رمضان المبارک کا فلسفہ فکرو فہم

ملک منظور

رمضان المبارک کا مہینہ بنیادی طور پر ایک سالانہ ٹریننگ پروگرام ہے‌جو مسلمانوں کو اگلے گیارہ مہینوں میں بہتر پرفارمنس کے لئے تیار کرتا ہے ۔بدقسمتی سے یہ مہینہ تیس دنوں کی عبادات تک ہی سکڑ گیا ہے۔یہ مہینہ دراصل حواس خمسہ کی ٹریننگ اور قلب و ذہن کی متانت کے لئے مخصوص ہے۔اس مہینے میں الہامی آئین نازل ہوا ہے ۔اس لئے ہمیں یہ قوانین سمجھنے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال پر نافذ کرنے کو کہا گیا ہے ۔یہ الہامی کتاب محض رواں پڑھنے کے لئے نہیں اتاری گئی ہے بلکہ ایک مومنانہ سماج کی تخلیق کے لئے نازل کی گئی ہے ۔
اس مہینے کو تقویٰ کا مہینہ بھی کہا گیا ہے ،تقویٰ کیا ہے؟ پہلے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ تقویٰ کو عام طور پر خطیب پرہیزگاری کہتے ہیں تو پرہیز گاری کیا ہے ؟ پرہیزگاری کا عام فہم مطلب دوری بنانا یا ترک کرنا ہے ۔گویاپرہیزگاری وہ عمل ہے جس سے ہم برائیوں سے دور رہتے ہیں، جھوٹ اور فریب سے اجتناب کرتے ہیں ، زنا اور شراب نوشی سے ترک کرتے ہیں ، بے انصافی ، بے اعتباری، غیبت، چغل خوری،طعنہ بازی ،گالی گلوچ، حق تلفی،خیانت،دغابازی اور قانون قدرت کی خلاف ورزی سے نہ صرف خود کو روکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ٹوکتے ہیں ۔اس لحاظ سے تقویٰ سچائی، دیانتدارای ،امانتداری،مدح ،اعتبار،وفاداری،انصاف، حق گوئی اور قانون قدرت کی پاسداری کو فروغ دیتا ہے ۔جو مسلمان ان چیزوں کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے یا سعی کرتا ہے وہی متقی کہلاتا ہے ۔ لیکن یہ بات یہاںذہن نشین کرنی ضروری ہے کہ متقی ایک مہینے سے نہیں بنتا بلکہ تقویٰ لگاتار زندگی کی آخری سانس تک الہامی قوانین کی پاسداری کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔
اسی لئے یہ کہنا مناسب ہے کہ ماہ رمضان امت مسلمہ کے لئے ایک تحفہ ہے کیونکہ اس مہینے کے ذریعے ہم خود کو اصل مشن کی طرف راغب کرتے ہیں ۔اس مہینے کی افادیت اس کلام سے بھی لگائی جاسکتی ہے ۔جس کسی نے ماہ رمضان کے روزے پورے ایمان اور عقیدے کے ساتھ رکھے، اس کی ساری خطائیں بخش دی جاتی ہیں۔اس کا مطلب کیا ہے ؟ کیا سب روزے دار اس زمرے میں آتے ہیں ؟ یہ بات سمجھنی ضروری ہے۔
یہ خوشخبری ہر روزے دار کے لئے نہیں ہے بلکہ ان روزے داروں کے لئے ہے جو یا تو ماہ رمضان کے بعد ٹریننگ پروگرام کے عین مطابق عمل کرتے ہیں یعنی جو توبت النصوح کرکے الہامی قوانین کے مطابق باقی زندگی گزارتا ہے ۔اس کے لئے نہیں جو مہینے کی تربیت کو عید کے ساتھ ہی بھول جاتا ہے۔روزے کی ریاضت کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس کے ذریعے امت مسلمہ کی حیوانیت اور بہیمیت کو خالق کون و مکاں کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اس کے طے شدہ احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے ۔
نفس کا پہلو :ماہ رمضان نفس پر قابو کرنے کی ایک مؤثر مشق ہے ۔انسانی خواہشات اور شہوات کو نفس کا نام دیا گیا ہے ۔نفس ہی انسان کو ابلیس کا آسان شکار بناتا ہے اور نفس ہی انسان کی کمزوری ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں،جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی اجاگر ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتااور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان، خدا کے حکم کی وجہ سے حرام و ناجائز اور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرأت نہ کرے گا. اسی اخلاقی برتری کو ہم تقویٰ کہتے ہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں روزہ کے فضائل: بخاری اور مسلم شریف میں درج حدیث کا مفہوم: جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیںاور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔اس میں روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں،ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت. اور روزہ دار کے منہ کی بو، رب العزت کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ اور خوشبودار ہے۔جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ’’ریان‘‘ ہے۔اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔(ترمذی)
