رہبانیت۔ جس کو اسلام نے منع کیا ہے تاریخی حقائق

ڈاکٹر غلام قادر لون

قوموں کی تاریخ اور ان کی عقلی وروحانی تحریکوں کی نشوونما اور عروج و زوال کے اسباب انتہائی حیرت انگیز اور مضحکہ خیز ہیں۔شائد ہم سبھی اس بات سے واقف نہ ہوں کہ جب دوسری صدی عیسوی میں عیسائیت میں ’’عارفین‘‘ کافرقہ وجودمیں آیا،تو اس فرقہ سے وابستہ لوگ غور وفکر اور مراقبہ پر ہی زور دیتے تھے۔ اُن کا مذہب یہ تھا کہ غور و فکر اور مراقبہ کے نتیجہ میں انسان کو وصال ِالٰہی حاصل ہوتا ہے اور اس طرح اُسے خدا کے ساتھ مل کر اتحاد و وصل کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ عارفین ِرہبان تمام کائنات میں قوائے ربوبیت کو مسیح کا نام دیتے تھے اور ان میں سے جن لوگوں کو گمان ہوتا تھا کہ ہم نے نظام ِعالم کی تمام قوتوں اورطاقتوں کو سمیٹ لیا ہے ،وہ ’انا المسیح‘ کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان عارفوں کا خیال تھا کہ انھیں ماوراء الادراک حقیقتوں کا عرفان حاصل ہے۔ عارفین کے فرقہ کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ رہبائیت نے عیسائیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عیسائی مذہب کے اندر رہبانیت دو وجوہ سے پیداہوئی، ایک وجہ یہ تھی کہ عیسائی علماء نے دنیا کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا ار دوسرا سبب یہ تھاکہ دین کے حاملین نے مذہب کو ایک پیشہ میں تبدیل کیا تھا۔ رہبانیت اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج تھی اور یہ تحریک اپنے وجود اور نشوونما کے لیے چرچ کی بالکل محتاج نہیں تھی۔ اس تحریک کی ابتدامصر کے صحراؤں میں ہوئی، جہاں ایک نوجوان سینٹ انطونی ؔنے اپنا گھر چھوڑ کر رہبانیت اختیارکی۔ ایک مدت تک ویرانوں اور کھنڈروں میں گھوم کر اُس نے مشرقی نیل کے نزدیک بحرِ احمر کے قریب جبل قلزم پر پانی اورسایہ والی جگہ پراپنی تمام زندگی گوشۂ نشینی اور عزلت میں گزاری۔ مصر کے بعد اس تحریک نے فلسطین اور شام کو اپنے دائرۂ اثر میں لیا۔ چنانچہ سینٹ ہلاریوؔن نے فلسطین میں رہبانی نظام کی بنیاد ڈالی۔ میلان میں سینٹ ایمبروسؔ نے ایک خانقاہ قائم کی اور سینٹ اگسٹاینؔ نے افریقہ میں اس تحریک کو تقویت بخشی۔سینٹ جرومؔ نے فلسطین میں رہبانیت کو فروغ دیا۔ سینٹ پاش میوسؔ نے رہبانیت کا پہلاسلسلہ قائم ۔ سینٹ بینڈیکؔ نے روم اور نیپلر کے درمیان اپنی خانقاہ قائم کی اور 529 عیسوی میں اس نے اپنا مشہور نظام تیار کیا، جس میں رہبانیت کے اصول وو ضوابط طے کئے گئے۔
ایک مورخ کے بہ قول رہبانیت کی تحریک وبا کی طرح پھیل گئی۔ صرف مصرمیں 76 ہزار راہب اور27 ہزار راہبات تھیں۔ سینٹ پاشمیوسؔ نے چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں اپنا سلسلہ قائم کیا تو ایک مختصرسی مدت میں ان کے پیروکاروں کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی۔ مصر ہی میں ایک بڑے راہب کی ماتحتی میں پانچ ہزار راہب تھے۔ مؤرخین کے مطابق مصرکا ایک شہر تیس ہزار کنواری راہیات اور دس ہزار راہوں سے بھرا پڑا تھا۔ سینٹ جیروم کے عہد میں ایسٹر کے موقع پر پچاس ہزار راہب جمع ہوئے تھے۔ رہبانیت نے معاشرہ کے ہرطبقہ کو بری طرح اپنی گرفت میں لیا۔ عورتیں، کسان، مزدور، امراء اور شرفا، سب ایک ہی کشتی پرسوار ہو رہے تھے۔ مائیں ، باپ کی عدم موجودگی میں اپنے بچوں کو راہبانہ زندگی گزارنے کے لیے رہبانوں کے حوالہ کرتی تھیں۔ امرا، اپنی دولت کو راہبوں کے سپرد کرکے خانقاہی کی زندگی کو ترجیح دیتے۔ غریب اپنی غربت اور افلاس سے تنگ آکر راہب بنتے تھے۔ ایک دفعہ دشمن نے حملہ کیا تو لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ دنیا کاخاتمہ قریب ہے۔ بس پھرکیا تھا جھنڈ کے جھنڈ خوف کے مارے خانقاہوں میں جمع ہو گئے۔ ترک ِدنیا کرنے والے ان سادہ لوح انسانوں کی زندگی عجیب تھی، ان کی غدا معمولی ہوتی تھی۔ راہب عام طور سے خشک پھل کی معمولی مقدار اور پانی استعمال کرتے تھے، گرم پانی کا ستعمال دنیا داری کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ ایک راہب تیس سال تک جَوکی روٹی کھاتا رہا اور کیچڑ آلود پانی استعمال کرتا رہا۔ ایک دوسرا راہب روزانہ ایک غار میں رہ کر صرف پانچ انجیر پر گزارہ کرتا رہا۔ ایک اور تارکِ دنیا سینٹ پولوسؔ ساٹھ سال تک آدھی روٹی پر گزراوقات کرتا رہا۔ ایک راہب کو جب دوسرے راہب نے پرندے کا گوشت پیش کیا تواس نے صاف صاف کہا کہ جب سے میں راہب بنا ہوں، گوشت نہیں کھایا ہے۔ سینٹ سابیوسؔ وہ اناج بہ طور غذا استعمال کرتے جو ایک ماہ تک پانی میں سڑکر تباہ ہو چکا ہوتا۔ عراق اور شام کے ایک علاقہ میں راہبوں کا ایک بڑاطبقہ ایسا تھا جو جنگلی جانوروں کی طرح مادر زاد ہوکر عریاں چلتا تھا۔ یہ راہب پہاڑوں اور بیابانوں میں درندوں کے ساتھ گھاس چرتے تھے اوررات کو کسی درندہ کے غار میں یاکسی چٹان پرلیٹ جاتے تھے۔ راہبوں کا یہ طبقہ دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کرجنگلی چوپایوں کی طرح چلتا اور ان کے جسموں پر سوائے ان کے لیے اُلجھے بالوں کے کوئی لباس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ انہیں چرندے (Grazers) کے نام سے پکارتے تھے۔راہبوں کے حلقوں میں گندگی اورغلاظت کو تقدس کی علامت اور روحانی پاکیزگی کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ بدن پر میل کچیل کی وجہ سے جوئیں پیدا ہوتی تھیں، جنہیں Pearls of God کہا جاتا تھا۔ پانی کوچھونا یا بدن پرتیل لگانا گناہ سے کم نہیں تھا۔ یبنٹ جمیسؔ کو مثالی راہب مانا گیا، اُس نے زندگی بھر نہ کبھی غسل کیانہ تیل کی مالش کی اور نہ زندگی بھر سر پر استرا پھیرا۔ ایک اور راہب نے زندگی میں کبھی کپڑے نہیں دھوئے اور نہ تبدیل کیے ،یہاں تک کہ اس کا چولا چیتھڑے بن ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بدن سے گر کر زمین سے آلگا۔ سینٹ ابراہمؔ رہبانیت اختیارکرنے کے بیس سال زندہ رہا۔ اس دوران اس نے نہ کبھی منھ دھویا اور نہ پیر۔ راہبوں میں اس کی بزرگی کی شہرت تھی، اس کے چہرے کی نورانیت کو روح کی پاکیزگی کی علامت سمجھاجاتا تھا۔ سینٹ ایمن ؔنے کبھی اپنے جسم کو نہیں دیکھا۔ ایک مشہور راہب نے ایک سوتیس راہبات کی خانقاہ میں شمولیت اختیار کی، ان راہبات نے بھی پانی سے اپنے پیرنہیں دھوئے تھے اور پانی سے غسل کا ذکر سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوتا تھا۔ ایک مشہور راہبہ ساٹھ سال تک سوائے انگلیوں کے اپنے جسم کا کوئی حصہ دھونے سے انکار کرتی رہی۔ سینٹ الیکسینڈرؔ نے ایک دفعہ صفائی کی طرف راہبوں کے میلان پر افسوس کرتے ہوے کہا کہ ہمارے اسلاف نے بھی اپنے منھ ان سے نہیں دھوئے تھے، لیکن آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم حمام میں جاتے ہیں۔ ایک دفعہ صحرا میں پانی کی زبردست کمی ہوئی، خانقاہ کے بڑے راہب نے دعا کی تو ایک ندی بہنے لگی۔ انہوں نے اصرار کرکے بڑے راہب کو غسل خانہ بنانے پر آمادہ کیا۔ غسل خانہ بنا،لیکن جوں ہی راہبوں نے نہایا دھویا، ندی خشک ہوگئی۔ دعائیں کی گئیں اور روزے رکھے گئے، مگرپانی ندارد۔ پورا سال گزر گیا، آخر میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ غسل خانہ کی تعمیر سے خدائی قہر نازل ہوا۔ چنانچہ غسل خانہ مسمار کیا گیا تو ندی بہنا شروع ہوئی۔بہ ایں ہمہ زہد و پرہیز گاری علم بے زاری کا مرض عام تھا۔ سینٹ جیروم ؔنے تو صاف صاف کہا کہ ایک راہب کا فرض علم سکھانا نہیں، بلکہ رونا ہے۔ پورے دوسوسال تک نفس کشی اور مجاہدہ کو روحانیت کی معراج سمجھا گیا۔ تعذیب نفس کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔مؤرخین نے راہبوں کے مجاہدے کے جو واقعات نقل کیے ہیں، انھیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سینٹ بیساریونؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے چالیس دن اور راتیں جھاڑیوں میں گزار دیئے۔ چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں ٹیکا۔ سینٹ جان ؔپورے تین سال تک ایک چٹان پر سرجھکائے دعائیں کھڑا رہا، اس دوران نہ کبھی وہ زمین پر بیٹھا اور لیٹا۔ اسکندریہ کا سینٹ میکاریوسؔ چھ ماہ تک ایک دلدل میں اس حال میں سوتا رہا کہ اس کے ننگے جسم پر زہریلی مکھیاں پوری آزادی کے ساتھ ڈنک مارتی تھیں۔ وہ ہروقت 80 پونڈ لوہے کا وزن اپنے جسم پر لادے رہتا تھا۔ اس کا مر یدایسوبیسؔ ایک سو پچاس پونڈ وزنی لوہا اپنے جسم پر اٹھائے چلتا تھا، اس نے پورے تین سال ایک خشک گڑھے میں گزارے۔ راہبوں کے نحیف اوزار جسم لوہے کی صلیبوں، کنگنوں، چوڑیوں، زنجیروں اور پٹوں کے وزن سے ہر وقت دبے رہتے تھے۔ جسمانی ریاضتوں کی تاریخ میں سینٹ سائمنؔ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی خوفناک جسمانی ریاضتیں اور مجاہدے کے عجیب وغریب طور طریقوں نے اسے رہبانیت کی تاریخ میں لافانی مقام عطا کیا ہے، اُس نے اپنے جسم کے چاروں طرف اس طرح رسی لپیٹی تھی کہ جسم کا گوشت سڑ کر رسّی کے اوپر آگیا تھا اور رسّی مکمل طور پر جسم میں دھنس گئی تھی، جس سے جسم سڑ گیا اورکیڑے پیداہوئے۔ جب وہ جنبش کرتا تو کیٹرے فرش پر آگرتے۔ جسم کے سڑے ہوئے گوشت سے پیدا ہونے والی بدبو تماشائیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی، کبھی کبھی وہ خانقاہ سے نکل کر ایسے گڑھوں میں سوتا تھا، جو بد روحوں اور جناتوں سے آباد ہوتی تھیں، اس نے تین ستون بنائے تھے ان میں ایک 60 فٹ لمبا اور صرف دو فٹ گھیراؤ کا تھا۔ زندگی کے تیس سال اس نے اس ستون پر گزارے۔ کسی موسم میں چاہے وہ کتنا ہی ناسازگار کیوں نہ رہا ہو، نیچے نہیں آیا۔ اس دوران وہ مسلسل کھڑے ہو کر اپنے پاؤںپر جھکنے کی مشق کرکے عبادت کرتا رہا، پورے ایک سال تک وہ ایک ٹانگ پرکھڑارہتا، جب کہ اس کی دوسری ٹانگ پیپ دارپھوڑوں سے گھناؤنا منظرپیش کررہی تھی۔ اس کے جسم کے کیڑے نیچے گرتے تھے، انہیں اٹھا کر پھر زخموں پر رکھ دیا جاتا تھا اور سینٹ کیڑوں سے کہتے : ’’کھاؤ خدانے جو کچھ تمھیں دیا ہے۔‘‘ سینٹ سائمنؔ ایک مثالی عیسائی راہب ماناجاتاہے، بہت سے راہبوں نے اس کی تقلید کی کوشش کی ہے۔ سینٹ ہلاریونؔ نے اسی جذبہ کے تحت اپنی زندگی کے 48 سال کی مدت ناقابل بیان جسمانی ریاضتوں اورمشقتوں میں گزار دی۔ایک راہب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے نوے سال تک کسی انسان کے ساتھ کام نہیں کیا، خاموشی کا خوگر بنانے کے لیے ان لوگوں نے عجیب وغریب طریقے ایجاد کر لیے تھے جو ایک انسان کے لیے ناقابل عمل اور ناقابل برداشت تھے۔ یہ عیسائی رہبانیت کی ایک مختصر جھلک ہے۔ تاریخ میں رہبانیت کے عنوان سے طویل اور دل چسپ باب رقم ہیں، ہر قارئین کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کس انتہا درجہ پر پہنچی تھی۔ بعد میں رہبان خودبھی رہبانیت کا حق اداکرنے سے قاصر رہے۔ چنانچہ ان کی بدعنوانیوں کی اپنی الگ تاریخ ہے۔ دوسری صدی عیسوی سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک مصر، فلسطین، شام اور افریقہ میں اس کا زبر دست زوررہا۔ مسلسل کئی صدیوں تک انسان رہبانیت کے زنجیروں تلے دبا رہا۔ کائنات کی ہر نعمت سے اس نے اپنے آپ کو محروم کر رکھا تھا۔ اس کی زندگی میں سوائے کرب و آلام اور رنج و بے زاری کے کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی۔ عام لوگ ان الم رسید ہ راہبوں کو ہمدردی اور احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ خدا کے نیک بندے ہیں، کائنات سے بے زار، عیش و عشرت سے محروم اور زندگی کی رونق سے دور ہیں۔ رہبانیت کے ان علم برداروں کے لیے یہی چیز کافی تھی کہ روحانی پاکیزگی،زہد وتقشف، مجاہدے اور نفس کشی کے سبب صرف انسان ہی نہیں، جانور، درندے، چرند و پرند، حتیٰ کہ موسموں پر ان کی حکمرانی تھی۔ ان حالات میں رہبانیت کے کم زور پڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں پوری عیسائی قوم ترکِ دنیا کے نشہ میں مدہوش تھی۔ مشرق وسطیٰ بھیک مانگنے والے رہبانوں کی منڈی میں تبدیل ہوا تھا، ہرطرف مجذوب، درویش اور سنیاسی نظر آتے تھے۔ کرامات اور کرشمے وردِ زبان تھے۔ انسان اپنا اصلی مقصد چھوڑکر کاروبارِ حیات ترک کرکے زندگی اور اس کے تقاضوں سے فرار اختیار کر رہا تھا کہ فاران کی چوٹیوں سے ایک آواز بلند ہوئی :
