رحیم رہبرؔ کی ناول ۔’’آخری کُرتا بھی چاک ہوا‘‘ سماجی و معاشی مسائل کے تناظر میں

ڈاکٹر آزاد ایوب بٹ
جموں و کشمیر میں اُردوادب کی آسائش و زیبائش میں جن ادیبوں نے نمایاں کردار ادا کیا ان میںایک مشہور و معروف نام رحیم رہبر کا بھی ہے۔رحیم رہبر کا اصل نام عبدالرحیم ڈار ہے اوران کی ولادت 3مارچ 1959ء میں پیٹھ کانہامہ ماگام میںعبدل سبحان ڈارکے گھر میں ہوئی ہے۔وہ محکمہ تعلیم میں پلانگ آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کشمیری زبان کے شعری مجموعہ ’’رسلی نغمہ‘‘ کے عنوان سے 1993ء میں کیا۔انہوں نے اُردو، ، انگریزی اور کشمیری میں لگ بھگ اکسٹھ( 61) کتابیں تصنیف کئے ہیں۔ان کی پہلی اُردو کتاب 1979ء میں ’’عبادات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے افسانہ، ڈراما، ناول ، ترجمہ اور تحقیقی و تنقیدی کارناموںکو اپنے قلم کی جولانیوں سے مالا مال کیا۔اب تک کشمیری زبان میں ان کے گیارہ افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں جن کے ترجمے انگریزی ، اردو، عربی ، فارسی ، ہندی اور پنجابی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔کشمیری زبان میں ان کا پہلا ناول’’وڈو‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے ۔ اُردو ادب میں اُن کے پانچ ناول’’ ہرا گھاو، افروٹ کی دیوی ، آخری کرتا بھی چاک ہوا، آنسو اور مسکراہٹ ‘‘منظر عام پر آچکے ہیں۔ رحیم رہبر نے ان ناولوں میں کشمیر کی خوبصورتی ، کشمیر کے لوگوں کی کسمپرسی اور بے بسی ، جہالت و افلاس ، مظلومیت اور بربریت ، ابتر حالات اور واقعات کو اپنے محسوسات کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
زیر نظر ناول ’’آخری کرتا بھی چاک ہوا‘‘ میں رحیم رہبر نے کشمیر کے سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس ناول کا مرکزی احساس ایک ایسا معاشرتی نظام ہے ، جس میں سماجی زندگی کے مصائب و مشکلات بیان کئے گئے ہیں۔رحیم رہبر نے اس ناول کے مرکزی کردار عبدالحمید نامی جوان کی شخصیت کو موضوع بنایا ہے جس نے اپنے میٹھے خواب ، احساسات و جذبات ، مسرتیں ، قہقہے یہاں تک کہ اپنی ہنستی کھلتی جوانی کو اس ارض جنتِ بے نظیر کے مظلوم انسانوں کی خاطر قربان کی۔ اس ناول میں اس جوان کے لاثانی کردار کا تذکرہ کیا گیا ہے جس نے کشمیریوں اور کشمیریت کے مضطرب دورِ انحطاط میں یوسف چک کی غیرت ،محمد بن قاسم کے جاہ و جلال اور ٹیپو سلطان کے عزم و استقلال کی یاد تازہ کردی۔اس جوان نے غیوراور بہادر کشمیریوں کے دلوں میں اسلام اور انسانیت کی وہ تڑپ اور ولولہ پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی جو محمد غزنوی کو سومنات ، احمد شاہ ابدالی کو پانی پت اور امیر کبیر میر سید علی ہمدانی کو وادی کشمیر میں لے گئی تھی۔