روزہ خالصتا ًرب العزت کیلئے ہے، اس کا ثواب رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا۔(طبرانی)ہر شے کیلئے زکوٰة ہے اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے اور نصف صبر ہے۔(ابن ماجہ)،روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی. (بیہقی) اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔(ابن ماجہ
ماہ رمضان میں ہمیں کئی چیزیں مستحکم کرنے میں مدد دیتاہے ۔جیسے اس مہینے میں ہم عبادات میں مشغول تو ہوتے ہیں، جیسے تلاوت قرآن ،نماز ،دعا ،ضبط نفس کو فروغ دینا،صدقہ و خیرات کی مشق، غریبوں یتیموں مسکینوں اور بیواؤں سے ہمدردی ،رشتوں اور ناطوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سلسلہ ذندگی بھر کے لئے جاری رکھنا چاہیے ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ ماہ صیام میں صدقات وزکوٰۃ ادا کرنے کا زیادہ ثواب ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم باقی گیارہ مہینوں میں ضرورت مندوں کی امداد بند کریں ۔ماہ رمضان کو پانا خوش قسمتی کی علامت ہے ،اس لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم خدا کی رحمتوں کا نزول اپنے حق میں ممکن بنائیں ۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہم خلوص نیت کے ساتھ نہ صرف روزوں کی قدر کریں بلکہ روزے داروں کی بھی ۔
والدین کے لئے سب سے بڑا سرمایہ اولاد ہوتے ہیں، کوئی بھی ماں باپ یہ نہیں چاہیے گا کہ وہ اپنے اولادوں کی وجہ سے جہنم کا مستحق بن جائے اور نہ ہی یہ چاہیں گے کہ ان کی وجہ سے ان کی اولاد خدا کی رحمتوں سے خارج ہوجائیں ۔ایسا تبھی ممکن ہے جب والدین اپنے بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب دیں گے اور پابند صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ پابند احکامِ شریعت بھی بنائیں گے۔والدین کی شفقت بالغ بچوں کی غفلت کا باعث نہیں بننی چاہیےبلکہ کسی بھی قیمت پر بالغ بچوں کو روزہ توڑنے نہ دیں ۔اسی طرح اگر نابالغ بچے سحری کے لئے اصرار کرتے ہیں تو انہیں سحری کھانے کی اجازت دینی چاہیے ۔چھوٹی موٹی بیماری کے لئے روزہ نہ رکھنے کا بہانا نہ کریں ،کیا پتہ پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے ۔اس صیام سے اگلے صیام تک دینداری کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ آنیوالی ذندگی خدا کی رضا میں گزر سکے۔مجموعی طور ماہ رمضان ہمارے عقیدے کی تجدید ،نظم و ضبط پیدا کرنے،نیک اور صالح کام کرنے اور رشتے داروں کے ساتھ صلح رحمی کرنے کا بہترین موقعہ فراہم کرتا ہے، اسی کے بنا پر ہم آنیوالے سال میں ایک مکمل‌اور کامیاب زندگی گزار سکتےہیں۔
آخری بات : ہم روزے کیو ں رکھیں!اس بات پر تو ہم سب کا مکمل اور پختہ یقین ہے کہ موت ہمارا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک جہاں سے دوسری جہاں جانے کا ذریعہ ہے ۔جب ہم انتقال کریں گے اور دفنائے جائیں گے اُس وقت ہمارے ساتھ صرف اور صرف نیک اعمال ہونگے ۔ان سب اعمال میں نماز، روزہ اور فہم قرآن وہ اعمال ہیں جو ہمارے محافظ بنیں گے اور خدا کے دربار میں شافی بھی ۔یاد رہے ان ہی اعمال کی وجہ سے حوض کوثر کا پانی بھی پینے کو ملے گا ورنہ ہر جگہ پر رسوائی اور دھتکار ہوگی ۔آج ہم زندہ ہیں اس لئے موقعہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو صراط مستقیم پر گامزن کریں ۔اس دنیا میں نہ جانے کتنے بڑے طاقتور حکمران ، نوشیروان، سکندر،نمرود اور فرعون آئے لیکن کوئی موت کی گرفت سے نہ بچ سکا اور نہ ہی کوئی عیار، مکار ، چالاک ،ذہین اور دولت مند بچ سکے گا ۔تو پھر بہتر یہی ہے کہ ہم وہی کریں جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی خداوند عالم کی عبادت ۔
ماہ صیام کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم گمراہی سے باز آکر صحیح راستے پر چلیں ۔ شرک سے خود کو بچائیں اور سنتوں پر عمل کریں ۔نماز قائم کریں اور رحم دلی سے کام لیں ۔دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق حسنہ سے پیش آئیں اور جائز کام کریں ۔کسی کا حق نہ ماریں اور نہ ہی حرام کمائی کی طرف راغب ہوں ۔آپسی بھائی چارے کو فروغ دیں ۔سب سے اہم بات کوئی بھی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں موجود تھی ۔اگر ایسا ہے تو ہم بکھرے ہوئے کیوں ہیں ۔یہاں ہر جماعت کا اپنا قاضی اور دستور ہے ۔ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے فرقہ پرستوں سے پوچھنے کی نہیں۔( لغزشوں کو معاف کریں ۔ راقم کوئی مولوی یا کسی جماعت کا کارکن نہیں ہے )
رابطہ۔ 9906598163
[email protected]