رُوپ اَنوکھے افسانہ

ایف آزاد ؔدلنوی

صبح کی چائے پیتے ہی ماریہؔ کمر بستہ ہو کر کوچے میں نکل پڑتی تو چڑھتے سورج کی نیم گرم دو دھیاکرنیں اس کے چہرے پر بکھر جاتیںاور اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتیں ۔کوچے سے گزرنے والے بزرگ اس کو دیکھ کر کچھ ساعتوں کے لئے دم بھر لیتے اور نیلے آسمان کی جانب نظریں اٹھا کر یہ دعا کرتے کہ ماریہؔ جیسی بیٹی ہرگھرمیں ہو ۔ماریہؔروز ہاتھوں میںجھاڑو لئے مستعدی سے کوچے کی صفائی کرنا شروع کر دیتی ۔اس کوچے میں بے شمار فاسٹ فووڈ کے خالی لفافے بکھرے پڑے رہتے جو چھوٹے چھوٹے بچے نکڑ پر واقع دوکان سے خرید کر لاتے۔نکڑ کے متصل اس بستی کے ایک ریئس جان محمد کا عالیشان مکان بھی توجہ کا مرکز بن جاتا کیونکہ یہاں چھوٹے بڑے لفافوں کے ڈھیر نظر آتے۔سوک سنس کا احساس اس بستی کے بچوں اور نہ ہی جوان لڑکے لڑکیوں میںدکھائی دیتا۔جان محمد کی بیٹیاں ماریہ کی ہم عمر تھیںجو اس کو چڑانے کے لئے اکثر اوقات گند غلاظت کوچے میں پھینکتی رہتیںمگر ماریہ نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔بستی کے سب لوگ جان محمد کو عزت کرتے تھے، ماریہؔ اسے جان انکل کہہ کر پکارتی اور اس کی دعائیں لیتی ۔جان محمد بھی اس معاملے میںکوئی بخل نہیں برتتے تھے وہ دل سے ماریہ کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے۔ماریہ ؔایک نیک دل لڑکی تھی کوچے کی صفائی ستھرائی کرنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ اس کوچے سے گزرتے ہوئے بہت سے سرکاری ملازم اپنے اپنے دفتر چلے جاتے۔شکیل کی پوسٹنگ بھی وہیں ایک دفتر میں ہوئی تھی۔شکیلؔ جوائننگکے دن سویرے ہی دفترکی طرف چل پڑاتھا۔اس کوچے میں پہنچتے ہی وہ اُس وقت چونک پڑا جب اس نے ماریہ کو جھاڑو مارتے ہوئے دیکھا۔وہ خود سے بڑبڑانے لگا۔
’’اللہ نے فرصت سے اس کے چہرے کو تراش لیا ہوگاکتنی خوب صورت ہے۔‘‘
شکیل اسے بات کرنے کا بہانہ سوچتے ہوئے قریب جا کر پوچھ بیٹھا۔
’’ سنئے۔۔۔۔۔۔۔یہ ریونیو دفتر کس طرف پڑتا ہے۔‘‘
ماریہؔ نظریں جھکائے ہوئے بولی
’’آپ سیدھا چلے جائیے۔‘‘
اس مختصر سے جواب کو سن کر وہ پھر بول پڑا
’’وہاں تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔‘‘
ماریہؔ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
’’آپ کو کم وبیش دس منٹ لگیں گے۔اس کوچے کے آخر پر ریونیو دفتر کی بلڈنگ ہے۔‘‘
شکیلؔ اس کے چہرے کی خوبصورتی میںکچھ لمحوں کے لئے کھو سا گیا ۔وہ اسے دیکھتے ہی رہنا چا ہتاتھا۔ ماریہ پھر جھاڑو دینے لگی اور شکیلؔ اس کا شکریہ ادا کرکے دفتر کی طرف چل پڑا مگر وہ مڑ مڑ کر اس کو دیکھ رہا تھا۔اس کے ذہن میں کئی سوال آ رہے تھے۔
’’کیا یہ میونسپلٹی کی ملازمہ ہے۔‘‘
پھر خود ہی نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑانے لگا
’’نہیں ۔۔۔۔۔۔نہیں۔ اتنی خوب صورت لڑکی خاکروب نہیں ہو سکتی ہے۔یہ چال ڈھال سے خواندہ لگتی ہے۔‘‘
شکیل ؔ دن بھر ان ہی سوالوں میں الجھا رہااور ماریہ کی معصوم سی صورت بار بار اس کی نظروں میں پھرتی رہی جس نے اس کے دل ودماغ میں کھلبلی مچا رکھی تھی۔وہ اب پابندی سے ڈیوٹی پر آنے لگااور روز ہی کوچے کی صفائی ستھرائی دیکھ کروہ ماریہ سے متاثر بھی ہونے لگا۔ اس کے دل میں ماریہ کے لئے عجب طرح کی ہمدردی پیدا ہونے لگی تھی اور وہ اکثر اوقات اسی کے بارے میں سوچتا رہتا۔جب کئی دنوں سے اس نے ماریہ کو نہیں دیکھاتو اس کے دل کی بے تابی بڑنے لگی۔اس نے ڈیوٹی پر آنے کے اوقات میں تبدیلی کی تا کہ وہ ماریہ سے مل سکے۔
اس روز جب وہ ڈیوٹی پر آرہاتھا تو ماریہ کو کوچے کی صفائی میں منہمک دیکھ کر بولا۔
’’آپ روز ہی اس کوچے کی صفائی کرتی ہیں۔‘‘