وَّرَهْبَانِيَّةً ِ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّـٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِـهَا ۖ (الحدید:27)
’’اور انھوں نے رہبانیت کو خود اختیار کر لیا تھا۔ ہم نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی فرض کی تھی، پس انھوں نے اس کی پوری رعایت نہیں کی۔‘‘
یہ آواز رہبانیت کی بڑھتی ہوئی گم راہی کے خلاف ایک احتجاج ہی نہیں بلکہ للکار تھی کہ جس کو تم منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے ہو، وہ اللہ کو مطلوب ہی نہیں۔ عیسائی رہبانیت کی پوری تاریخ سامنے رکھ کر ہی اس آیت کریمہ کی وسعت، جامعیت اور معنویت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسلام آیا تو اس نے بنی نوع انسانی کے لیے ایک معقول، پاکیزہ اور معتدل زندگی کا خاکہ بھی پیش کیا جو مادیت اور رہبانیت دونوں سے پاک تھا، جس میں نہ عیش وعشرت کے دل دادہ مسرتوں کو سراہا گیا اور نہ ہی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکرانے والے تارک الدنیا انسانوں کی داد و تحسین کی گئی ہے۔رہبانیت کو قدیم زمانہ سے دنیا کی مختلف قوموں نے تقدس و پرہیز گاری کا مقام دیا ہے۔ عوام کی نگاہوں میں ایک راہب کاحلال و پاک چیزوں کو ترک کرنا ،اس کے بلندیٔ کردارکی علامت سمجھی جاتی تھی، لیکن اسلام نے اس کے برعکس صاف صاف اعلان کیا : فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَّاشْكُـرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ (النحل:114)’’سو کھاؤ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال اور پاک دی ہیں اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘دوسری جگہ ارشاد ہے: فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الانفال:69)’’سو کھاؤ حلال اور پاکیزہ چیزیں اور ڈرتے رہو اللہ سے، بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘
عیسائیوں نے حلال وحرام کے بارے میں احباراور رہبان کو مختارکل کی حیثیت دی تھی۔ وہ جس چیز کو حلال کہتے، اسے عیسائی حلال سمجھتے اور جس چیز کو حرام کہتے ،اسے حرام سمجھتے۔ قرآن نے اس بات کی مذمت کی اور کہا کہ تحلیل و تحریم کا حق و رہبان کو دنیا انھیں خدا بنا دینا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ (التوبۃ: 31)’’انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے احبار اور رہبان کو رب بنا لیا ہے۔‘‘
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم (م687) نے جو اس وقت عیسائی تھے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن میں سونے کی صلیب ڈالے (اعتراض کرنے) آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ جس چیز کوحلال قرار دیتے ہیں، تو تم اسی کوحلال مانتے ہو اورجس چیز کو حرام کہتے ہیں تم اس کو حرام مانتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات صحیح ہے۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ یہی ان کی عبادت ہوئی۔(یعنی ان کو ربّ بنایا ہوا ہے)