اس ناول کے مرکزی کردار حمید کی صرف ایک آرزو تھی کہ صدیوں کے اس بے بس اور پسماندہ کشمیری کو جہالت و افلاس کی دلدل سے نکال کر تہذیب و اخلاق کی مسند پر بٹھا لوں۔ یہ ناول ان سرفروشوں کی ہمت ،شجاعت و ایثار کی داستان ہے، جنہوں نے اپنے خون سے نئے کشمیر کی تاریخ لکھی ہے۔ ان کے بلند حوصلے سنگلاخ چٹانیں بن کر مظلومیت اور بربریت کے سیلاب کے سامنے آخری دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ حمید کے اِرد گرد یہ پوری کہانی گردش کرتی نظر آتی ہے۔ حمید ایک چھوٹے گاؤں میںرہتا ہے جس کی آبادی مشکل سے تین ہزار ہوگی۔ حمید کے والدین کے علاوہ تین بہنیں اور تین بھائی بھی تھے۔ حمیدکی شادی ایک تاجر حاجی غلام احمد ڈار کی بیٹی محبوبہ بیگم کے ساتھ ہوئی تھی۔ حمید کے دوبچے تھے ، ایک لڑکا جس کا نام اشفاق اور ایک لڑکی جس کا نام سفیہ تھا۔حمید ایک ایسانو جوان شخص تھا جس کے سینے میں دوسروں کا غم محسوس کرنے والا دل تھا۔ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اسنے اپنی عادت بنالی تھی۔ حمید کے دل میں خدا کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خدا نے اسے ایک تحقیقی ذہن بخشا تھا۔حمید خدا کی اس کائنات پر موجود ہر شئے کا بغور جائزہ لیتا تھا۔
بہرحال اس ناول میں جہاں زندگی کو گذارنے کی تگ ودو دکھائی گئی، وہیں نا انصافیوں ،جرائم اور معاشرتی استحصال کے پہلو بھی کہانی کے کرداروں کے ذریعے قلم بند کئے گئے ، جن کے بیانے پر رحیم رہبر نے اپنی لفظیات کے ذخیرے اور تخلیقی صلاحیت کو پوری طرح صرف کیا۔رحیم رہبر ؔنے سماجی زندگیوں کے حالات و واقعات نہایت ہی مہارت کے ساتھ قلم بند کئے ہیں۔کرداروں کی ترتیب اور واقعات کا تسلسل بڑی کاریگری سے تخلیق کئے ہیں۔ اس وجہ سے یہ ناول آج بھی ہمارے حالات کی عکاسی کرتا محسو س ہوتا ہے۔اس ناول کے کردار اپنی جملہ خصوصیات اور انفرادیت کے ساتھ اُبھرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس ناول میں معاشرے کے حالات مختلف کردار ، مکالمے اور واقعات کے ساتھ بڑے موثر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً ’’جانباز حمید ظالم کی تلاش میں گھر سے نکلتا ہے تو کچھ دن بعد یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کی حمید لاپتہ ہوگیا ہے۔والدین ، رشتہ دار ، یار دوست ، ہمسایہ الغرض سب لوگ حمید کی تلاش کرنے لگے۔ایک سال کی مسلسل تلاش کے باوجود حمید کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اب حمید کے بارے میں طرح طرح کی چہ مہ گوئیاں ہونے لگی تھیں۔ ۔۔ بیچاری ماں بیٹے کی جدائی سے پریشان ہر وقت روتی رہتی تھی۔مجبور باپ گاؤںگاؤں ، شہر شہر ، کوہساروں اور بیابانوں میں آبادیوں اور ویرانوں میںجوان بیٹے کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔بیوی شوہر کی جدائی میں پاگل ہوگئی تھی۔معصوم بچے ماں سے ڈیڈی کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔۔۔بیوی شوہر کے انتظار میں ہر وقت دروازہ کھلا رکھتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اسکا شوہر ضرور کسی رات کوکمرے میں داخل ہوگا ۔ محبوبہ بیگم کا درد ساحر لدھیانی کے ان اشعار سے مزید گہرا نظر آتا ہے۔
مگر یہ ہو نہ سکا ، اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ، تیری جستجوں بھی نہیں
گزررہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی سہارے کی آرزو بھی نہیں (صفحہ۱۹۔۲۰)
