سرکاری اراضی بازیابی مہم | ثمر بار و غیر ثمر بار درختوں کا قتل ِ عام تو نہ کریں

سرکاری و روشنی اور کاہچرائی اراضی کو غیر قانونی قبضہ سے بازیاب کرانے کی مہم پورے جموںوکشمیر میں شد ومد سے جاری ہے اور اگر متعلقہ ضلعی حکام کی مانیں تو اب تک پورے جموںوکشمیر میں صرف اس ماہ کے دوران ہزاروں کنال اراضی بازیاب کی جاچکی ہے اور مزید اراضی کی بازیابی کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔گوکہ ضلعی حکام کو 31جنوری تک ساری سرکاری اراضی بازیاب کرانے کی ہدایت دی گئی ہے تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کام ڈیڈلائن کے اندر اندر ختم ہونے والا نہیں ہے اور آگے بھی کافی دیر تک چلتا رہے گا۔ہم نے انہی سطور میں گزشتہ دنوں اس سرکاری فرمان کے ممکنہ اثرات پر بات کرتے ہوئے غریب اور چھوٹے کسانوںکو راحت دینے کی اپیل کی تھی اور یہ بھی کہاتھا کہ بڑے مگر مچھوںکے خلاف کارروائی پوری قوت کے ساتھ کی جائے تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ حکام نے ہمارے مشورے پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی لیفٹیننٹ گورنر کی وہ یقین دہانی کام آرہی ہے جس میں انہوںنے کہا تھا کہ چھوٹے کسانوں اور غریب لوگوںکو اس مہم سے گھبرانے کی ضرورت نہیںہے اور نہ ہی ان سے کوئی چھیڑے گا بلکہ یہ مہم صرف بڑے مگر مچھوںکے لئے ہے ۔اگر واقعی ہمارے مشورہ پر عمل ہوتا اور لیفٹیننٹ گورنر کی یقین دہانی پر من و عن عمل ہوتا تو پورے کشمیر اور جموں صوبہ کے مخصوص علاقوں میں اس طرح کی کارروائی میں غریبوں اور چھوٹے کسانوں کو نہ چھیڑا جاتا ۔فی الوقت جس طرح امیر اور غریب کی تمیز کئے بغیربلڈوزر چل رہا ہے ،اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ بجلی اس بار بھی غریبوں پر ہی گررہی ہے۔بہر حال فی الوقت ہمیں اس مہم کی زد میں آنے والے لوگوں پر بات کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ آج اس مہم کی آڑ میں جس طرح ثمر بار درختوں اور سفیدے کے تیار درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے ،اُس پر بات کرنا مقصود ہے ۔انسداد تجاوزات مہم کہیں یا مسماری مہم کہیں،جو بھی ہے لیکن اس مہم کے دوران جس طرح کشمیر کے جنوب ،شمال اور وسط میں ڈیزل پر چلنے والے آٹو میٹک کٹرس کا استعمال کرکے سیب کے باغات پر آرا صرف اس لئے چلایا جارہاہے کہ وہ سرکاری اراضی پر قائم کئے گئے تھے ،وہ نہ صرف سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ اس کی کوئی منطق بھی نہیں ہے ۔اگر مان لیتے ہیں کہ زمین سرکاری تھی اور اس کی بازیابی ناگزیر تھی تو یہ کہاں کی سمجھداری ہے کہ اس زمین پر تیار کئے گئے میوہ باغ کو ہی چند پلوں میں تاراج کیاجائے ۔ظاہر ہے کہ ثمر بار درخت تیار ہونے میں وقت اور محنت دونوں لگتے ہیں اور ایک سیب کا پیڑ میوہ دینے کے قابل بننے میں کئی سال ہی نہیں لگ جاتے ہیں بلکہ اس میں کسانوںمیں خون اور پسینہ بھی شامل ہوتا ہے ۔