران زیر زمین آگیا، بئرغرس کو میں دیر تک دیکھتا رہا کہ میرا محبوب فدا ابی و امی اسکا پانی نوش فرمانے یہاں تشریف لے آتا تھا، اور اسی کے پانی سے غسل دینے کی وصیت بھی فرمائی تھی، یہاں زائرین اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ مسلمانوں کے تہذیبی اور تعلیمی ورثہ کو محفوظ رکھنے اور نئی نسل کو قرآن و سنت کے لازوال پیغام سے آگاہ کرنے کے لئے یہاں کیا ہورہا ہے ۔ مسجد نبوی شریف کے شمالی سمت ۱۳۵۲ھ میں قائم کی گئی لائبریری ۱۳۹۹ھ میں باب عمر سے متصل ہال میں منتقل کی گئی جس میں علوم حدیث، کتب علوم تفسیر ، فقہ، کتب اصول فقہ، تایخی کتب،مخطوطات، نادررسائل و رجرائد شامل ہیں، ملک عبدالعزیز لائبریری بھی اپناخاص نام کما چکی ہے، عام مخطوط کتب کی تعداد ۱۳۰۰۰ ہے جبکہ نادر و نایاب کتابیں ۲۵۰۰۰اور دیگر مطوعہ کتب ۴۰۰۰۰ سے زیادہ ہیں۔ اس لائبرری میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کو جمع کرنے کا اہتما م بھی کیاگیا ہے، اس کے علاوہ کنگ فہد پرنٹنگ پریس بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے نسخوں کی چھپائی کاکام یہاں ہوتا ہے۔ اس پریس سے اب تک دنیا کی ۳۹ زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر شائع ہوئے ہیں، جن میں کشمیری زبان بھی شامل ہے، اس کے علاوہ مرکز تحقیقات بھی قابل دید ہے ، جہاں ریسرچ کاکام ہوتا ہے، بہر حال بات شہر محبوب سے شروع ہوگئی تھی اور محبوب کے شہر کے ذرے ذرے سے محبت ایمان کی دلیل ہے، مدینہ منورہ کی ساری تاریخ کیا بیان کر پاؤں۔ یہاں کا ہر حجروشجر اپنے اندر ایک تاریخ لئے ہوئے ہے اور یہ سب اس لئے کہ یہ شہر جانان ہے اور سب عظمتیں اور رفعتیں اسی محبوب کی نسبت سے اسے حاصل ہیں۔ ہاں عازم مدینہ ہوئے تو ان مقامات میں سے اکثر کو دیکھ کر جہاں روح و دل عجب طرح کا سکون محسوس کرتا ہے وہاں دل مسجد نبوی میں اٹکا رہتا تھا۔ ہر نماز یہاں ادا کرنے کی کوشش کی_________ اور پھر وہ گھڑی آہی گئی جب جذبات کے تلاطم خیز سمندر پر قابو رکھ کر کوئے دلبر سے سوئے وطن جانے کی ہدایت ملی۔ بس اس دن کا شوق و اضطراب مت پوچھئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے چمٹے رہے ، روتے رہے، بلکتے رہے اور پھر روضۂ اطہر پر جانے کی جسارت کی ۔ اپنا نامہ ٔ سیاہ دور رہنے کا تقاضا کررہا تھا، لیکن محبوب سے تعلق اور امت کے تئیں راتوں ان کے رونے جاگنے کا عمل نزدیک سے گذرنے کا دلاسادے رہا تھا۔یہ امید بھی بھر آئی اور یہ نصف شب سے کچھ پہلے کا سماں تھا، بھیڑ بہت کم تھی، ہزاروں عمریں ان ساعتوں پر قربان جو یہاں آرام اور کسی بھیڑ بھاڑ کے بغیر گذریں۔ میںآپؐ کے روضے کے سامنے صلوٰہ و سلام کا بار بار ورد کرتا رہا ، آنکھیں تھی کہ اشکوں کا سیل رواں زمین حرم نبوی پر گررہی تھیں۔ حساس تھا کہ آنسوؤں کے ان قطروں کی آواز بھی نہ سنائی دے کہ یہ بھی بے ادبی ہے، اندرہی اند ر امت کی حالت زاروزبوں پر ماتم کناں تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ عرب وعجم میں ہم پر قہر و ستم کی یورشیں کیوں؟اسی لئے ناکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کٹ گئے ، جس امت کو ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسد واحدبنایا تھا وہ قومیتوں میں تقسیم ہے۔ افلاس، انتشار اور بے یقینی ہے، چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کی پنجہ آزمائی آج بھی جاری ہے، عرب، ہاں عرب آج ان کے دست نگربن گئے ہیں، جن کو ہم نے ، عربوں نے،  مسلمانوں نے حرف تکلم سے آشناکیا تھا، جن بتوں کو آپؐ نے پاش پاش کرکے کعبہ کو پاک کیاتھا، آج نت نئے ناموں کے اور نئے لباسوں میں ہم پر سوار ہیں، اور ہم غیر شعوری طور نہیں شعوری طور ان کے سامنے باادب کھڑے ہیں۔ آج ہمارے حکمران خود اپنی ملت کو یورپ کے قدموں میں بالجبر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ملت کا نوجوان بے راہ رو ہے والدین ، استاد، معاشرہ ،مدرسہ معلم ، علماء ،فقہاء سب اپنی ذمہ داریوں سے ناآشنا مادہ پرستی کی دوڑ میں دنیا ومافیہا سے بے خبر سر پٹ دوڑ رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، کٹ رہے ہیں،مٹ رہے ہیں، اس لئے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ و تعلق میں فاصلے پیداکئے، دل کی دنیا میں یہ صدائیں جاری تھی کہ میں یہ کہتے ہوئے روبہ کعبہ قبلہ ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا
نہ نالم از کسے مے نالم از خویش
کہ ما شایانِ شان تونہ بود یم
  ہچکیاں بندھ گئیں، رقت طاری ہوئی، آنسوں پونچھے، پھر رخصت ہوا۔ اگلے روز فجر و ظہر کی نماز پھر مسجد محبوبؐ میں ادا کی ،پھر قلب مفطر پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔آنسوؤں نے مسجد محبوبؐکے صحن مقدس کو تر بتر کردیا ۔بہ صد یاس و غم یہ کہہ کر پلٹا اور سوئے وطن روانہ ہوا کہ اے مالک عرو و فرش!محبوب ؐاور شہر محبوب ؐکے ساتھ محبت وارفتگی میں اضافہ در اضافہ کر۔کہ یہی دلیل ایمان ہے۔پھر بلالے اور بلانے کا یہ عمل تا زیست جاری رکھ۔آمین         (ختم شد)
رابطہ :  9419080306