یہ سن کر ماریہ اس کی طرف پلٹ کر بولی
’’ہاں جناب اس کوچے کی ساری صفائی میرے ہی ذمہ ہے۔‘‘
شکیل بات جاری رکھتے ہوئے
’’آپ ملازمہ ہیں۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔۔۔۔ جناب۔ میں ملازمہ نہیں ہوں۔میں اسی بستی میں رہتی ہوں۔وہ۔۔۔۔۔جو جان انکل کا گھر ہے اس کے بائیں جانب ہمارا گھر ہے۔‘‘
شکیل بولا
’’ یہ جان انکل کون ہے ۔‘‘
’’جناب جان انکل اس بستی کی ایک معتبر شخصیت ہیں۔ لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ وہ ایک نیک صفت انسان ہیں اور ان ہی کے مشورے سے بستی کا ہر کام ہوتا ہے۔‘‘وہ بولی
’’آپ روز ہی اس کوچے کی صفائی کرتی ہیںآپ کو اس کامعاوضہ ملتا ہوگا۔‘‘
ماریہ نے اس کی طرف دیکھ کر مایوسانہ لہجے میں کہا ۔
’’جناب آپ سب کو ایک ہی ترازو میں تولتے ہیں میں رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتی ہوں۔ہمیں اپنے اڑوس پڑوس کو صاف رکھنا چاہئے۔‘‘
’’آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں ویسے آپ پڑھی لکھی ہونگی ۔‘‘
یہ سن نکر ماریہ کو کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگااور کچھ دیر تک شکیل کو تکتی رہی اور پھر بولی
’’جناب میں نے علم عمرانیات میں ایم ۔ اے کیاہے۔‘‘
شکیل کو اندر ہی اندرمسرت ہونے لگی اس نے ماریہ پر ایک پیار بھری نظر ڈالی اوردفتر کی اور چل پڑا۔
وقت گزرتا رہا۔دونوںمیں نزدیکیاں بڑھنے لگیںاور بالآخرایک ساعت پر شکیل ؔ اسے پرپوز کربیٹھا
’’ماریہؔمیں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔اگر آپ کی رضامندی ہو تو میں آپ کے گھر شادی کا پیغام بھجوادوں۔‘‘
یہ سن کر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش بیٹھی پھر نظریں نیچی کر کے بولی
’’آپ جان انکل سے مل لیجئے۔‘‘
’’ارے بھئی آپ کے جان انکل سے ضرور مل لوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر شکیل ؔ دفتر کی طرف چل پڑا اور کام میں مصروف ہوا۔شکیل ؔ کئی ہفتوں تک ماریہ سے مل نہ سکا کیونکہ دفتری ریکارڈ کی ڈیجٹائیزیشن کا کام چل رہا تھا۔
ماریہ ؔ روز ہی کوچے میں اس کا انتظار کرتی۔وہ جھاڑو دیتے دیتے بار بار اٹھ کھڑی ہو جاتی اور کوچے کی نکڑ کے طرف دیکھتی رہتی ۔اس کے دل میں طرح طرح کے خدشات آجاتے۔پھر ایک دن سہ پہر کے بعد ماریہ کوچے میں کچھ خرید رہی تھی کہ اچانک اس نے شکیل کو جان انکل کے مین گیٹ کے پاس دیکھاوہ خوشیوں سے پھولے نہ سمائی۔اس کی سونی آنکھوں میںجیسے بہار کی ساری چمک دمک اُتر آئی ۔جان انکل کو گیٹ کھولتے دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑی۔ جان انکل کی نظریں گیٹ کے سامنے پڑے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑیںجس سے بدبو آرہی تھی شکیلؔ کو سامنے دیکھ کر بولے۔
’’اندر آئو بیٹے۔‘‘
چائے پیتے ہوئے شکیل ؔ نے آنے کا مدعا بیان کیاتو جان انکل بولے
’’اچھا آپ ماریہ ؔ بیٹی سے نکاح کر نا چاہتے ہیں۔‘‘
جان انکل نے ماریہ ؔ کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کئے
’’وہ بہت اچھی لڑکی ہے ایسی لڑکیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں۔‘‘
پھر اچانک بولتے بولتے وہ چپ ہو بیٹھااس کی نظروں میںگیٹ کے سامنے پڑا گندگی کا ڈھیر پھرنے لگا۔
’’ اگر ماریہ بیٹی ؔ اس بستی سے چلی گئی تو یہ کوچہ گند گی کا کوڑا دان بنے گا۔‘‘
جاتے وقت جان انکل شکیل ؔ سے مخاطب ہوتے ہوئے بول اٹھے۔
’’مگر۔۔۔۔۔۔۔بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
اور شکیل ؔ کچھ دیر تک کھڑے کھڑے جان انکل کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
���
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر؛6005196878