رمضان المبارک خصوصی

رمضان المبارک اور خواتین اسلام

فکر انگیز

زینب پروین

اللہ تعالیٰ نے دیگر مہینوں کے مقابلے میں ماہ رمضان المبارک کے بے شمار فوائد اور فضائل بیان کر تے ہو ئے اس کو انتہائی مبارک بنا دیا ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا ۔ اس ماہ کی آخری دس طاق راتوں میں ایک رات لیلتہ القدر ہے اور اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہزاروں مہینوں سے افضل ہے ، جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو تا ہے تو جنت کے تمام دروازے کھول دئے جا تے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جا تے ہیں ، رمضان المبارک کے اواخر کی ہر رات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی معافی کا علان فرمادیتا ہے جنہوں نے اس ماہ کے روزوں کو بحسن خوبی ادا کی اور اس میں نافرمانی کے تمام کاموں سے اجتناب کیا ۔
ہر سال اس مبارک ترین مہینہ کی آمد ہو تی ہے اور اس کے آغاز سے قبل خصوصی طور پر ہر مسلم خواتین کو روحانی اور جسمانی متعدد اُمور کی تیاری کرنی چاہئے تا کہ وہ ایک ماہ پر مشتمل روزوں کی ادائیگی کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں اور روزہ ان تمام مسلمانوں پر فرض ہے جو اپنی عمر بلوغث کو پہنچ چکے ہوں ۔ اس لئے روحانی تیاری بھی ایک ایسا اہم ا مر ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کے لئے بھی خصوصی طور پر خود کو تیار کر لیں ۔ اس دوران بالخصوص مسلم خواتین کو ان کے کچھ مخصوص مسائل کی وجہ سے خاص تو جہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے تا کہ وہ اس ماہ کو اپنی آخرت کے لئے کا میاب تر ین بنا سکیں ۔ بالخصوص نو مسلم افراد کے لئے ( کیونکہ رمضان المبارک کا مہینہ ان کے لئے بالکل ایک نیا تجربہ اور عمل ہو تا ہے ) اور بالعموم نو شادی شدہ خواتین کے لئے رمضان کا یہ مہینہ نئی ذمہ داریوں کے ساتھ آتا ہے کیونکہ شادی کے بعد گھر کے بچوں اور دیگر گھر یلوں لازمی اُمور کی ذمہ داریوں کے ساتھ انہیں گھر والوں اور مہمان وغیرہ کے افطار ( ہر دن غروب آفتاب کے بعد روزہ کھولنا ) کے لئے ہر وقت پکوان وغیرہ کی تیاری کر نی ہو تی ہے ۔ ان کے لئے یہ مہینہ بہت ہی سخت محنت کا متقاضی ہو تا ہے ۔ ساتھ ہی خواتین کو اہل خاندان کو سحری کے لئے بیدار کر نے ، ان کی صحت اور دیگر اہم اُمور کا رمضان کی آمد سے قبل بھی خیال رکھنے کی منصوبہ بندی کر نی پڑتی ہے ۔ مسلم خواتین کو ان اوقات سے بھی واقف رہنا چاہئے کہ جس میںوہ روزہ نہیں رکھ سکتیں، جیسے وہ حا لت ِ حیض یاز چگی کے بعد آئے خون میں مبتلا رہتی ہیں۔
<[email protected]>

رمضان المبارک ۔ بہترین تربیتی کیمپ

غورطلب

فرحی نعیم

اطاعتِ الٰہی ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن بحیثیت خواتین ہمیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دین ِ اسلام پر مکمل کار بند رہنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے نسلوں کی تربیت کی ذمّے داری سونپی ہے۔ یعنی ماں کی غلط سیکھ، بے راہ روی، بداخلاقی، دین سے دُوری صرف اُسی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی اولاداور پھر آنے والی نسلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ میسّر آنا کسی نعمت سے کم نہیں کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچّوں کو بھی تقویٰ، شکر گزاری اوراطاعتِ الٰہی کاپابند بنا سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بچّے قول و نصیحت سے نہیں، عمل و فعل سے سیکھتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں، جو ان کے بڑے کر رہے ہوں اور ماہِ رمضان میں تو ویسے بھی بچّوں کا زیادہ تر وقت ماؤں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ پھر مائیں بھی عام دنوں کی نسبت عبادات، گھریلو کاموں اور کچن میں زیادہ متحرک نظر آتی ہیں، تو یہی در اصل وہ وقت ہے کہ جب بچّوں کو باتوں ہی باتوں میں ، لاڈ پیار سے دین کی سمجھ بوجھ دینی ہے، اخلاقیات کا سبق سکھاناہے، ربّ کی شکر گزاری کی تعلیم دینی ہے۔ اس تیس دن کے پیکیج سے استفادہ کرکے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ہم رمضان المبارک کے رحمتوں بَھرے مہینے میں کیسے خود کو اور اپنے بچّوں کو بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں۔ہمیں اپنے دل و دماغ میں یہ عقیدہ پختہ کرلینا چاہئے کہ اس ماہ ہمارا ہر کام صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لیے ہوگا۔ پھر چاہے وہ سحری بنانا ہو، عبادات کرنا، صدقات وزکوٰۃ دینا یا افطاری بنانا۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر لحظہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ بہت سی خواتین حالتِ روزہ میں بھی غیبتوں چغلیوں سے باز نہیں آتیں، تو یاد رکھیں، روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔
وقت کی جتنی پابندی اس ماہ ہوتی ہے اور کسی مہینے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دن کے تمام اُمور وقت پر بلکہ وقت سے پہلے ہی مکمل کرلئے جاتے ہیں۔ دل چسپ امر تو یہ ہے کہ بھوکا، پیاسا ہونے کے باوجود سُستی ہوتی ہے، نہ کاہلی۔ خواتین عبادات کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں، لذیذ پکوان بھی بناتی ہیں ۔ ذرا سوچیں، اگر پابندیِ وقت کی یہی مشق باقی گیارہ مہینے بھی جاری رکھی جائے، تو کتنا وقت بچ سکتا ہے۔چنانچہ تاخیر سے سونا اور دیر سے اُٹھنا ہمارا معمول بن چُکا ہے۔ جب کہ ماہِ رمضان ہمیں سونے، جاگنے کے معمولات منظّم کرنے کی تربیت دیتا ہے۔یوں بھی جسمانی کارکردگی کا بڑا انحصار کام اور آرام کے اوقات کی تقسیم پر منحصر ہے۔
چوں کہ روزہ نفس پر قابو پانے کی بہترین مشق ہے کہ اس کا اصل مقصد ہی نفس پر کنٹرول ہے،توبلاشبہ اس اخلاق وعادات، کردار و اعمال میں اعتدال و توازن اور شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ پھر صبر وتحمّل کی خوبی وہ کمالِ حُسن پیدا کرتی ہے کہ جس سے گھر اور خاندان اُنسیت و چاہت کا بے مثال نمونہ بن جاتے ہیں۔
آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ ماہِ رمضان صرف نیکیاں کمانے، بھوکا پیاسا رہنے کا نہیں، معمولاتِ زندگی بہتر کرنے کا بھی مہینہ ہے۔ آج ہم سب مختلف فکرات میں گِھرے ہوئےہیں۔ آج کی عورت مختلف چیلنجز سے نبردآزما، سکون کی متلاشی ہے، تو رمضان المبارک ایک انعام کی صُورت میں آتا ہے کہ جس میں معتدل، منظّم معمول اپنا کر زیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام کرکے تمام پریشانیوں، فکروں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ صرف کچن میں مصروف رہنے یا بازاروں کے چکّر لگانے کا مہینہ نہیں، پاکیزگیِ نفس اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کا مہینہ ہے، تو اسے فضولیات میں ہرگز ہرگزضایع نہ کریں۔

