سال بھی گذرگیا اور یوم ِ خواتین بھی! حال و احوال

جاوید اختر بھارتی

یوں تو ہرسال پوری دنیا میں25 نومبر کو یومِ خواتین منایا جاتا ہے کہیں اسٹیج لگتا ہے، کہیں تقریریں ہوتی ہیں، کہیں جلوس نکالا جاتا ہے، کہیں بیان دیا جاتا ہے، کہیں حقوق نسواں کی آزادی کا نعرہ لگایا جا تا ہے لیکن خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کچھ نہیں جاتا ،جیسے ہر سال عالمی یومِ مزدور منایا جاتا ہے، اس دن بھی مزدور اپنا خون پسینہ بہاتا رہتا ہے اور یومِ مزدور کے نام پر بڑے بڑے شامیانے لگائے جاتے ہیں،لمبے چوڑے خطابات ہوتے رہتے ہیں لیکن مزدور بس مزدور ہی رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح گذشتہ سال بھی یومِ خواتین منایا گیا، خواتین محنت مزدوری کرتی رہیں، سر پر بوجھ اٹھاتی رہیں، اینٹ بھٹوں پر کام کرتی رہیں، ان کے بچے بھوک سے بلکتے رہے، پیاس سے تڑپتے رہے، خون کے آنسو بہاتے رہے اور دنیا بھر میں بڑی بڑی ہستیاں زبانی خرچ سے کام چلاتی رہیں اور ہواؤں میں اڑنے والی ہمدردیاں جتاتی رہیں۔ کہیں کسی غریب عورت کو بلاکر ان سے حال معلوم نہیں کیا گیا، ان کی تعمیر وترقی کے لئے کسی بھی عملی اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف دنیا بھر میں یومِ خواتین منایا جاتا ہے تو آخر اس کا مقصد کیا ہے اور حقوق آزادی نسواں کی بات کی جاتی ہے اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا مشورہ دیا جاتاہے تو ان تقریبات میں غریب و بے سہارا خواتین کو بلایا کیوں نہیں جاتا، ان کو اپنا درد بیان کیوں نہیں کرنے دیا جاتا، جب آزادی نسواں کی بات کی جاتی ہے تو ہوائی جہاز میں کالی عورتوں کو ملازمت کیوں نہیں دی جاتی، بوڑھی عورت کو ایر ہوسٹس کی جگہ کیوں نہیں دی جاتی ،جب دینا کچھ نہیں ہے تو پھر ہرسال پوری دنیا میں خواتین کے نام پر واویلا کیوں کیا جاتا ہے،آخر کب تک جھوٹ کی چادر تانی جاتی رہے گی، سال میں ایک مرتبہ یومِ خواتین کی مبارکباد کب تک دی جاتی رہے گی ۔آج بھی خواتین جہیز کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، آج بھی خواتین لڑکا اور لڑکی کی پیدائش کے نام پر استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، آج بھی خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی رہتی ہیں، آج بھی خواتین کالی اور گوری کے نام پر نا انصافی کا شکار ہو رہی ہیں جب سماج اور معاشرے میں یہ لعنت و ناسور جیسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے رہنمائے مذاہب، رہنمائے سیاست، رہنمائے قوم و ملت ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو عالمی یوم خواتین منانے کا کوئی مطلب نہیں ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یومِ خواتین کا تو آج کے چودہ سوسال پہلے انعقاد ہوا تھا، جب ایک صحابی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ حالت کفر میں تم نے کون سا ایسا کام کیا ہے، جس پر تمہیں سب سے زیادہ پچھتاوا ہے اور سب سے زیادہ افسوس ہے۔ تو وہ صحابی جواب دیتے ہیں کہ یا رسول اللہؐ میں نے اپنی چار سالہ بیٹی کو زمین میں زندہ دفن کیا ہے ،اس وقت اس کی جو کیفیت تھی اور اس کے منھ سے نکلنے والے جو کلمات تھے وہ مجھے آج بھی سنائی دیتے ہیں، وہ واقعہ انتہائی دردناک ہے اور مجھے سب سے زیادہ پچھتاوا اور افسوس اسی کا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے کہا کہ بتاؤ وہ منظر کیسا تھا؟ جب نبی پاک ؐنے کہا تو صحابی نے بیان کیا کہ یا رسول اللہؐؐ میں حالت کفر میں تھا، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے تجارت کے لئے ملک شام جانا تھا، میں نے جاتے جاتے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر لڑکا پیدا ہو تو اسے پالنا اس کی پرورش کرنا اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے قتل کردے۔ نہ میں سفر میں نکلتے وقت لات و منات و عزیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ اے لات و منات و عزیٰ میری بیوی حاملہ ہے، میری بیوی کی کوکھ سے لڑکا پیدا ہونا چاہیے ،لڑکی نہیں ہرگز نہیں! میں ملک شام گیا اور جب واپس آ یا تو معلوم ہوا کہ میرے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی ،میں بھاگتے ہوئے لات و منات و عزیٰ کے پاس گیا اور جاکر کہا کہ اے لات و منات و عزیٰ میں نے تجھ سے لڑکا مانگا تھا پھر تونے لڑکی کیوں دی، تجھے معلوم ہے کہ وہ میرے ہاتھوں قتل کر دی جائے گی ، زمین کے اندر زندہ دفنا دی جائے گی، وہاں سے جب میں اپنے گھر آیا تو آنگن میں اسے کھیل تے ہوئے دیکھ لیا ،میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کس کی لڑکی ہے تو اس نے بہانہ بنایا لیکن پھر بتایاکہ کہ یہ ہماری بچی ہے۔ اے اللہ کے نبیؐ میری بچی بہت خوبصورت تھی، میں بار بار اپنی بچی کو دیکھتا اور نظریں آسمان کی طرف اٹھا کر چاند کو دیکھتا پھر یہ بھی کہتا کہ او میری بچی تو کون سی تقدیر لے کر آئی، میں سماج میں، معاشرے میں، سوسائٹی میں کونسا منھ لے کر جاؤں گا، لوگ مجھے چڑھائیں گے تو میں کیا جواب دوں گا۔ اے اللہ کے نبیؐ، آخر میں نے اپنی بچی کو پالنے کا فیصلہ کر لیا، اس لئے کہ میری بچی بہت ہی حسین و جمیل تھی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا چلو اس کی پرورش کریں گے، سماج و معاشرے کے لوگ چاہے کچھ بھی کہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں، ہمیں تو بچی کو پال پوس کر بڑا کرنا ہے۔ اے اللہ کے نبیؐ ہم دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے، ہمیں اپنی بچی کو دیکھ کر دل کو بڑا سکون حاصل ہوتا تھا، اب آہستہ آہستہ بچی بڑی ہونے لگی ، اپنی زبان سے امی امی، ابو ابو کہنے لگی آخر ہماری بچی چار سال کی ہوگئی۔ لیکن کافروں نے جینا دوبھر کردیا۔ اے اللہ کے نبیؐ! کافرین مکہ ایسے ایسے جملے بولا کرتے تھے کہ جس سے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ کہتے تھے کہ وہ دیکھو ابو قیس آرہاہے،جو اپنے گھر میں ایک منحوس شے کی پرورش کررہا ہے، اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے، بڑی ہونے کے بعد یہ ہمیں اپنا داماد بنائے گا، یہ ہمارا سسر بنے گا۔ اس طرح کے جملے بول بول کر میرے دل کو چھیدا کرتے تھے، آخر ایک دن مجھے بہت غصّہ آیا اور اسی دن میں ایک رحم دل انسان سے پتھر دل انسان بن گیا اور اپنی چار سالہ بیٹی کو زمین میں زندہ دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں جب اپنے گھر پہنچا تو اپنی بیوی سے کہا کہ بچی کو نہلا دھلا کر نیا کپڑا پہنادو، بچی کو میلے میں لے کر جانا ہے۔ میری بیوی میرے ارادے کو سمجھ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ کہنے لگی کہ آخر معاملہ کیا ہے تو میں نے کہا کہ کافرین مکہ نے حد کردی ، جینا مشکل کردیا، اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے بچی کو دفن کرنے کے۔ اتنا سننا تھا کہ میری بیوی چیخ اٹھی کہ اے میرے شوہر ،او میرے سرتاج! آخر بچی کو جب قتل کرنا ہی تھا تو پہلے ہی کیوں نہیں قتل کردیا، اب چار سال کی ہوگئی ہے، بول نے لگی ہے، امی ابو کہنے لگی ہے تو تم اسے قتل کرنے جارہے ہو، میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ اے اللہ کے نبیؐ میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور دھمکایا کہ خبردار اپنی زبان بند کرلو، اُف نہ کرنا، میری اس دھمکی سے میری بیوی سہم گئی، آنکھوں سے آنسو بہانے لگی، بچی کو نہلانے لگی، اس کے بدن پر پانی ڈالتی جاتی اور بچی کو چومتی جاتی، آخر میری چار سالہ بیٹی پوچھتی ہے کہ ماں آج مجھے کیوں اس قدر چوم رہی ہو اور اپنی آنکھوں سے آنسو بہارہی ہو، میری بیوی بولتی ہے کچھ نہیں بیٹی! بس پیار آرہا ہے آخر وہ بتاتی کیسے میری دھمکیوں نے اسے مجبور کر رکھا تھا ، نہلا دھلا کر نیا کپڑا پہنا دیا، آج کی رات میری بیٹی کی آخری رات تھی۔ اے اللہ کے نبی میری بیٹی رات میں سو گئی اور میری بیوی رات بھر جاگتی رہی اور بچی کو چومتی رہی۔ بچی رات میں کبھی سوئی کبھی جاگی لیکن میری بیوی ایک پل بھی نہیں سوئی، بالآخر صبح ہوئی میری بچی اپنی ماں سے کہتی ہے کہ میں ابو کے ساتھ میلے میں جارہی ہوں، اب میں شام کو آؤں گی، میری بیوی نے بچی کا ہاتھ پکڑا اور اسے چوما میں نے جھٹکا مار کر چھڑ ایا، ساتھ میں کھرچیا اور پھاؤڑا چھپا کر رکھا، بچی کا ہاتھ پکڑا اور چل دیا۔ اے اللہ کے نبیؐ دروازے پر کھڑی میری بیوی اپنی بیٹی کو دیکھ تی رہی اور اس وقت تک دیکھ تی رہی جب تک کہ اس کی آنکھوں کی نظروں سے بچی اوجھل نہیں ہوگئی۔ جب بچی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میری بیوی چیخ اٹھی کہ اے اللہ کب تک لڑکیوں پر ظلم ہوتا رہے گا، اے اللہ آسمان سے کوئی فرشتہ بھیج، کوئی نبی بھیج تاکہ لڑکیوں پر ظلم بند ہو۔ میں بیاباں جنگل میں ایک جگہ بچی کوبٹھایا اور کچھ دوری پر گڈھا کھودنے لگا ،میری بیٹی آکر پوچھتی کہ ابو گڈھا کیوں کھود رہے ہیں؟ یہاں تک کہ میرے کپڑوں پر مٹی اور دھول بیٹھتی تو میری بیٹی اپنے نرم نرم ہاتھوں سے صاف بھی کرتی اور بولتی کہ ابو آپ کے کپڑے خراب ہو رہے ہیں، پھر وہ جاکر مٹی کا گھر بناکر کھیل نے لگتی لیکن پھر بھی مجھے رحم نہ آتا، جب پورا گڈھا کھود لیا تو بچی کو بلایا اور اس سے کہا کہ بیٹی دیکھو، اس میں میں تمہاری ماں ہے، بچی جیسے ہی لپک کر دیکھا تو میں نے دھکا دیدیا بچی گڈھے میں گر گئی اور جیسے ہی وہ گری میں نے مٹی ڈالنا شروع کردیا۔ میری بیٹی چیختی رہی چلاتی رہی ، بچاؤ بچاؤ کی صدا لگاتی رہی ،بار اس نے کہا کہ ابو ایسا نہ کرئیے، مجھے نکال لیجئیے لیکن مجھے ذرہ برابر رحم نہ آیا اور میں نے کانوں میں روئی بھی ڈال رکھی تھی۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ میرا باپ مجھے نہیں نکالے گا تو اس نے خود اپنی زبان سے کہا کہ اے ابو میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے نہیں نکالیں گے۔اب معلوم ہوا کہ میری ماں مجھے کیوں اتنا زیادہ چوم رہی تھی۔ اے ابو گھر جاکر میری ماں سے میرا آخری سلام کہدینا، اب سے نکال لیجئیے ورنہ کل قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تجھے تمہارے باپ نے کیوں قتل کیا تو میرے پاس دوسرا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ میں کہوں گی کہ اے اللہ تو نے لڑکی بنا کر اس گھر میں مجھے پیدا کیا، بس لڑکی ہونا ہی میرا قصور تھا ،اسی لیے میرے باپ نے مجھے قتل کیا ۔اے اللہ کے نبیؐ اس کے بعد اس کی آوازیں بند ہونے لگیں اور پھر وہ خاموش ہو گئی، مٹی سے وہ ڈھک چکی تھی، اب وہ نظر نہیں آرہی تھی، میں نے پوری مٹی ڈال دی اور پھر واپس ہونے لگا تو اب اس کی حالت میری آنکھوں میں گڑ گئی، سارا منظر نظر آنے لگا۔ اس کی چیخیں میرے کانوں میں گونج نے لگیں یہاں تک کہ میں سوچنے لگا کہ مٹی ہٹاکر دیکھوں شائد میری بیٹی ابھی زندہ ہو، ابھی تھوڑی ہی مٹی ہٹایا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ میری بچی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔ اے اللہ کے نبیؐ اس کی چیخیں آج بھی مجھے سنائی دے رہی ہیں، مجھے سب سے زیادہ پچھتاوا اسی کا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رُک نہیں رہے تھے ،فرمایا: اے ابو قیس بس کرو محمد کا کلیجہ پھٹا جارہا ہے، نبی کریم ؐنے صحابہ کرام کو ساتھ لیا اور چل دئیے اور ایک جگہ ٹھہر کر کہا مکہ والوں جمع ہو جاؤ۔ جب لوگ جمع ہوئے تو فرمایا کہ اے مکہ والو! آج میں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرنا بند کرو، میں نے اس کی داستان سنی ہے جو بڑی دردناک ہے۔ اگر تمہیں بچیوں کو پالنے میں شرم آتی ہے تو میرے حوالے کردو میں پالوں گا۔ تمہیں ان کا نکاح، شادی بیاہ کرنے میں شرم آتی ہے تو میں ان سب بچیوں کی پرورش، شادی بیاہ سب کچھ کراؤں گا۔ ہر سال عالمی یومِ خواتین منانے والو!نبی کریمؐ کے اس جملے پر غوروفکر کرو۔ آج ریڈیمیڈ طریقے سے یومِ خواتین منایا جاتا ہے۔ میرے آقا ؐنے پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ حضرت خدیجہ ؐسے نکاح کرکے عالمی یومِ خواتین منایا اور وہ حضرت خدیجہؐ جو ایک شوہر سے نہیں بلکہ دو دو شوہر سے بیوہ تھیں، اسے یومِ خواتین منانا کہتے ہیں۔
[email protected]