رجوع الی قرآن۔خوار از مہجورے قرآں شدی قسط (۲) عقل و دانش

عمران بن رشید

(گذشتہ سے پیوستہ)

القراٰن یفسربعضہ بعضاً:قرآن اپنی تفسیر آپ ہے۔جیسا کہ اُوپر مذکور صحیح بخاری کی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے،حضورؐ نے ایک آیت ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْن‘‘ کی تفسیر قرآن کی ہی دوسری آیت’’یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٔ عَظِیْم‘‘سے کی ۔اور تفسیرِ قرآن کا یہ اصول ’’القراٰن یفسربعضہ بعضاً‘‘کہلاتا ہے۔یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی خود تفسیر کرتاہے۔اس کی سینگڑوں مثالیں آپ کو قرآن میں ملیں گی ۔جہاں اس اصول کاانتباق نہیں ہوتا وہاں صحیح احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گایا آثارِ صحابیٰؓ اور دیگر سلفِ صالحین کے فہم سے کام لیا جائے گابالخصوص اصولِ دین میں قرآن کی تفسیر کایہ طریقہ مدنظر رکھا جائے ۔اور قرآن کی تفسیر کا یہ طریقہ ’’بِالماثور‘‘کہلاتا ہے جو دورِ صحابیٰؓ سے رائج ہے اورہمارے لئے تما م تر بہتری اسی میں ہے کہ ہم صحابیٰؓ کے فہم پر ہی قرآن کو سمجھےاورا ہل الرائےصوفیاء،فلاسفہ وغیرہم کے خودساختہ عقائد اور اختراعات سے ہر ممکن پرہیزکرے ۔امام مالک ؒ کاقول ہے’’لایصلح اٰخرھٰذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہا‘‘[الموطہ رقم الحدیث 783/]یعنی اس امت کے آخری دورکے لوگوں کی اصلاح ممکن نہیں سوائے اُس چیز سے ،جس چیز سے اس امت کے پہلے دور کے لوگوں کی اصلاح ہوئی ۔ پہلے دور سے مراد صحابیٰؓ کادور ہے اور میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ صحابیٰؓ کے یہاں قرآن کو سمجھنے کا معیار تصوف ،منطق یا علم الکلام نہیں تھا اور نہ وہ عقل کے گھوڑے دوڑاتے تھے جیسا کہ بعد کے ادوار میں عام طور پردیکھنے کو ملتا ہے ۔بلکہ صحابیٰؓ کا فہمِ قرآن رسولؐ کا عطا کردہ تھا، اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ صحابیٰؓ کے یہاں اُن آیات کے معنی کے ضمن میں سکوت ملتا ہے جن آیات کے معنی میں خود رسول اللہؐ نے سکوت اختیار کیا ہو۔مثال کے طور پر حروفِ مقطعات ،ان کے معنی رسول اللہؐ نے بتائے اور نہ صحابیٰؓ نے اِن کے معنی تلاشنے کی کوشش کی یا آیاتِ متشابہات کی مثال لیجئے جن کی تاویل کرنے کو آنحضرتؐ نے بدعت قرار دیا ہے۔لیکن بہت سے حضرات نے آیاتِ متشابہات کی مختلف تاویلیں بیان کرنے کی کوشش میں گمراہی کے مختلف دروازے کھول دئے ہیںاور اُن چیزوں کی کیفیت بیان کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جن کی کیفیت بجز اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا۔آیاتِ متشابہات پر ایمان رکھنا ہمارے ایمان کا جزوِ لاینفک ہے لیکن اِن میں بیان کئے گئے امور کو عقل کی بنیاد پر پرکھنا نری جہالت اور گمراہی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ھُوَالَّذِی اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌھُنَّ اُمُّ الْکِتَابِ وَ اُخَرُمُتَشٰبِھٰتٌ ۔فَاَمَّاالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِم زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاوِیلِہٖ۔وَمَایَعلَمُ تَاوِیْلَہٗ اِلَّااللّٰہُ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی العِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّابِۃٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَاوَمَایَذَّکَّرُ اِلَّاْ اُولُواالْاَلْبَابِ۔’’وہی ہے جس نے تجھ پر (اے محمدؐ)یہ کتاب اُتاری ،جس میں کچھ آیات محکم ہیں،وہی کتاب کی اصل (اُم الکتاب) ہیں۔اور کچھ دوسری آیات کئی معنوں میں ملتی جلتی (متشابہات)ہیں۔پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کچی ہے وہ اس میں اِن کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی (متشابہات)ہیں فتنے کی تلاش کے لئے اور اِن کی اصل کی مراد کے لئے،حالانکہ اِن کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ ۔اور جو علم میں پختہ ہیں وہ (ان آیات کے متعلق )کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر عقلوں والے‘‘(سورۃ آلِ عمران8/)۔اس آیت سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کچھ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے ، متشابہات کے پیچھے لگ کرگمراہیوں میں پڑے رہتے ہیں۔حالانکہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے سورہ آلِ عمران کی مذکورہ آیت پڑھی اور پھر یوں فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن کی متشابہ آیات کی پیروی (ان کی تاویل)کرتے ہیں تو یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں (مذمت کے انداز میں)نام لیا ہے،تم ان سے بچ جائو(بخاری4547/ )اس کے علاوہ ایک حسن درجہ کی حدیث ہے جوامام ابنِ کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لائی ہے جس کے مطابق ایسے افراد جومتشابہات کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،کو خوارج میں شمار کیا گیا ہے۔تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ خوارجیہ نے ہی اس امت میں مختلف فتنوں اور بدعات کو وجود بخشا۔اس فرقہ کا امام ذوالخویصرہ تمیمی تھا جس نے رسول اللہؐ کے خلاف خروج اختیار کیا تھا،جس کے متعلق رسول اللہؐ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب بناکرفرمایاتھاکہ اس کے جوڑ سے کچھ لوگ پیدا ہونگے جن کی نماز کے مقابلے میں تم اپنی نماز کو (ظاہری طورپر) حقیر سمجھو گے اور تم ان کے روزوں کو دیکھ کر اپنے روزوں کوکمتر سمجھوگے،وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح ایک زور دار تیر جانور سے پار ہوجاتاہے(بخاری3610/)۔اس حدیث کی شرح میں مولانا دائودرازؒ رقمطراز ہیں’’یہ مردود (جو بعد میں پیدا ہوئے) خارجی تھے جو حضرت علیؓ اور مسلمانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ظاہر میں اہلِ کوفہ کی طرح بڑ ے نمازی پرہیز گار ،ادنیٰ ادنیٰ بات پر مسلمانوں کو کافر بتانا ان کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا،حضرت علیؓ نے ان مردودوں کو مارا ،ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا ۔معلوم ہوا کہ قرآن کو زبان سے رٹنا ،مطالب ومعانی میں غور نہ کرنا یہ خوارج کا شیوہ ہے اور آیاتِ قرآنیہ کا بے محل استعمال کرنا بھی بدترین حرکت ہے‘‘۶؎۔ذوالخویصرہ کا خروج عبداللہ ابن سبا کے دور میں یا اُس کے آنے سے عروج پکڑتا ہے اور قرآن وسنت کی غلط توجیحات اور تفسیر کے نتیجے میں ابن سبا اور اس کے رفقاء نے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا ۔جنگِ جمل اور صفین وغیرہ اسی سبائی سازش کا حصہ تھے۔
بہر حال اس کے بعد قرآن کے تئیں مسلمانوں کا اصل الحاد عباسی دور ِسلطنت میں شروع ہوا۔خوارج نے بھی اگر چہ الحاد کی راہ اختیار کی تھی لیکن اُن کاالحاد زیادہ تر سیاسی نوعیت کا تھاجبکہ عباسی دور میں مسلمانوں کو فلسفہ یونان نے مسحور کردیا اور وہ فلسفیانہ بنیادوں پر شریعت کو پرکھنے لگے۔ابونعمان سیف اللہ لکھتے ہیں’’خیرالقرون یعنی عہدِ رسالت سے عہدِ تبع تابعین تک تفسیر تقریباً اُسی شاہراہ پرچلتی رہی ،یعنی تفسیر بالماثور۔اس دور میں استنباط اور اجتہاد حدود شریعت میں ہوتا رہا،اپنے نظریات پر مشتمل مخصوص رائے کے دائرہ میں داخل نہیں ہوا تھا،یہاں تک کہ اسلام میں فرقوں کا ظہور ہونے لگا ۔