ساحر لدؔھیانوی۔ سرکش ترانوں کا شاعر فن اور فنکار

ڈاکٹر غلام قادر لون

ساحر ؔ لدھیانوی اردو اور ہندی بولنے والوں میں نوجوانوں کے سب سے مقبول شاعرہیں، جن کے نغموں سے برصغیر ہند پاک کے عوام پچھلی آٹھ دہائیوں سے محظوظ ہورہے ہیں۔ ساحرؔ نے فلموں کے لئے نغمے اور گیت لکھے مگر انہوں نے فلموں میں کام کرنے کے باوجود اپنی شاعری میں فنی تقاضوں کو قربان نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے متعدد شاہکار نظمیں لکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
ساحرؔ لدھیانہ کے نزدیک’ لوڈھوال ‘علاقے کے ایک جاگیر دار چودھری فضل محمد ذیلدار کے گھرانے میں ۸ مارچ ۱۹۲۱ ء کو پیدا ہوئے ۔ ان کی کشمیری نژادماں کا نام سردار بیگم تھا،جو چودھری فضل محمد کی گیارھویں بیوی تھی۔ فضل محمد نے اولاد نرینہ کی آرزو میں مختلف شادیاں کیں مگر کسی سے اولاد نہ ہوئی۔ جاگیر و جائداد کے وارث کی تمنا میں انہوں نے سردار بیگم سے شادی کی مگر و ہ بعض وجوہات کی بنا پر خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم بیوی کی حیثیت سے اپنا جائز مقام چاہتی تھی۔ میاں بیوی میں اختلاف ہوا۔ مقدمہ بازی تک نوبت پہنچی۔ ساحرؔ کے والد سے جب جج نے سوال کیا کہ بچے کی تعلیم کیلئے کیا انتظام کروگے تو انہوں نے کہا کہ اولاد کو وہ پڑھائے جسے بچے کو نوکری کروانی ہو۔ ہمارے پاس اللہ کا بہت کچھ دیا ہوا ہے بیٹھ کر کھائے گا۔ جج نے سوچا کہ بچہ اگر باپ کے پاس رہے گا تو ان پڑھ رہے گا اس لئے انہوں نے بچے کو والدہ کے حوالے کردیا۔ والدہ نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ بچے کو تعلیم دلائے گی۔ ساحر کی عمر اس وقت دس برس کی تھی۔ ساحر نے خود بھی عدالت میں کہا تھا کہ وہ اپنی ماں ہی کے ساتھ رہے گا۔
ساحرؔ کا اصلی نام عبدالحی تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ رہ کر اپنی ننیہال میں پرورش پائی۔ تعلیم کیلئے انہیں گھر کے نزدیک واقع ایک اسکول ’مالوہ خالصہ اسکول‘ لدھیانہ میں داخل کرایا گیا۔ اسی اسکول سے انہوں نے ۱۹۳۷ء میں میڑک کیا۔ اسکول میں انگریزی لازمی تھی۔ اردو اور فارسی فیاض ہریانوی پڑھاتے تھے۔ ساحرؔجب چوتھی جماعت میں تھے تو گھر پران کے ماموں انہیں علامہ اقبالؔ کی تصنیف ’’بال جبریل‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں ان کی دلچسپی شعر وادب میں بڑھی ۔ میڑک میں انہوں نے طبع آزمائی شروع کی۔ ایک نظم لکھ کر اپنے استاد فیاض ہر یانوی کے پاس بھیجی جنہوں نے صلاح دی کہ نظم گو معمولی ہے مگر اشعار موزوںہیں ۔ساحرؔ کیلئے کلام کاموزوںہونا ہی کافی تھا۔ ابھی تک انہوں نے ساحرؔ تخلص اختیار نہیں کیا تھا۔ علامہ اقبال نے داغؔ دہلوی کے مرثیہ میں ایک شعر کہاہے جس کا یک مصرع یہ ہے ؎
’’سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی ‘‘ساحر نے یہیں سے اپنا تخلص ساحرؔ لیا اور ساحرؔ لدھیانوی کے نام سے پوری اردو دنیا میں مشہور ہوگئے۔
۱۹۳۸ ء میں ساحرؔ نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا اور چار سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کالج میں وہ ایک سال تک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکریٹری اور ایک سال صدر رہے۔ یہاں انہیں سیاست سے دلچسپی ہوئی۔ انقلاب بغاوت اور آزادی کے نعروں سے آشنا ہوئے۔ انقلابی نظمیں لکھنے لگے جو میرٹھ کے ہفتہ وار ’کیرتی لہر‘ میںچھپتی تھیں۔ اس زمانے میں وہ اے۔ ایچ۔ ساحر، متعلم گورنمنٹ کالج لدھیانہ کے نام سے لکھتے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر ساحرؔ کو کالج سے نکال دیا گیا۔ سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کیلئے انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔
