رحمتہً للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد شفاعت کار

ڈاکٹر عطاء اللہ بخاری

ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور نہیں بھیجا ہے ہم نے تم کو اے نبیؐ مگر رحمت بناکر جہاں والوں کے لیے۔(سورۃ الانبیاء) آیت میں مذکور لفظ’’عالمین ‘‘، عالَم کی جمع ہے ،جس میں ساری مخلوقات بشمول انسان، فرشتے،جنات، حیوانات، نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب چیزوں کے لیے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر وتسبیح اور اس کی عبادت وبندگی آپؐ کے دم سے قائم اور آپؐکی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب زمین پر کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا تو قیامت آجائے گی۔ تفسیر ابن کثیر میں نبی اکرم ؐ کا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ’’میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں‘‘۔باقی انسانوں کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا، گمراہی سے بچایا، کفر وشرک کے اندھیروں سے ،ایمان و توحید کے اجالے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ لوگوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے ان کی کمروں سے پکڑ پکڑ کر روکا۔صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو‘‘۔ آپ کی رحمت انسانوں میں مؤمن و کافر دونوں کے لیے عام ہے۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ سے التماس کی گئی کہ اے اللہ کے رسولؐ! مشرکوں کے لیے بد دعا فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں لوگوں کے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں ،بلکہ مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔
باقی فرشتوں کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ لوگوں کو مسجد میں کچی پیاز اور لہسن کھا کر آنے سے منع فرمایا ہے کہ اس سے فرشتوں کو اذیت ہوتی ہے۔صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐنے ارشادفرمایا :’’ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو اسے ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہیے۔باقی جنات کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپؐ نے جنات کو بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دی اور اپنی رسالت کا اقرار کروایا، کیوںکہ وہ بھی مکلف ہیں اور ان کا بھی حساب و کتاب اور جنت و دوزخ کا فیصلہ ہوگا۔اس کے علاوہ انسانوں کوہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے، کیوںکہ یہ جنات کی غذا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ہمیں ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا‘‘باقی حیوانات کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ سواری کو منبر بنانے سے ،مرغے کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔قربانی کے موقع پر جانور کو ذبح کرنے میں آداب کی رعایت رکھنے کی تاکید فرمائی۔ مثلاً: جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کرنا ،تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو،ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرنا، تاکہ جانور نہ بِدکے ۔اسی طرح جانور کے پوری طرح ٹھنڈا ہونے تک کھال کا نہ اتارنا۔باقی نباتات کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ جنگ کے موقع پر بھی صحابہ کرامؓ کو کفار کے باغات اجاڑنے اور درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایاہے۔اس کے علاوہ ایک حدیث میں آپ سے روایت کیا گیا کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے ،اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ باقی جمادات کے لیے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپ کی برکت سے امت محمدیہ کے لیے پوری زمین کو نماز کی جگہ اورتیمم کی صورت میں پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایاکہ ’’جو کوئی مُردہ زمین کو پیداوار کے قابل بنائے، اس کے لیے اس میں ثواب ہے‘‘۔