اگر سرکار کا ایسی اراضی پر دعویٰ ہے تو بے شک سرکار ایسی اراضی اپنی تحویل میںلے لیکن یہ کہاں کی سمجھ داری ہے کہ پہلی فرصت میں ایسی اراضی میں تیار کئے میوہ باغ پر کلہاڑی چلائی جائے اور میوہ درختوں کو چند پلوں میں جڑوں سے کاٹ کر زمین کے بل سلا دیاجائے ۔سرکار کا حق بنتا ہے کہ اگر اراضی ان کی ہے تو وہ اس اراضی کو اپنی تحویل میںلیں ۔جب سرکار اپنی اراضی اپنی تحویل میںواپس لے تو اس اراضی میں جو کچھ ہوگا ،وہ بھی سرکار کا ہی ہے ۔اگر اراضی میں ثمر بار درخت ہیں تو وہ سرکار کے ہی ہوئے اور سرکار ایسے ثمر بار درختوں سے آنے والے وقت میں اچھی خاصی آمدن حاصل کرسکتی ہے لیکن یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ آپ تجاوزات ہٹانے کے نام پر درختوں کا یوں قتل عام کریں۔ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کارروائی یقینی طور پر ضلعی حکام کی ہدایت پر نہیں ہوتی ہوگی کیونکہ ضلعی حکام اتنے ناسمجھ نہیںہیں کہ وہ ایسے ثمر بار درختوں کی قدر و قیمت سے ناواقف ہوں لیکن یہ اس مہم کو زمینی سطح پر عملیانے والے وہ حوصلہ مند چھوٹے ملازم ہیں جوحالات کا فائدہ اٹھا کر لوگوں پر اپنا رعب جمانے کیلئے جوش میں آکر ایسی حرکتیں انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ،بارہمولہ و کپوارہ اضلاع میں سفیدے اور دیگر درختوں کی کٹائی جاری ہے ۔کہاجارہا ہے کہ صرف بانڈی پورہ ضلع میں ہزاروں سفیدے کے درخت صرف اس لئے جڑ سے ہی کاٹے گئے کیونکہ وہ سرکار کی نظر میں سرکاری اراضی پر اگائے گئے تھے۔بھائی آخرہزاروں کی تعداد میں سفیدے کے درخت کاٹ کر آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟۔ظاہر ہے کہ کاٹے گئے درخت وہیں پڑے پڑے سڑ جائیں گے اور سرکار کو ایک پیسے کی بھی آمدن نہیںہوگی ۔اگر ان درختوں کو رہنے دیاجاتا ہے اور صرف بازیاب شدہ اراضی کی تاربندی کی جاتی تو ان درختوں کو صحیح وقت پر کاٹ کر کروڑوںروپے کی آمدن سرکاری خرانہ کو حاصل ہوسکتی تھی لیکن چونکہ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے تو یہاں ہر غلط کام کو صحیح قرار دیکر انجام دینے میں فخر محسوس کیاجا تا ہے ۔سیب یا دیگر ثمر بار درخت ہوں یا سفیدے کے درخت ،یہ اُن لوگوں کی جمع پونجی تھی جنہوں نے مبینہ طور انہیں سرکاری اراضی میں اگایاتھا۔بہتر رہتا کہ ایسے درختوں کے ثمرات اُن لوگوں کو ہی منتقل کئے جاتے جنہوںنے انہیں تیار کیاتھا۔اب اگر ایسا کرنا بھی سرکار کی منشا نہ تھی تو کم از کم انہیں اس طرح تہہ تیغ کرنا بھی عقلمندی نہیں ہے کیونکہ یہ سرکار کیلئے بھی اثاثہ بن سکتے تھے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ کم ازکم یہ بات ارباب بست و کشاد کے پلے پڑے گی اور وہ کم از کم اپنے فائدے کیلئے ہی فوری طور درختوں کے اس قتل عام پر روک لگوائیں گے تاکہ آنے والے وقت میں یہ ثمر بار اور غیر ثمر بار درخت سرکار کا اثاثہ بن سکیں ۔