کالج میں ساحرؔ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے مگر کچھ وقت کے بعد انہیں یہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ پڑھائی جاری رکھنے کیلئے انہوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا جسے انہوں نے ۱۹۴۳ ء میں چھوڑدیا۔ ۱۹۴۴ ء میں ان کے پہلا مجموعہ کلام ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہوا ۔۱۹۴۵ء میں ساحرؔ نے ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ میں شرکت کی۔ اس کے بعد قسمت آزمائی کیلئے ممبی چلے گئے جہاں دوسرے ترقی پسند ادیب اور شاعر بھی موجود تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ ء کو ساحر بمبی میں تھے جبکہ ان کی ماں ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی تھیں۔ لاہور جانے کیلئے ساحرؔ نے بمبی سے دہلی کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔ اور لاہور پہنچکر پناہ گزینوں میں اپنی ماں کو تلاش کیا۔ ۱۹۴۸ ء میں ساحر ؔ نے احمد ندیم قاسمیؔ کے ساتھ ’’ سویرا‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ ’سویرا‘ ترقی پسندوں کا ترجمان تھا۔ ترقی پسند حکومت پاکستان کے زیر عتاب آئے تو احمد ندیم قاسمیؔ اور ساحرؔ کے نام بھی وارنٹ جاری ہوئے۔ ساحرنےؔ لاہور چھوڑنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء کو اپنی والدہ کو لے کر ہندوستان چلے آئے۔ ایک سال تک دہلی میں قیام کیا۔ اسکے بعد بمبی چلے گئے اوروفات تک اس شہر میں رہے۔ ۲۵ اکتوبر ۱۹۸۰ ء کو ۵۹ سال کو عمر میں وفات پاگئے۔
ساحرنےؔ نظمیں ، غزلیں ور گیت لکھے۔ فلموں کیلئے انہوں نے جو نغمے لکھے وہ بے حد مقبول ہوئے۔ انہیں نغموں کی بدولت انہیں شہرت ملی۔ مگر ان کا ادبی پایہ بھی کم نہیں ہے۔ ساحر کی بعض نظمیں اور غزلیں اردو ادب میں بے مثال ہیں۔ تاج محل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ علامہ اقبال نے عحسن عالم سوز الحمر اوتاج
کہہ کر اس کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے۔ جسے فرشتے بھی خراج تحسین ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ادیبوں نے اس کی خوبصورتی کی داددی ہے۔ شعراء نے اس پر نظمیں لکھی ہیں۔ ساحرؔنے جب اس پر لکھا تو نہ تو شاہ جہاں کے جاہ و جلال سے متاثر ہوئے اور نہ اس کے حسن سے متاثر ہوئے۔ تاج پر لکھتے وقت ان کی نظر ان معماروں، سنگتراشوں اور مزدوروں پر گئی جنہوں نے تاج محل کو بنایا ہے اور جن کے ہاتھوں سے یہ پیکر جمیل وجود میں آیا ہے ؎
مری محبوب ! پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ ، یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مری محبوب ! کہیں اور ملاکر مجھ سے
ساحرؔ کی اس نظم ’’ تاج محل‘‘ کو بعض نقادوں نے پسند نہیں کیا۔ ان کے دوستوں کو بھی یہ نظم پسند نہیں آئی۔ سردار جعفریؔ نے لکھا کہ’’ لطف یہ ہے کہ ساحر نے تاج محل دیکھا نہیں تھا۔ اگر دیکھ لیا ہوتا تو ایسی نظم نہیں لکھ سکتا تھا۔‘‘
مگر ساحرؔ کا اپنا زاویہ نگاہ ہے۔ وہ ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں دوسروں کی نظر سے نہیں ؎
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
ساحرؔ نے ’’چکلے‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے، اس میں انہوں نے مشرق کی تقدیس کے ثنا خوانوں، ملک کے رہبروں اور پورے سماج کو آئینہ دکھایا۔ ۸ مارچ ساحر کایوم پیدائش ہے اور ۸ مارچ عالمی یوم خواتین بھی ہے۔ ’’چکلے‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھاکی ہم جنس، رادھاکی بیٹی
پیمبر کی امت ، زلیخا کی بیٹی
ثناخوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
