روزہ افطار کرانے پر بے شمار اجر و ثواب کی نوید شمع فروزاں

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

اسلام دین رحمت،نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی ضامن ہیں۔ قرآن کریم اور تعلیماتِ نبویؐ میں ایثار و سخاوت، انفاق فی سبیل اللہ، خدمتِ خلق، سماجی بہبود اور رفاہ ِعامہ کو اعلیٰ درجے کی نیکی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں ضرورت مندوں کی حاجت روائی کو دین کا ایک اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے۔انفاق فی سبیل اللہ میں ’’بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا‘‘۔ ایک عظیم کارخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔
پیغمبر رحمت، محسن انسانیت حضرت محمدؐ کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی سیرتِ طیبہ کا امتیازی اور روشن پہلو مظلوموں کی داد رسی،حاجت مندوں کی حاجت روائی، خدمتِ خلق اور معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کی مدد و اعانت ہے۔ محب الفقراء و المساکین، سید المرسلین، خاتم النبیین ؐکے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی حیات طیبہ کے اس پہلو کو الطاف حسین حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب،صحیفۂ ہدایت، نسخۂ کیمیاء قرآن کریم جو اسلامی تعلیمات کا دستور اور مثالی منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کتاب مبین میں اللہ عزوجل نے اپنے مقرب اور نیک بندوں کی صفات و علامات بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:’’وہ کھانے کی خواہش اور ضرورت کے باوجود اسے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ، ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا ڈر ہے جو بہت سخت اور غصے سے بھرا ہوا ہوگا۔(سورۃ الدھر)
’’رمضان المبارک‘‘ عبادت و ریاضت، ایثار و ہمدردی، رب کی رضا کی تلاش اور اس کے قرب کا مہینہ ہے، اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے‘‘۔
رسالت مآبؐ نے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے اس اہم شعبے ’’بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو سیراب کرنا‘‘ اس کارخیر اور نیک عمل کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں۔ محسن انسانیت ؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا، اے ابن آدم! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہیں کی، وہ گھبرا کر عرض کرے گا، اے میرے رب! تو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے،تو کب بیمار تھا! اور میں تیری عیادت کیسے کرتا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے، اس کے باوجود تو نے اس کی مزاج پُرسی نہیں کی، اگر تو (عیادت کے لیے) اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا! ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔‘‘ بندہ عرض کرے گا، اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا! کیا تجھے یاد نہیں، میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا،اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، بندہ عرض کرے گا، اے دونوں جہانوں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا، اور میں کیسے تجھے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا،تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا اجر و ثواب یہاں پاتا۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان نے (اپنے) مسلمان بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اسے جنت کے پھل کھلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلایا تو اللہ اسے روز قیامت مہر بند شراب (یعنی نشے سے پاک جنت کا مشروب) پلائے گا، جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا برہنہ جسم ہونے کی حالت میں تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنتی پوشاک پہنائے گا۔ (ترمذی)
صحابی رسول حضرت عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ جب مدینۂ منورہ تشریف لائے تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، جوں ہی میری نگاہ آپؐ کے چہرۂ انور پر پڑی، میں سمجھ گیا کہ یہ کسی راست گو اور سچے انسان کا چہرہ ہے، پہلی بات جو اس وقت آپؐ نے فرمائی ،وہ یہ تھی!’’لوگو! سلام کو رواج دے کر اسے پھیلائو (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ، رشتے داروں سے جُڑو، رات میں جب لوگ سو رہے ہوں، تو تم نماز پڑھو، اور سلامتی کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجائو۔‘‘ (جامع ترمذی)