یہ فرقے بتدریج ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ عباسی سلطنت کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے تباہی کے سامان بن گئے۔علمِ تفسیر میں بھی انہوں نے ایسے اسالیب فراہم کئے جن سے قرآنی تعلیمات عجمی تاویلوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کا مجموعہ یا چیستاں بن گئیںیاصاحب تفسیر کے اپنے ژولیدہ خیالات ،افکار پریشاں،اوہامِ باطلہ اور تاویلاتِ رکیکہ کا پلندہ۔ان فرقوں میں مشہور خوارج ،روافض، جہمیہ ،متعزلہ ،قدریہ اور مرجیہ وغیرہ تھے۔انہوں نے ایسے ایسے مذاہب اختیار کئے جو اُس حق کے صریح مخالف تھے جسے امت کے سلفِ صالحین ،ائمئہ ہدیٰ اور اِن کی راہ پر چلنے والوں نے اختیار کیا تھا۔ان باطل فرقوں نے قرآن کی تاویل اپنی باطل آراء کے مطابق کی اور اپنے مذہب کی مخالف آیات میں تحریف تک کرنے سے باز نہ آئے۔پس انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیااور خود بھی گمراہ ہوئے‘‘(تفسیر دعوت القرآن؍جلد اول؍14)عباسی دور میں دو بڑے فرقے وجود میں آئے جنہوں نے قرآن کی آیات کی عقلی تاویلات کرکے نہ صرف یہ کہ صحابیٰؓ اور سلفِ صالحین کے طریقے سے ہٹ کر عمل کیا بلکہ امت میں ایسے فتنے اورایسی گمراہیاں ایجاد کیں کہ ہزارہا مسلمانوں کو ان فتنوں کی لپیٹ میں لے لیابلکہ آج بھی مختلف شکلوں میں ان دو فرقوں کے ایجاد کردہ یہ فتنے ہمارے یہاں موجود ہیں ۔یہ دو فرقے تھے جہمیہ اور متعزلہ ،اول الذکرفرقہ صفوان بن جہم سے منسوب ہے، جس نے ارسطو (Aristotle)کے فلسفہ الہیات کے زیراثرقرآن کی اُن آیات ،جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا بیان ہوا ہے،کو فلسفیانہ رنگت دے کرمختلف طریقوں سے مسلمانوں کو پریشان کردیا ۔اِس نے قرآن کی آیت ’’ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘‘کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا کہ اللہ کے لئے جہت یا سمت مقر رنہیں کی جاسکتی ،لہٰذا استویٰ کا اصل مفہوم ’’اِسْتَوْلیٰ‘‘ہے،یعنی اللہ عرش پر غالب آگیا۷؎۔جبکہ قرآن وسنت سے واضح طورپر ثابت ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہوگیا،اس کے سوا دوسرا اس کا کوئی معنی سلفِ صالحین کے یہاں نہیں ملتا۔شیح محمدبن صالح العثیمینؒ کہتے ہیں کہ ’’اہلِ سنت تحریف وتعطیل کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ کی مراد کے مطابق نصوص(آیاتِ محکم) کا معنی کرتے ہیں۔ان کے نزدیک’’اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘‘کامعنی ہے وہ عرش پر بلند ہوانہ کہ وہ اس پر مستولی ہوا ‘‘(شرح عقیدۃ الواسطیہ؍۶۹)۔اسی طرح صفوان بن جہم اور اس کے پیروئو ں نے قرآن کی صدہاآیات میں معنوی تحریف کرکے امت مسلمہ میں ایسا بگاڑ پیدا کیا جو ہنوز جاری ہے۔
دوسرا فرقہ جو عباسی دور میں پیدا ہوا فرقہ متعزلہ ہے۔یہ فرقہ واصل بن عطاکاپیدا کردہ ہے،واصل بن عطا صفوان بن جہم کا ہم عصر تھا ۔یہ دونوں فلسفۂ یونان سے متاثر تھے اور دونوں ہم خیال تھے۔جیسا کہ شیخ عبدالقادرجیلانیؒ نے لکھا ہے’’متعزلہ‘قدریہ اور جہمیہ ہم خیال ہیں‘‘۸؎۔اِن دونوں فرقوں نے قرآن کی خیالی تفسیر یا تفسیربالرائے کر کے صحابیٰؓ اور سلفِ صالحین کے طریقے کی قولاً اور عملاً مخالفت کی ۔ خلقِ قرآن کا فتنہ بھی ان کاہی اُٹھایا ہوا ہے۔ علمائے حق نے جب اِن کے خلاف آواز اُٹھائی تو اُنہیں اہلِ ظاہر کا نام دے دیا گیااور مختلف طریقوں سے ستایا گیا،امام احمد بن حنبلؒ کو مامون رشید نے پابندِ سلاسل کرایااور طرح طرح کی اذیتیں دیں۔محض اس لئے کہ امام موصوف ؒ نے متعزلہ اور جہمیہ کے باطل عقائد کوتسلیم نہیں کیا ۔