ساحرؔ نے عورتوں کی حالت زار پر اپنے کلام میں بار بار دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہیں دبی کچلی غریب اور مزدور عورتوں سے ہمدردی تھی۔ ساحرؔ نے ہر جگہ استحصال اور استحصال کرنے والوں کے خلاف آواز آٹھائی۔ وہ اشتراکی تھے اور جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف انہوں نے لیننؔ پر دو نظمیں لکھیں۔’طلوع اشتراکیت‘ تحریر کی۔’جاگیر‘لکھی۔ ان تمام نظموں میں انہوں نے استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ ان کے بہت سے خیالات مسترد کئے جانے کے قابل ہیں مگر ان کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں۔ وہ اگرچہ جاگیردار کے بیٹے تھے مگر انہوں نے لکھا ؎
میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعت ناپاک سے لیکر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
ساحرؔ کو نوجوانوں کا شاعر کہا گیا ہے ۔ ان کی بعض نظموں کو تعرہ بازی سے تعبیر کیا گیا مگر انہوں نے ’’میرے گیت‘‘ کے عنوان سے اس کا جواب دیا ہے ؎
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غویبوں ، مفلسوں کو ، بیکسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی تازینوں کو تڑپتے نوجوانوں کو
وہ انسانیت کے شاعر تھے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انہیں ترقی پسند کہا جائے یا رجعت پسند ، وہ کہتے ہیں ؎
رجعت پرست ہوں کہ ترقی پسند ہوں
اس بحث کو فضول وعبث جانتا ہوں میں
تاروں کی انجمن سے مجھے کچھ غرض نہیں
انسانیت پہ اشک بہاتا رہوں میں
۱۹۶۹ ء میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی گئی۔ اسی سال گاندھی کی صد سالہ سالگرہ بھی منائی جارہی تھی۔ یہ ساحر ؔ ہی تھے جو ان تماشوں اور کھلونوں سے متاثر نہ ہوئے اور صاف صاف کہا ۔؎
جن شہروں میں گونجی تھی غالبؔ کی نوابرسوں
ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشان ٹھہری
آزادی کامل کا اعلان ہوا جس دن
معتوب زبان ٹھہری ،غدارزبان ٹھہری
جس عہد سیاست نے یہ زندہ زبان کھلی
اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے
ساحرؔ نے امن عالم کے موضوع پر ’’پرچھائیاں‘‘ تحریر کی۔ ۱۸۴ مصرعوں پر مشتمل طویل نظم جنگ کی ہولناکیوں ، تباہیوں اور بربادیوں کی تصویر کشی جس انداز سے کرتی ہے، اس سے جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد حالات کا ڈرا ونا منظر سامنے آتا ہے۔ ساحرؔ کے کلام میں خلوص ہے۔ ان کے اشعار دل کی آواز ہیں، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں، وہ خود کہتے ہیں ؎
جس میں خلوص فکر نہ ہو وہ سخن فضول
جس میں نہ دل شریک ہو اس لَے میں کچھ نہیں
(حدی پورہ رفیع آباد)

ہے جوئے شیر ہم کو نورِ سحر وطن کا
اپنا وطن
مظفر نازنین
ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ جب ہندوستان انگریزی سامراج کی غلامی کے شکنجے میں تھا تو وطن عزیز ہندوستان کو انگریزوں کی طوق غلامی سے نجات دلانے کیلئے مجاہدین آزادی کمربستہ ہوگئے اور وطن عزیز کو آزاد کرانے کی ٹھان لی۔بلاتفریق مذہب و ملت ہندو مسلم، سکھ عیسائی نے اپنے عزیز ترین جانوںکی قربانیاں پیش کیں۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں نے اہم کردار کیا۔ کبھی مجاہد آزادی کی شکل میں ،کبھی انقلابی شاعر کے روپ میں تو کبھی ملک کے جانباز سپاہی بن کر قوم کی خدمت کی۔ شاعری احساس کی ترجمانی ہے۔ جذبات کی عکاسی ہے شاعر جب شدت غم سے لبریز ہوتا ہے یا جب کوئی خواہش حوادثات کے تھپیڑے کھا کر ساحل مراد کو پہنتی ہے تو شاعر اپنے نوک قلم کی جنبش سے اسے کاغذ پر رقم کرتے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار ذہن و دماغ پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ اردو شعراء کے اشعار سے قومیت کا وہ جذبہ ابھرا ،جس سے بے شمار محبان وطن نے اپنے عزیز ترین جانوں کی قربانیں پیش کیں۔ بیشتر مجاہدین آزادی نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آزادی حاصل کرنے کیلئے زندگی داؤ لگادی۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ یوں رقم طراز ہیں ؎