رمضان المبارک کی خوبیاں

غوروفکر

اربینا بشیر

رمضان المبارک ایک مقدس مہینہ ہے۔ رمضان المبارک کے بارے میں اللہ کے پیارے رسول صلی االلہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ برکتوں کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے کی فضیلت کی وجہ سے یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ اس مہینے میں تمام شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔اس مہینے کے روزے ہر مسلمان پر فرض کر دیئے گئے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: ’’اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔‘‘ روزہ ہر بالغ مرد اور عورت پر یکساں طور پر فرض ہے،بغیر کسی سخت مجبوری کے روزہ کو چھوڑنے سے سخت منع کیا گیاہے۔
جس طرح جسم کو پاک کیا جاتا ہے، اسی طرح روح کو روزہ پاک کرتا ہے۔روزہ رکھنے سے نفس ہر قسم کی کثافت سے پاک ہوجاتا ہے۔ بلکہ روزہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی االلہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی نیند عبادت ہے،سانس لینا تسبیح ہے اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ اس مہینے میں ایک مسلمان سحری سے لیکر افطاری تک کھانے پینے سے دور رہتا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو، کیونکہ اس میں برکت ہے۔ یہ بات لیکن قابل توجہ ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے گریز کرنا نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان تمام بُرے کاموں سے باز رہے ،پرہیزگار بنے ۔انسان کی روح بھی روزے دار ہونی چاہیے۔ روزے کی حالت میں انسان کو غیبت،گالی،جھگڑا اور بد سلوکی سے دور رہنا چاہیے۔ رمضان المبارک کا سب سے بڑا مقصد ہے کہ انسان اپنے رب اور اُسکے کلام (قرآن) سے اپنا تعلق مضبوط بنائےاور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا تعلق استوار کر لے ۔حدیث مبارک میں آیا ہے کہ جنت کا ایک دروازہ ہے، جسے ریان کہتے ہیں ۔قیامت کے روز اس دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوگا۔اس مہینے میں اگر انسان ایک فرض ادا کرے تو اس پر ستر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔گویا ہمیں اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ ذِکر و ازکار میں مشغول رہنا چاہیے۔ یہ مہینہ برکت ، رحمت ،عظمت اور مغفرت کا مہینہ ہے ۔غرض ہم میں سے جس کو بھی یہ مہینہ نصیب ہو ،اس پر لازم ہے کہ وہ اس مہینے کا دل و جان سے استقبال کریں ،اس کا احترام کرے اور اس مہینے کو عبادتِ الٰہی میں صرف کرے۔حدیث پاک میں آیا ہے کہ جس نے رمضان میں بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن کا روزہ توڑ دیا تو اس کی قضاء زمانے بھر کے روزے بھی نہیں کر سکتےہیں۔غرض جس انسان کو اللہ عزوجل نے صحت کی دولت عطا کی ہے، اسے چاہیے کہ وہ رمضان کے روزے بڑے شوق سے رکھے ۔ ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے ۔ ایک روزہ دار کے لیے بہت سے انعامات رکھے گئے ہیں ۔روزہ جہنم کی آگ سے دوری کا سبب ہے۔ روزہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہے اور روزه گناہوں سے بچنے کے لئے ڈھال ہے۔ اس لیے اپنے روزوں کو پاک و صاف رکھیں اور صرف اللہ کی رضا کے لیے رکھیں ۔ کیونکہ دکھاوے کا روزہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیںاور نہ ہی ایسا روزہ خدا کو مطلوب ہے۔
<[email protected]