انفاق فی سبیل اللہ کے قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں،راہِ خدا میں مال خرچ کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی فضیلت میں فرمایا گیا: ’’مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں، جیسے ایک دانہ، جس سے سات بالیاں اُگیں، ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کا چاہتا ہے،اجر دوگنا کردیتا ہے،اللہ وسعت والا اور باخبر ہے۔‘‘
رحمت و مغفرت کا ابر کرم ہم پر سایہ فگن ہے۔ ’’رمضان کریم‘‘ نیکیوں کا موسم بہار ہے، ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ، جسے ’’عشرۂ رحمت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے یہ ایام اور پُرنور ساعتیں امت محمدؐ پر رب کریم کا فضل و احسان اور ایک عظیم انعام ہے۔ ’’رمضان المبارک‘‘ عبادت و ریاضت، ایثار و ہمدردی، غمگساری، رب کی رضا کی تلاش اور اس کے قرب کا مہینہ ہے۔ اس میں بندۂ مومن کے ہر نیک عمل اور ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ اہل ایمان کے انعام و اکرام کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں آدمی کے ہر عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو آں حضرتؐ قیدی کو رہا فرما دیتے اور ہر سائل کی داد رسی فرماتے تھے۔‘‘ (مشکٰوۃ)
جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا،تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا،اسے اس روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔آپؐ سے عرض کیا گیا کہ، یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان (وسائل) میسّر نہیں ہوتے (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا،جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر، یا صرف پانی ہی کے گھونٹ پر کسی روزے دار کو افطار کرا دے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض (حوضِ کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، تاآنکہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ بعد ازاں آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا،اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ (بیہقی/ شعب الایمان)
رسالت مآبؐ نے اس ماہِ مبارک کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس میں نیکیوں پر بے شمار اجر و ثواب کی نوید سناتے ہوئے روزے داروں کو روزہ افطار کرانے کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے۔ روزہ افطار کرانے میں ہر فرد کی حیثیت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
صحابہ کرامؓ کے عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک تو اس کی استطاعت اور قدرت نہیں رکھتا کہ وہ روزے دار کو روزہ افطار کرا سکے؟ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ اجر و ثواب اسے بھی عطا فرمائے گا، جو روزے دار کو دودھ کی تھوڑی لسی (شربت وغیرہ) یا پانی پلا دے (کیوں کہ اللہ کے یہاں نیت کا اجر ہے) رمضان المبارک میں روزہ افطار کرانے کا یہ عمل اور یہ روایت مسلم دنیا کے بیش تر علاقوں میں پوری شان و شوکت سے نظر آتی ہے، بالخصوص عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین شریفین کے مقدس مقامات پر سحر و افطار کے بابرکت لمحات اور پر نور ساعتوں میں یہ مناظر عام دیکھنے میں آتے ہیں۔وہاں اس کارخیر اور باعثِ اجر و ثواب عمل میں مسابقت کے مناظر عام نظر آتے ہیں۔ خوش قسمتی سے روزہ افطار کرانے کی یہ اسلامی روایت اب معاشرےمیں بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ صاحب خیر اور اہل ثروت حضرات اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، روزہ افطار کرانا انفاق فی سیبل اللہ کا ایک اہم شعبہ ہے،اس میں لوگوں کو کھانا کھلانے اور پیاسوں کو سیراب کرنے کا عمل اور اس کا اجر و ثواب بھی شامل ہوجاتا ہے۔ غربت و افلاس،مہنگائی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور کئی دیگر عوامل کے باعث ہمارے معاشرے میں خود داری،عزت نفس، سفید پوشی اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے اعلیٰ اخلاقی وصف کے حامل یہ افراد نہ دستِ سوال دراز کرتے ہیں اور نہ کسی سے اُمید لگاتے ہیں۔
انہیں اپنا مہمان بنانا اور انہیں افطار میں شریک کرنا باعثِ اجر و ثواب عمل اور ایک عظیم نیکی ہے۔ تاہم ایسے میں بندگان خدا کی عزت نفس اور خودداری کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے، نیک کام اور نیکی تب ہی بارگاہ الہٰی میں مقبول ہے، جب وہ نام نمود، شہرت و ناموری اور ریاکاری جیسی بُری صفات سے پاک ہو۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور نیت کا اخلاص اور ارادے کا پرخلوص ہونا نیک اعمال اور نیکیوں کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