برسوں سے ہورہا ہے برہم سماں ہمارا
دنیا سے مٹ رہا ہے نام و نشاں ہمارا
کچھ کم نہیں اجل سے خواب گراں ہمارا
اک لاش بے کفن ہے ہندوستاں ہمارا
مسلمانوں نے اپنے لہو سے سر زمین ہند کو پہنچایا۔ آج جو مسلمانوں کو غدار وطن کہتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مسلمان غدارانِ وطن نہیں بلکہ جانثارانِ وطن ہیں۔ ہندوستان میں ایسے مسلمانوں نے جنم لیا، جن کی قوم و ملت کے تئیں گراں قدر خدمات قابل ستائش ہیں۔ کبھی ہندوستان کے عظیم رہنما بن کر تو کبھی جانباز سپاہی بن کر سر زمین ہند کی آبیاری کی۔ کبھی حوالدار حمید اور اشفاق اللہ خاں بن کر جام شہادت نوش کیا اور انگریزوں کی غلامی سے وطن عزیز ہندوستان کو آزادی دلائی۔ کبھی مولانا ابوالکلام آزاد بن کر قوم کی رہنمائی کی تو کبھی مولانا محمد علی جوہر، اور مولانا شوکت علی جوہر بن کر حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا۔ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ ہندوستان کے بڑے اسلامی ادارے ہیں جہاں سے طلبا نے تعلیم حاصل کرکے ملک اور قوم کی خدمت کی ہے۔ کارگل کی لڑائی میں مسلمان شہید ہوئے۔ تاریخی بابری مسجد ۶؍دسمبر،۱۹۹۲ء؁ کو شہید کردی گئی۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ ان میں بیشتر ایسے مسلمان بھی تھے جنہوںنے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے ہندو بھائیوں کو بچایا اور برادرانِ وطن کے شانہ بشانہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھا۔ مسلمانوںنے کس کس طرح اور کس کس شکل میں حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا ،اس کیلئے کسی تصدیق نامہ یا Certificate کی ضرورت نہیں بلکہ سنہرے ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں ۔ تحریک آزادی کا بغور مطالعہ کریں عہدِ وسطیٰ اور تاریخ ہند کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ مسلمانوں نے کس حد تک ملک اور قوم کی خدمت کی۔
زندگی کے ہر شعبے میں سائنس ، ٹیکنالوجی، اسپورٹس، سیاست اور ادب میں مسلمانوں کی شایان شان کارکردگی رہی اور انہوں نے ہر طرح سے اور ہر پہلو سے دامے ، درمے، قدمے، سخنے ،فہمے ہر شعبۂ ہائے حیات میں بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کی ہے اور قومی پرچم بلند کیا ہے۔ اس طرح بے لوث حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا جبکہ صلے میں انہیں کچھ بھی نہیں ملا، سوائے بدنامی اور رسوائی کے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شر اور فتنہ سے ہی انہیں سروکار ہوتا ہے۔
آج دنیائے ادب ہو یا میدان سیاست ہر مقام پر دھاندلی ہے۔ ایسے ایسے لوگ جو کرسیٔ وزارت پر براجمان ہیں اور مقتدر اعلیٰ پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے یہاں زبان تہذیب، سلیقہ اور شعار نام کو بھی نہیں۔ مسلمانوں کیلئے ناشائستہ الفاظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کی دل شکنی کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ مسلمانوں نے اپنے لہو سے سرزمین کو سینچا ہے اور خون جگر سے اس کی آبیاری کی ہے۔ آج جو لوگ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہیں انہیں رہذیب کے دائرے میں رہ کر ہی کچھ کہنا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تہذیب اور تعلیم سے مبرا ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب ۔آج اسی دہلی سے اقتدار اعلیٰ پر پہنچ کر زہر افشانی کی جاتی ہے ۔ کیا یہی ہندوستان کی جمہوریت ہے؟ کیا اسی کا نام سیکولرزم ہے ہندوستان جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین جمہوری ملک کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ وہاں مذکورہ تمام باتیں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک ہیں۔ ۱۵؍اگست، ۱۹۴۷ء؁ کو ہندوستان آزاد ہوا اور اس کے تین سال بعد ۲۶جنوری، ۱۹۵۰ء؁ کو ہندوستانی دستور اساسی کا نیا قانون نافذ ہوا۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر جو دلتوں کے مسیحا تھے، انہوں نے ایسے قوانین کی تشکیل کی جہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق اور مساوی درجہ دیا۔ جبری تبدیلیٔ مذہب دستور اساسی کے خلاف ہے۔ مسلمان ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اگر ان کی نسل کشی کی جائے اور ان کی شناخت ختم کردی جائے تو ہندوستان کا وجود نا مکمل ہے، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے وقت تابناک ماضی میں عظیم کارناموں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ آج ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت ہے۔ تب ہی ایک منظم اور مستحکم ہندوستان کی تشکیل ممکن ہے۔ مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد علم بردار تھے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ہندو مسلم یکجہتی کیلئے وقف کردی۔ ہندوستان ایک قوس قزح کی مانند ہے اور قوس قزح سات رنگوں میں ہی مکمل ہوتا ہے۔ اس میں ایک رنگ بھی غیر نمودار ہو تو اس کی خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے۔ یہی کیفیت وطن عزیز ہندوستان کی ہے۔ Different language but one nationکا مصداق آج ہندوستان آزاد ہے۔ ہمیں وطن کی خاک پسند ہے۔ وطن عزیز ہندوستان کی تہذیب ، یہاں کی ثقافت ، یہاں کی وراثت دوسرے ممالک سے جداگانہ ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمدو مسلم اتحاد قائم رہے۔ جو تہذیب اور ثقافت ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ اس کا تحفظ ہمارے لئے لازمی ہے۔ اور وہ تب ممکن ہے جب مشترکہ تہذیب کاپاس رہے۔ جس طرح اردو زبان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ اردو زبان صرف مسلمانوں کی ہی زبان نہیں ۔ ہندوؤں نے اسے گلے لگایا اور اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبست، راجندر سنگھ بیدی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ، دیا شنکر نسیم جیسے عظیم شعراء گزرے ہیں۔ اسی ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے پر ہی ہندوستان مکمل ہے، جس کیلئے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ لازمی جز ہے۔ تب ہی ہندوستان متحد ہوسکتا ہے، گو کہ ہمارے روحانی عقائد مختلف ہیں، لیکن ہم سب ایک ہیں اور مر کر بھی اسی سر زمین میں پیوست خاک ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہندوستان پر ناز و فخر ہے۔ اسی سر زمین پر چشتیؒ، نانک، گوتم اور مہاویر نے جنم لیا۔ بقول شاعر ؎
چشتیؒ نے جس زمین پر پیغام سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
آئیے فخر سے کہیں کہ ہندوستان عظیم ہے اور “Our India is great and we are Indian”کے مصداق ہم سب ایک ہیں: ’’ہے جوئے شیر ہم کو نورِ سحر وطن کا‘‘اور جدید ہندوستان کی تشکیل کے لئے کمر بستہ ہوجائیں۔ خدا کرے آفتاب اور ماہتاب کی کرنوں سے سارا بھارت جگمگائے۔
[email protected]