زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنیکی دوڑ میں20فیصد لڑکیاں ذہنی دبائو میں مبتلاء پڑھائی اور امتحانات کے بوجھ سے 10فیصد لڑکے بھی متاثر: رپورٹ

AL25-HAPPINESS A Danish study suggests that depression and unhappiness can inspire creativity. It appears that the most lasting inspiration for artists may come from the most difficult moments. Editable vector silhouette of a man sitting with his head in his hand with background made using a gradient mesh Uploaded by: Herron, Shaun

پرویز احمد
سرینگر //ملک کی دیگر ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کی طرح وادی میں طلبہ و طالبات پڑھائی کی وجہ سے ذہنی دبائو کے شکار ہوتے ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ وادی میں عام دنوں میں 10فیصد طالبات پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے ذہنی دبائو کے شکار ہوتے ہیں لیکن سالانہ امتحانات کی وجہ سے 30فیصد طلبہ و طالبات ذہنی دبائو میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرینگس نے 9اکتوبر 2022 کو اپنی سروے میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 6سے 12ویں جماعت تک کی لڑکیوں میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ دبائو ہوتا ہے۔ 6سے 12ویںجماعت کی 1لاکھ 88ہزار 220لڑکیوں اور 1لاکھ 90ہزار 944 لڑکوںکو سروے کے دائرے میں لایا گیا جن میں12.25فیصد لڑکیوں نے تسلیم کیا کہ وہ پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے دبائو کی شکار ہیں جبکہ صرف 9.98فیصد لڑکے ذہنی دبائو اور بے چینی محسوس کرتے ہیں۔سروے میں حصہ لینے والی لڑکیوں میں سے 81.1فیصدنے اعتراف کیا ہے کہ پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے وہ کبھی نہ کبھی ذہنی دبائو اور بے چینی کی شکار ہوئے ہیں جبکہ لڑکوں میں 77.7فیصد نے مانا ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ بھی پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے ذہنی دبائو اور بے چینی کے شکار ہوتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کاٹھی دروازہ میں بطور کنسلٹنٹ تعینات ڈاکٹر آسیہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ و طالبات پڑھائی اور امتحانات کی وجہ سے ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آسیہ نے کہا کہ جب سالانہ امتحانات یا نتائج کا وقت آتا ہے تو ذہنی دبائو کے شکار طلبہ و طالبات کی تعداد کافی حد تک بڑھ جاتی ہے اور ان میں اکثر مقابلوں کے امتحانات میں شامل ہونے والے طلبہ کی زیادہ تعداد ہوتی ہے۔ ڈاکٹر آسیہ نے بتایا کہ ایم بی بی ایس میں زیر تعلیم طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی ذہنی دبائو اور بے چینی کی شکار ہوتی ہے کیونکہ متواتر طور پر پڑھائی اور امتحانات میں اچھے نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کرنا طلبہ کی خواہش ہوتی ہے۔ ماہر نفسیاب پروفیسر یاسر احمد راتھر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ تعلیم سے متعلق دبائو کی شکار زیادہ تر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں کیونکہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہیں اور اس خواہش کو پورا کرنے کی وجہ سے وہ دن رات پڑھائی کرتی ہیں اور ذہنی بوجھ کی شکار ہوجاتی ہے لیکن لڑکے پڑھائی اور امتحانات کا کم دبائو لیتے ہیں اور ان کے پاس اس ذہنی دبائو کو کم کرنے کے مختلف طریقے بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ سالانہ امتحانات کے وقت روزانہ آنے والے مریضوں میں30فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم سے متعلق دبائومحسوس کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان میں 20فیصد لڑکیاں اور 10فیصد لڑکے ہوتے ہیں۔