رمضان المبارک کےفضائل و مسائل فہم وفراست

مولانا آفتاب اظہر صدیقی

اللہ پاک نے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کے پورے مہینے کو عبادت کا مہینہ بنایا ہے کہ امت محمدیہ گیارہ مہینوں کے روحانی زنگ کو اس مہینے میں دور کرکے پاک صاف ہوجائے اور اپنے خالق حقیقی کو راضی کرلے ، اللہ پاک نے ماہ رمضان کے روزوں کو مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اس کا مقصد انہیں پرہیزگار بنانا ہے۔ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔‘‘
اللہ پاک نے رمضان المبارک کو قرآن پاک کے ساتھ ایسی نسبت عطا فرمائی ہے جس سے رمضان المبارک کی شان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک جس کا ہر ہر لمحہ نیکی، رحمت اور برکت کے خزانوں سے بھرپور ہے، قرآن پاک کی نسبت نے اس ماہ کی عظمت و برکت میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔(ترجمہ) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے، سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا، اور تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
مذکورہ آیت میں چار اہم باتیں بتائی گئی ہیں ۔ (۱) رمضان ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن پاک رمضان المبارک کے مہینے میں نازل کیا گیا، پھر وہاں سے جب جس آیت یا سورت کی ضرورت پڑی حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے آقائے نامدار حضرت محمدؐ کے قلب اطہر پر نازل کیا جاتا رہا اور اس طرح 23؍ برس کی مدت میں مکمل قرآن پاک نازل ہوا۔ (۲) قرآن پاک پوری انسانیت کے لیے ہدایت ہے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن پاک صرف مسلمانوں کے لیے ہے، حالانکہ خود قرآن پاک کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے رہنے والے تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اب جو اس سے دور رہے گا، ظاہر ہے کہ وہ ہدایت سے بھی دور رہے گا اور جو اس کو سینے سے لگائے گا، پڑھے گا، سمجھے گا اور اس پر عمل پیرا ہوجائے گا وہ ہدایت پاکر اللہ کا فرماں بردار بن جائے گا۔ (۳) جو رمضان کا مہینہ پائے وہ اس میں روزہ رکھے، یعنی ہر مسلمان کے لیے رمضان المبارک کے پورے مہینے کا روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ نام ہے سحری کے وقت سے لے کر سورج ڈوبنے تک کھانے، پینے اور ہم بستری سے دور رہنے کا۔ (۴) مریض اور مسافر کے لیے رمضان میں ذرا سی رخصت ہے وہ یہ کہ اگر رمضان میں کوئی شرعی مسافر ہو (یعنی سوا ستتر کلو میٹر یا اس سے زیادہ کے سفر پر ہو) اسی طرح اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ رمضان کے ان دنوں میں روزہ نہ رکھ کر رمضان کے بعد ان روزوں کی قضا کرلے، قضا کرنا ضروری ہے۔ لیکن جس مسافر کو سفر کی وجہ سے کوئی مشقت نہ ہو یا جس مریض کو روزہ رکھنے میں کوئی دقت نہ ہو تو ایسے مسافر اور مریض کے لیے بہتر ہے کہ وہ رمضان المبارک میں ہی روزہ رکھنے کا اہتمام کرے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت میں بہت سی احادیث بیان کی ہیں، چند احادیث نقل کی جاتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔‘‘(صحیح البخاری‘ 1: 255‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث: 1805)
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘(سنن النسائی‘ 1: 311‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 2230‘ 2231)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان داخل ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘(صحیح البخاری‘ 1:255‘ کتاب الصوم‘ رقم حدیث1800)
حضرت سہل بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے‘ جس کا نام ریان ہے۔ قیامت کے روز اس میں روزہ دار داخل ہوں گے‘ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔(صحیح البخاری‘ 1: 254‘ کتاب الصوم‘ باب الریان للصائمین‘ رقم حدیث: 1797)
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
کان اور ناک میں دوا ڈالنے سے، جان بوجھ کرمنہ بھر قے کرنے سے، کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلے جانے سے، شہوت کے ساتھ انزال ہوجانے سے، کوئی ایسی چیز نگل جانے سے جو عادۃً کھائی نہیں جاتی، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ، لوبان یا عود وغیرہ کا دھواں قصداً ناک یا حلق میں پہنچانے سے، بھول کر کھا پی لیا اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہوگا، پھر جان بوجھ کر کھا پی لیا، رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالی، دن باقی تھا، مگر غلطی سے یہ سمجھ کر کہ آفتاب غروب ہوگیا ہے، روزہ افطار کرلیا تو ان ساری باتوں سے روزہ ٹوٹ جائے گا، مگر صرف قضا واجب ہوگی ، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
تنبیہ:جان بوجھ کر بیوی سے صحبت کرنے یا کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس سے قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں۔
کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، ورنہ ساٹھ روزے لگاتار رکھے، بیچ میں ناغہ نہ ہو، ورنہ پھر شروع سے ساٹھ روزے پورے کرنے پڑیں گے اور اگر روزہ کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلائے۔ آج کل شرعی غلام یا باندی کہیں نہیں ملتے، اس لیے آخری دو صورتیں متعین ہیں۔
وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں، مگر مکروہ ہوجاتا ہے:
بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا، ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلہ سے دانت صاف کرنا بھی روزہ میں مکروہ ہیں، تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا، غیبت یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا یہ ہرحال میں حرام ہے، روزہ میں اس کا گناہ اور بڑھ جاتا ہے، روزہ میں لڑنا جھگڑنا، گالی دینا خواہ انسان کو ہو یا کسی بے جان چیز کو یا جاندار کو ، اس سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا۔
بھول سے کھاپی لینا، بلااختیار گرد وغبار کا حلق میں چلا جانا، غسل کرتے ہوئے پانی کان میں چلاجانا، احتلام کا ہوجانا، قے ہوجانا، ایسا انجکشن لگوالینا کہ براہ راست جس سے دوا معدہ اور دماغ میں نہیں پہنچتی، مسواک کرنا، خوشبو لگالینا، آنکھ میں دوا ڈالنا یا سرمہ لگالینا۔ ان سب باتوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی مکروہ ہوتا ہے۔
[email protected]>