رمضان المبارک۔ جہنم سے نجات کا مہینہ فکر و ادراک

عمران احمد سلفی

’’رمضان المبارک‘‘ نیکیوں کا موسم بہار، ایک عظیم ماہِ مبارک ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ ماہِ مبارک نیکیاں کمانے، برائیوں سے چھٹکارا پانے اور اپنے افکار وا عمال کے تزکیے کا بہترین موقع ہے۔ اس میں سب سے بڑا عمل خود ’’ روزہ‘‘ ہے جس کے بار ے میں ﷲتعالیٰ کا فرمان ہے: روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
روزے کے اس قدر فوائد ہیں کہ اگر ایک شخص ایمان و احتساب کے ساتھ اس ماہ مبارک کی تکمیل سے سبکدوش ہو تا ہے تو گویا وہ تمام پچھلے گناہوں سے پاک صاف ہو گیا ،اسی لیے روزے کو ’’ڈھال‘‘ قرار دیا گیا ہے کہ روزے دار نہ اس پورے مہینے میں خصوصاً اور عام مہینوں میں عموماً نہ شورو شغب ،بے ہودہ اعمال کرتا ،نہ گالی دیتا ہے اور نہ ہی کینہ رکھتا ہے اور پوری کوشش کر تا ہے کہ اس کا کوئی بھی عضو ﷲ کی نا فرمانی کے لیے استعمال نہ ہو۔
دوسری جانب وہ اس کی بھی پوری کوشش اور سعی کر تا ہے کہ اس کے تمام اعضاء و جوارح نیکیاں کمانے کے لیے استعمال ہوں ،وہ دن میں صائم النہار اور رات کو قیام اللیل ہونے کی پوری کوشش کر تا ہے۔ ﷲ کے نیک بندے اس ماہ مبارک کا استقبال اسی طرح کرتے ہیں کہ غفلت کے پردے چاک کر کے بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کے ساتھ ﷲ کی عظمتوں کے ترانے گا کر سعادتوں سے جھولیاں بھرتے ہیں ،یہ لوگ اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے اوقات کو ﷲ کی عبادت ، اعمال صالحہ، و ظائف، تلاوت کلام مجید، صدقہ و خیرات سمیت ﷲ کی رضا جوئی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان میں خیر و شر دونوں کی استعداد رکھی ہے ۔ اب ہر شخص اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اپنے انداز فکر کے مطابق دونوں میں کوئی ایک راہ اختیار کر تا ہے۔ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص خیر کی راہ اپنا تا ہے۔ وہ بھی بشری کمزوریوں کی بنا ء پر بہت سی غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہو جایا کر تا ہے، اگر باریک بینی سے غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی دو ایسی فطری ضرورتیں ہیں جن میں ذرا سی افراط وتفریط کے نتیجے میں برائیاں پھلتی پھولتی ہیں ،ان میں ایک فطری ضرورت انسان کے پیٹ پالنے کا مسئلہ ہے اور دوسر اخواہش نفس کی تکمیل کا مسئلہ ہے پیٹ پالنے کا مسئلہ بڑا ہی کٹھن ہو ا کر تا ہے۔ انسان اس ضرورت کو پوری کرنے کےلیے صحیح و غلط ، حرام و حلال میں تمیز بھول جاتا ہے اور اکثرایسی گونا گوں برا ئی میں متلا ہوجاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس سے برائی کو برائی سمجھنے کی استعداد اور صلاحیت بھی جاتی رہتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو سال میں ایک مرتبہ ایک ماہ کے لیے روزے رکھنے کا کورس ان گناہوں کی دلدل سے نکلنے اور نیکی کی راہ پر آنے کےلیے تجویز کیا ہے ۔روزہ برائی کی راہ سے انسان کو ہٹانے میں سب سے زیادہ مجرب نسخہ ہے۔ روزے دار نہ صرف پنچ وقتہ نماز ،بلکہ قیام اللیل پر مسلسل ایک ماہ کی مداومت ، حلال کی کمائی اور ﷲ کے حکم سے اپنی جائز ضرورتوں سے بھی عارضی طور پر اجتناب کرنے کی جو مشق کر تا ہے، وہ کسی مجبوری کی بناء پر یا دنیوی فائدے کی وجہ سے نہیں کی جاتی، بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہو تا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تقویٰ و پرہیزگاری اور نیک اعمال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے ﷲ کے بندے ﷲ کی رحمت و مغفرت سے اپنا دامن مراد بھر لیتے ہیں، ان کی توبہ و استغفار کے سبب ان کی کوتاہیوں سے ﷲ در گزر فرما تا ہے اور ان میں حقوق ﷲ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ بھی بیدار ہو جا تا ہے۔
اس لئے ہر مسلمان کے لیے یہ ماہِ مبارک یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ اسلام کو شعوری طور پر سمجھیں، اس کے لیے استقبال رمضان کے لیے خود کو تیار و آمادہ کرنا ضروری ہے اور اپنی کوتاہیوں کا ادراک بھی کیجئے، تاکہ آنے والے ایام میں ایسے اعمال زیادہ سے زیادہ کئے جا سکیں ،جن کے نتیجے میں ہم ﷲ کی رحمت اور اس کی مغفرت کے حقیقی معنی میں مستحق بن سکیں۔ﷲ تعالیٰ ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازے۔ (آمین)