مولانا عبدالرّحمٰن کیلانیؒ لکھتے ہیں ’’ان علمائے ظاہر میں امام احمد بن حنبلؒ کا نام بالخصوص قابلِ ذکر ہے جنہوں نے اس مسلہ قرآن کے سلسلہ میں مامون رشید کے ہاتھوں قیدوبند کی سختیاں بھی جھیلیں اور کوڑوں کی پٹائی بھی برداشت کی مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔مامون کے بعد مستعصم باللہ کے دور میں اس مسئلہ پر مناظرہ کے دوران خلیفہ کی آنکھیں کھل گئیں ۔اس نے عقیدہ اعتزال سے توبہ کی اور امام موصوف کو بہ اعزاز وتکریم قید سے رہا کردیا‘‘(مقالہ؍فرقہ پرستی)یہاں پر یہ بھی کہہ دوں کہ ان دونوں فرقوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی جس کی وجہ سے ان کے باطل عقائد کی اعلیٰ پیمانے پر تشہیر ہوئی اور لوگوں کی ایک کثیرتعداد ان کی مطیع ہوئی۔مامون رشید کے باپ ہارون رشید نے تو ان دوفرقوں کے باطل عقائد کی تشہیر کے لئے بغداد میں ایک ’’دارالترجمہ‘‘قائم کیا جہاں یونان سے فلسفہ کی کتابیں منگواکر اُن کا فارسی اور عربی میں ترجمہ کیا جاتااور مسلمانوں میں پھیلا دیا جاتا۔تاکہ صفوان بن جہم اور واصل بن عطا کے خیالات اور باطل عقائد کی تشہیربآسانی ہوسکے ۔ان دو فرقوں کا وجود اگرچہ اب معدوم ہوچکا ہے لیکن ان کے اختراع کئے ہوئے باطل عقیدے آج بھی مختلف شکلوں اوررنگوںمیں مسلمانوں کے اندر موجود ہیں۔جن کا بساط بھر ذکر آگے کی سطور میں کروں گا۔
صوفیاء کاالحاد:مختلف ممالک میں بالعموم اور برِ اعظم ایشیا میں بالخصوص فلسفۂ تصوف نے لوگوں کو بے حد متاثر کیاہے۔یہاں تک کہ ایشیا میں تصوّف کی تشہیراور فروغ میں کئی تحریکیں وجودپزیر ہوئیں ،جو مختلف طریقوں سے یہاں تصوّف کی اشاعت کا کام سر انجام دیتی رہیں۔ یہ تحریکیں سلسلوں کے نام سے موسوم ہیں ،جیسے سلسلہ نقشبندیہ ،سلسلہ چستیہ ،سلسلہ سہروردیہ وغیرہ ۔ جن کا مطالعہ آپ خلیق احمد نظامی ؔ کی کتاب’’تاریخِ مشائخ و چیست‘‘یا’’شیخ علی ہجویریؔکی مشہورِزماں تصنیف’’کشف المحجوب‘‘ یااسی طرح ابوالحسن علی ندوی ؔکی کتاب ’’ تزکیہ واحسان ‘‘ یا تصوّف پر موجود دیگرمشہور کتابوں میں کرسکتے ہیں، یہاں اِن کا ذکر چھیڑنا مقصود نہیں ۔یہاں محض صوفیاء کے اُ س الحاد کی طرف جو قرآن کے تئیں اُنہوں نے اختیار کیا، آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
زمن بر صوفی و ملّا سلامے
کہ پیغامِ خد ا گفتند مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولے تاویلِ شاں درحیرت انداخت
خدا و جبریل و مصطفیٰ ﷺ را
یعنی صوفی اور ملّا کو میرا سلام پیش کرو ،کیوں کہ انہوں نے خدا کا پیغام یعنی قرآن ہم تک پہنچایا،لیکن خدا کے اِس پیغام کی جو تشریح اور تاویل انہوں نے کی ہے، خدا بھی(نعوذباللّہ)حیران ہے اور جبریل ؑ اور محمدمصطفیٰ ؐ بھی حیران ہیں۔مراد یہ ہے کہ اُن کی پیش کردہ قرآن کی تاویل اور تشریح اُ ن کی اپنی عقل کی اختراع ہے، اُس کا اللہ کے بھیجنے،جبریل کا لانے اور حضرت محمد ؐ کا پہنچانے سے کوئی تعلق نہیں۔اسی طرح کا ایک شعر عبداللہ ابنِ مبارکؒ کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ؎
و ما افسدین انّ الملوک
واحبار سو و رھبانھا
یعنی دین میں فساد پیدا کرنے والے اکثر ظالم بادشاہ رہے ہیں یا علماء سو اور صوفیا۔چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’یَاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًامِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّ ھْبَانِ لَیَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسَ بِالْبَابِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے عالم اور درویش یقینًا لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں(التّوبہ؍34)۔(مضمون جاری ہے)
رابطہ۔ 8825090545
[email protected]