ناول کے کرداروں کے درمیان ہونے والے مکالموں میں زندگی کے احساسات ، جذبات ،معنویت اور تلخیاں موجود ہیں، جن کو قاری پڑھتے ہوئے محسوس کرسکتا ہے۔اس ناول میں حیات و کائنات کے اسرار و رموز ،درد و کرب اور جستجوکے دروازے کشادہ ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج اس ناول کو لکھتے ہوئے لگ بھگ ستائیس (27) سال گزر گئے ، پھر بھی عہد حاظر میں اس ناول کو پڑھتے ہوئے ، اس کے کردار ، مکالمے ،کہانی اور منظر نامہ دل کو زخمی کیے دیتا ہے۔مصنف نے کشمیر میں ابتر حالات ، غربت اور افلاس کا مشاہدہ بذات خود کیا ہے اور ان تمام صورت حال کا اظہار اپنے تخلیقات میں کر کے اپنے عہد کا آئینہ بن گئے ہیں۔ ان کے یہاں ابتر حالات اور زوال آمادہ معاشرے کے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں روانی اور تسلسل کے ساتھ کہتے ہیں ۔ پوری زندگی میں جن مشاہدات اور تجربات سے واسطہ رہا ان ہی کوتحریری صورت میں پیش کیا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رحیم رہبر نے کھلی آنکھوں سے اپنے معاشرے ، حالات ، تاریک راتیں ، غمگین صحبتیں ، روتی آنکھیں ، گمنام قبریں ، گولیوں کا شور ، دھماکوں کی گونج ، سڑکوں پر سو کھا ہوا خون دیکھا ہے ۔ان تمام دیکھتے ہوئے حالات کو پُر تاثیر انداز میں صفحہ قرطاس پر درج کرتے ہیں، جس کی بہترین مثال ان کے ناول ’’آخری کرتا بھی چاک ہوا ‘‘میں ملتی ہے۔
اس ناول کی زبان نہایت عام فہم، سہل ،سادہ اور شگفتہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ناول اپنے دامن میں سادگی، رنگینی اور دلکشی لئے ہوئی ہے۔اس ناول کے الفاظ و محاورات قاری کو نہایت ہی آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہوتے ہیں۔ناول ’’آخری کرتا بھی چاک ہوا ‘‘دراصل کشمیریوں اور کشمیریت کے زوال پزیر دور کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے۔ اس ناول میں رحیم رہبر نے کشمیر کے بہادر اور غیور جوانوں میں اسلام اور انسانیت کا جوش اور جذبہ لانے کی پوری کوشش کی ۔ اس طرح رحیم رہبر نے اپنی فنی صلاحیت کو پوری توانائی کے ساتھ استعمال کر کے اُردو ادب کو اس شہکار ناول سے مالا مال کیا جس کی گونج ہمیشہ سنائی دے گی۔
اس ناول کو لکھے لگ بھگ تین دہائیاں گزر چکی ہیں اور اگر سنہ اشاعت تبدیل کر کے آج شائع کیا جائے تو عصری حالات کی بخوبی نمائندگی کرتا نظر آرہا ہے۔ ناول کے کور پیج پر عنوان سے میل کھاتا ہوا ایک عورت کا چاک گریبان یاچاک کُرتا دکھایا گیا ہے لیکن اس عنوان میں نفسیاتی کشمکش بھی ہے اوررشتوں کی تکونی شکل ظاہر کی گئی ہے۔ کیا یہ آخری کرتا جو چاک ہوتا ہے حمید کی والدہ کا یا اس کی بیٹی سفیہ کا یا پھر ان کی بیوی محبوبہ کا ۔ناول کی قیمت بھی مناسب رکھی گئی ہے اور 90 صفحات پر مشتمل ناول کو صرف 100روپے کے عوض خریدا جا سکتا ہے۔ناول کی زبان نہایت آسان اور دل کو خوش کرنے والی ہے۔مکا لموں میں درد بھرا ہوا ہے اور انسانی جذبات اور محسوسات کی بھی ایک ریل پیل نظر آتی ہے اور زماں اور مکاں عیاں ہے کہ نوے کی دہائی کا کشمیر اُبلتا ہوا نظر آتا ہے۔الغرض مصنف نے ایک عمدہ کوشش کی ہے اور اپنے معاشرے کی بہترین عکاسی کی ہے۔
(رابطہ ۔7006729471)
[email protected]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