زَر پرستوں سے بیٹیوں کو کون بچائے؟ حال و احوال

رابعہ بتول بھٹ ۔پونچھ

روزِ ازل سے ہی انسانی معاشرے میں اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیاں بھی رہی ہیں۔لیکن معاشرے کو باامن اور خوبصورت بنانے میں پاک طینت انسانوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔سماج میں آئے دن کوئی نہ کوئی برائی جنم لیتی رہتی ہے۔ کچھ تو پہلے سے موجود ہیں،لیکن ایک ایسی برائی جو ناسور بنتی جارہی ہے وہ ہے’’جہیز کی لعنت‘‘۔یہ ایک ایسی رسم ہے جس کے ذریعے ایک بیٹی کے والد کی مشقت سے کمائی ہوئی رقم ایک دوسرے خاندان میں منتقل کر دی جاتی ہے۔اگرچہ دورِ قدیم میں یہ کام اپنی بیٹی سے محبت کا اظہار کرنے کا ایک عمل ہوتا تھا،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت میں موجود لالچ نے اس عمل کو اتنا بڑھاوا دیا کہ آج یہ ایک ناسور میں تبدیل ہو چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ رشتے کا سوال کرتے ہوئے جہیز کا سوال بھی کرتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی توقعات میں ہر بار اضافہ ہی ہوا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جہیز،در حقیقت میں کچھ قیمتی اشیاء کانام ہے جو کہ مادی ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر سونے چاندی کے زیورات،عمدہ قسم کے برتن،گھر کی آرائش کا ساز و سامان اور بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب لڑکے والے جہیز میں صرف سونے چاندی کے زیورات ہی نہیں مانگتے ہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہنگی گاڑیاں اور نقدی رقم کی بھی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور نہیں دینے پر لڑکی کے ساتھ زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں۔
امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں نے اس رواج کو فروغ دے کر غریب اور متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے ایک اور پریشانی کا مسئلہ بنا دیا ہے۔متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے والدین مجبوریوں کے مارے یہ سوچ کر اپنی بیٹیوں کو لاکھوں کا سامان دے کر اس اُمید سے رخصت کرتے ہیں کہ شاید ہماری بیٹی اپنے سسرال میں اچھا مقام حاصل کر سکے گی۔لیکن عموماً ماجرا اسکے بالکل برعکس ہوتا ہے۔در حقیقت جہیز انسانیت کے لیے ایک ایسی لعنت ہے جسکے باعث بے شمار گھرانے برباد ہوچکے ہیں اور انسانیت کو بے تحاشا ضرر پہنچا ہے،جسکی مثال سماج کے ہر حصّے میں ملتی ہے۔اسی سلسلے میں ہمارے سماج میں آئے دن ایک نیا معاملہ سامنے آتا ہے لیکن ایک ایسا واقعہ جو گزشتہ دنوں ہی رونما ہوا ہے جس نے ہر اس انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو زندہ ضمیر تھے،جن کے سینے میں انسانیت کا درد رکھنے والا دل موجود تھا۔یہ واقعہ گجرات کی ایک شادی شدہ لڑکی عائشہ کی خود کشی کا ماجرہ تھا،جو سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیل گیا۔جب عائشہ کی زندگی پر ایک نظر ڈالی اور اس حادثے کی وجہ معلوم کی گئی تو عائشہ پر اسکے سسرال والوں کی طرف سے جو تشدّد کیا گیا تھا، اس کی ایک اہم وجہ جہیز ہی تھی۔جس کے صدمے نے عائشہ کی جان تک لے لی۔
بہر کیف اگر غور کیا جائے تو جہیز ایک جوان لڑکا اور لڑکی کے لئے ایک بہت بڑی لعنت ہے،کیونکہ اگر ایک لڑکی کو جہیز کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسکے سسرال میں اسکا علم و ادب،اخلاق و کردار اور دیگر صلاحیتیں معنی نہیں رکھتی۔اسی طرح اگر ایک لڑکے کے خاندان والے لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس لڑکے میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ یہ سب سازوسامان خود محنت کرکے حاصل کرسکے۔یہ بات ایک نوجوان کی عزتِ نفس کو مسمار کرنے کے لئے کافی ہے۔ایک نوجوان لڑکی کی حیثیت سے میں اس بات کی طرف ضرور اشارہ کرنا چاہوں گی کہ ایک خاتون کی زندگی سے منسلک بہت سے ایسے مسائل ہیں جن سے عورت کی زندگی میں بہت سے مشکلات آتی ہیں اور انہی مسائل میں سے جہیز ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ایسے ہی مسائل سے عام طور پر عورت ذہنی مسائل سے دو چار ہوتی رہتی ہے اور اس طرح گھر کی ذمہ داریاں خاص طور پر بچوں کی تربیت کرنا بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔اس سلسلے میں ایک لڑکی نجمہ (نام تبدیل)نے اپنی بہن کا ایک واقعہ سنایا۔اس نے بتایاکہ میری بہن کی شادی میں میرے والد نے اپنی جمع پونجی خرچ کر دی۔ شادی تو بالکل سادگی سے کی لیکن زیادہ تر پیسہ اسکے جہیز پر لگ گیا۔کچھ مدت کے بعد میری بہن کے سسرال والوں نے جہیز کے سامان میں نقص نکالے اور انہی باتوں کو لے کر میری بہن بہت پریشان رہتی تھی۔نجمہ کہتی ہے کہ اس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے والد کی کمائی ضائع ہوگئی اور جس مقصد کے لیے جہیز دیا تھا، وہ بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اسی طرح ایک لڑکی ذوقیہ جہیز کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک عورت کے حق میں ہونے والی تمام نا انصافیوں میں یہ ایک بڑی نا انصافی ہے کہ شادی کے رشتے میں صرف لڑکی کو ہی جہیز دینا پڑتا ہے۔ تاہم نجمہ کی بات سن کر یہی لگتا ہے کہ سماج میں پائی جانے والی ہر برائی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں نوجوان نسل کی سوچ اور انکے افکار کو دقیانوسی اور پست ذہنیت سے نکال کر انہیں مثبت سوچ کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔تب جاکر ہم انسانی معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جہیز ایک ایسا جرم ہے جو ایک شادی شدہ لڑکی کو اپنے ہی گھر میں سب سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔یہ صرف لڑکی کو ہی نہیں بلکہ اس کے والدین کو بھی ذہنی طور پر توڑ دیتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جہیز اور اس سے جڑے معاملوں میں ہندوستان دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ایک تازہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں جہیز کی وجہ سے روزانہ 21 خواتین کی موت ہو جاتی ہے۔یعنی صرف ہندوستان میں ہی ہر سال دو لاکھ سے زیادہ خواتین جہیز کی وجہ سے ماری جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کے خلاف ملک میں سخت قانون ہے اس کے باوجود یہ رُک نہیں رہا ہے۔ اس کا مطلب اسے روکنے کے لئے سخت قانون سے زیادہ اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔(چرخہ فیچرس)