روزہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نسخہ ٔاکسیر صیام ۔روحانی امراض کا بہترین علاج

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر: 183)
ترجمہ : ’’ اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کردیئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرص کردیئے گئے تھے تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
جس طرح ہم دنیا میں اپنی عمارتوں کی آہک پاشی کرتے اور داغ دوزی کی طرف توجہ کرتے ہیں ،اُس کا صرف اور صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ ہماری یہ عمارت گرنے، جھڑنے اور بدنما ہونے سے محفوظ رہیں۔ ٹھیک یہی حال ہمارے پروردگار آقا و مالک کا ہے جو ساری کائنات کا تنہا خالق و معمار بھی ہے۔ جس طرح اپنی عمارتیں ہم کوپیاری لگتی ہیں ،اس سے کئی گنا زیادہ اللہ رب العزت اپنے بندوں سے بے انتہا محبت رکھتے ہیںاور اُس کی محبت اتنی وسیع ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی ستر مائو وں سے زیادہ چاہتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس دنیا کا خالق و مالک جو حقیقت میں( سلطانِ کائنات بھی ہے) اتنا حساس ہے کہ اپنے بندوں میں کسی قسم کی خرابی یا کجی کو ہر گز گوارہ نہیں کرتا، یعنی اللہ عزوجل یہ چاہتے ہیں کہ اسکے بندے ہر وقت درست حالت میں اپنی زندگی کے شب و روزگذاریں۔اس عظیم مقصد کیلئے رب ّالعزت نے اپنے بندوں کیلئے سال میں ایک مرتبہ ایک ایسے ماہ مبارک کو مقرر کردیاکہ ان مبارک ایام میں اپنے ان بندوں کی تربیت کا سامان ہوجائے۔
غرضیکہ آیت مبارکہ مذکورہ بالا کا آغاز’’اے ایمان والو‘‘ کے شاندار خطاب سے ہورہا ہے۔اور آگے فرمایا جارہا ہے تم پر روزے فرض کردیئے گئے اور روزے کیوں فرض کردیئے گئے؟ اس کا فائدہ یہ بتایا جارہا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ اس چھوٹی سی آیت مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بندوں سے بہت محبت کرتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی طرف سے روانہ کردہ انبیاء علیہم السلام اور اس کی نازل کردہ کتابوں پر یقین کرتے ہیں، اور اپنی ابدی زندگی کے سلسلہ میں فکر مند رہتے ہیں، یعنی توحید، رسالت،آخرت کا زبانی اقرار کرنے کے بعد اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے عملی میدان میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بڑے پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ خطاب کرتے ہیں کہ ’’اے ایمان والو‘‘ لیکن اس کے بندے اپنی بشری کمزوریوں کی بناء پر اپنے آپ کو درست حال میں نہیں رکھ پاتے( جس طرح اللہ کومطلوب ہے) ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کیلئے اپنی بے پایاں محبت کے تقاضے کے تحت سال میں ایک مرتبہ ایک ایسا نسخہ اکسیر تجویز فرمایا ہے جو گذشتہ انبیاء کی امتوں کیلئے بھی عطا کیاگیا تھا کہ اس کے ذریعہ ایمان والوں کے اندر سے ہر قسم کا عیب ہر قسم کی کجی و نافرمانی عدول حکمی کی کیفیت ( جو کہ بشری تقاضہ کے تحت ) پائی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جائے اس ’’نسخہ اکسیر‘‘ کا قرآنی نام ’’صوم‘‘ (روزہ ) ہے۔ اور روزے کی شان یہ بیان کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے اہل ایمان میں تقویٰ پرہیزگاری وجود میں آتی ہے۔ گویا روزہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نسخہ اکسیر اور روحانی امراض کا بہترین علاج ہے۔
تقویٰ دو طرح کا ہوتا ہے :ایک تقویٰ دشمن کا ہوتا ہے اور ایک تقویٰ اللہ رب العزت کا ہوتا ہے لیکن ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یعنی دشمن کاتقویٰ دشمن سے دور کرتا ہے اور اللہ رب العالمین سے تقویٰ پرہیزگاری فرمانبرادری و اطاعت کا سبب بنتا ہے اور اللہ جل شانہ کے قریب کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر اسی روزہ کو لے لیجئے کہ روزہ کی حالت میں انسان اگر چاہے تو چھپ چھپا کر کچھ کھاپی سکتا ہے لیکن ایک صائم (روزہ دار) ہر گز ہر گز اس طرح کا عمل نہیں کرتا۔ کیونکہ بحالت روزہ اس کے اندر خدا کا خوف حاوی رہتا ہے۔ یعنی روزہ کے ذریعہ اس کا ایمان اتنا قوی ہوجاتا ہے کہ روزہ دار کو اس بات کا یقین رہتا ہے کہ خواہ مجھے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے لیکن وہ تو مجھے ضرور دیکھ رہا ہے جس کے نام پر اور جس کے حکم پر میں نے روزہ رکھا ہے۔ الغرض اس ماہ مبارک کی تربیت، اہل ایمان کو اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اس کے دل و دماغ میں جس طرح بٹھاتی ہے باقی گیارہ ماہ کی زندگی بھی ٹھیک اسی یقینی کیفیات کے ساتھ گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زندگی میں ہر سال ’’ماہ صیام‘‘ (رمضان المبارک ) کو لاتے رہتے ہیں تا کہ اللہ پر ایمان لانے والے بندے، ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے ایک صالح مومن کی حیثیت سے اس دنیائے فانی سے منتقل ہوکر ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں پہنچ کر جنت جیسی نعمت حاصل کرسکیں جو صرف مومنین، متقین کیلئے تیار کی گئی ہے۔ یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے محبوب بندوں ( ایمان والوں) کی تربیت کیلئے ماہ رمضان کو ہی کیوں منتخب فرمایا؟ یہ اس لئے کہ اس ماہ مبارک میں قرآن کا نزول ہوا لہٰذا قرآن حکیم کی نسبت سے اس ماہ کو ماہ صیام کی حیثیت سے عزت بخشی گئی اور اپنے بندوں کیلئے اسی ماہ بابرکت کا انتخاب فرمادیا گیا۔ یعنی تمام انسانوں کیلئے دستور حیات کو اسی ماہ میں نازل کیاگیا اور ان کی تربیت حیات کیلئے بھی اسی ماہ کو منتخب کردیاگیا گویا قرآن مجید اور رمضان کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق پیدا کردیا گیا۔
ایک دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں۔ ترجمہ:’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ ‘‘ یعنی قرآن کو رمضان کے ساتھ جوڑنے کا مقصد یہی ہے کہ روزہ حصول تقویٰ کیلئے ہے۔ جب انسانوں میں تقویٰ آجائے تو ان کی زندگی قرآن سے قریب ہوگی ،ایمان میں توحید خالص قائم رہے گی، اعمال میں سنتوں کا رواج ہوگا، حق و باطل میں تمیز پیدا ہوگی، من چاہی زندگی سے اجتناب کرتے ہوئے رب چاہی زندگی گذارنے کا جذبہ ابھرے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو پیدا فرمانے کے بعد یوں ہی نہیں چھوڑا ہے بلکہ ان کی رہنمائی اور رہبری کیلئے اپنے بندوں ہی میں سے معصوم افراد کا بہترین انتخاب فرماتے ہوئے مختلف ادوار میں انبیاء علیہم السلام کو متعلقہ قوموں کے اندر سے معبوث فرماتا رہا اور اس سلسلہ کو یوں ختم فرمایا کہ حضرت سید عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر ایک ایسی کتاب نازل فرمادی گئی جو اب رہتی دنیا تک خدائے واحد لا شریک کا بھیجا ہوا آخری پیغام ہے جسکا نام القر آن ہے، فرقان اور نور ہے۔ غرضیکہ روزوں کا فرض کیا جانا اور قرآن کا نا زل کیا جانا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر روانہ کرنے کا صرف یہی ایک مقصد ہے کہ بندے کی پوری زندگی اللہ کی مرضی کے عین مطابق گزرے ۔چاہے اس کا تعلق معاشرت،معیشت، اخلاق سے ہو یا امارت و حکمرانی اور سیاست کا میدان ہو یہ ساری چیزیں شریعت محمدی کے عین مطابق ہوجائیں ،جس طرح ایک روزہ دار اپنے نفس پر قابو پاتے ہوے شیطان ملعون کا مقابلہ کرتا اور شیطانت کو زیر کرتاہے، اپنے مالک کے احکام بجالتا ہے ،باقی عام دنوں (غیر رمضان) میں بھی باطل طاقتوں کا انکار کرے اور اپنے مالک کو ہی حقیقی مقتدر اعلیٰ جانے اس کو اپنا حاکم و فرماروا جانے، جس طرح روزہ دار اللہ ہی سے ڈرتا ہے ٹھیک اسی طرح باقی تمام زندگی میں بھی صرف اور صرف اللہ ہی سے ڈرتا ہے، ٹھیک اسی طرح باقی تمام زندگی بھی صرف اور صرف اللہ ہی کے خوف اور امید کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ جب اہل ایمان میں یہ خصوصیات پیدا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایک ایسا عظیم الشان حوصلہ عطا فرماتے ہیں کہ تمام باطل خدائوں سے آدمی کو بے خوف و نڈر کردیتے ہیں مختصر یہ کہ روزہ ایک ایمان والے کو اپنی زندگی کی تمام مشکلات کو آسانی کے ساتھ برداشت کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے اور حصول جنت کیلئے جوبھی رکاوٹیں آتی ہیں اسے دور کرتا ہے۔سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ روزہ اللہ کو راضی و خوش کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے اور جس شخص سے اللہ راضی ہوجائے، اسے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں نصیب ہوجاتی ہیں ، جس قوم و ملت سے اللہ تبارک تعالیٰ راضی ہوجائیں تو پھر دنیا کی بڑی سے بڑی فرعونی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
اللہ سے دعا کریں کہ ہم اہل ایمان کو رمضان المبارک کے تمام فیوض و برکات سے مالا مال فرمادے اور روزے کے تقاضوں اور اسکے مقاصد کو پوری زندگی میں نافد کرنے کی قوت طاقت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
(رابطہ۔:9849099228)
[email protected]