ذرا بات کو سمجھو ماں…!!

میں تذبذب میں مبتلا ہو گیا ہُوں ماں۔ رات بھر سوچتا رہتا ہوں۔ جب کبھی نیند آتی ہے تو عجیب عجیب خواب آنے لگتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے چھت نیچے اُتر رہی ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے میں اوپر اُڑ رہا ہوں۔ در و دیوار پر عجیب و غریب نقشے بن رہے ہیں اور مٹ رہے ہیں۔ دل بہت گھبرا رہا ہے ماں۔ دن رات، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے بس ایک ہی خیال بار بار ذہن سے ٹکرا رہا ہے۔ وہ باتیں جو ہر وقت میرا پیچھا کر رہی ہیں، مجھ پر حاوی ہو گئی ہیں ماں۔ مجھے جانا مشرق میں ہوتا ہے اور میں مغرب میں چلا جاتا ہوں۔ کبھی منزل سے بھٹک جاتا ہوں تو کبھی آگے نکل جاتا ہوں۔ پھر جب ہوش آتا ہے تو اپنا ہی سر پیٹ لیتا ہوں۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آج کل میں کن خیالوں میں کھویا رہتا ہوں۔ نہ کسی کی کوئی بات بغور سنتا ہوں نہ ہی اپنی کوئی بات صحیح ڈھنگ سے کہہ پاتا ہوں۔ اسٹاف کے لوگ پیٹھ پیچھے میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہوں۔ لیکن میں انھیں کیسے سمجھاؤں کہ میں بڑے پس و پیش میں پڑ گیا ہوں ماں۔
دیکھ بیٹا! میری بات مان لے۔ آخر اس میں کیا برائی ہے!!! بڑے صاحب خود چل کر ہمارے گھر آئے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے۔ بڑی مشکل سے طوفان میں ہچکولے کھاتی ہماری زندگی اب دھیرے دھیرے پٹری پر آ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ دامن خوشیوں سے بھرنا چاہتا ہے۔ خراماں خراماں ہی سہی، روشنی پھیل جانا چاہتی ہے۔ ہم نے زندگی میں بہت اندھیرے دیکھے ہیں، خوب جدوجہد کی ہے۔ اب جب خدا ہمارے دن پھیرنا چاہتا ہے تو، تُو اس موقع کو ہاتھ سے کیوں گنوا دینا چاہتا ہے بیٹا۔ چراغ زیست کی لو جو نہایت ہی مدھم ہو گئی تھی اب ذرا تیز ہونا چاہتی ہے۔ بے سرو سامانی کے حالات تاریکی کا سینہ چیر کر جشن چراغاں منانا چاہتے ہیں تو، تُو انھیں روک کیوں رہا ہے بیٹا۔ دیکھ میری بات مان لے بیٹا۔
ماں میں جانتا ہوں، تم نے بہت مشقتیں اٹھائیں، بڑی قربانیاں دیں، لیکن میری پڑھائی میں کوئی کمی آنے نہیں دی۔ اب یہ تمہارے آرام کرنے کے دن ہیں ماں۔ یہ وہ وقت ہے کہ لگائے ہوئے درخت کے پھل کھائے جائیں۔ تم کافی تھک چکی ہو ماں اور یہ تھکاوٹ تمہارے چہرے سے صاف ظاہر ہے۔ میں آٹھ سال کا ہی تھا کہ ابّا کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد تمام ذمہ داریوں کا بوجھ تمہارے کاندھوں پر آ گیا تھا۔ اب تمہیں اس بوجھ سے بری الذمہ ہونا ہے۔ تمہارے بوجھل کندھوں کو ہلکا ہونا ہے۔
میں نے دیکھا ہے تم نے باسی اور سوکھی ہوئی روٹیاں کھائی ہیں ماں، لیکن میری اسکول کی فیس باقاعدگی سے اداکی ہے۔ ایک چھوٹے سے پودے کو تم نے پچیس چھبیس سال تک پالا پوسا اور آج جب وہ پودا ایک پھل دار درخت ہو گیا ہے تو تم اسے کسی اور کے حوالے کر دینا چاہتی ہو ماں!!! کیا تم زندگی کے باقی بچے ہوئے دن بھی مصیبت میں گزارنا چاہتی ہو۔ نہیں یہ مجھے منظور نہیں اور میں یہ ہونے نہیں دوں گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں اتنے ہی پیر پھیلاؤں جتنی کہ ہماری چادر ہے۔
میں نے دیکھا ہے ماں، جو لڑکے دن رات اپنی ماں سے محبت کا دم بھرتے تھے۔ شادی کے فوراً بعد نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ محبت کا وہ عظیم پہاڑ برف کی مانند پگھل گیا۔ میں ان لڑکوں کی طرح تو نہیں ہوں، لیکن ایک انسان اپنی خواہشات کے آگے کب گھٹنے ٹیک دے کوئی نہیں بتا سکتا۔ اس لیے میں کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتا ماں۔ میں ٹکڑوں میں بٹ جانا نہیں چاہتا۔ آج کتنی مائیں اولڈ ایج ہوم میں اپنے بیٹوں کی راہ تک رہی ہیں کہ ایک دن ان کا بیٹا آئے گا اور انہیں گھر لے جائے گا۔ اسی آرزو میں وہاں موجود نہ جانے کتنی ماؤں کی امیدیں سفاک حقیقتوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ پھر بھی ان کی آس ختم نہیں ہوتی ماں۔ وہ اپنے بیٹوں کی یادوں میں کھوئی رہتی ہیں۔ ہر روز ریزہ ریزہ بکھرتی ہیں، سمٹتی ہیں، سنبھلتی ہیں اور موت سے جا ملتی ہیں۔ وہ ماں جس نے بڑی محبتوں سے ایک مکان کو گھر بنایا تھا، آج اسے، اسی کے بنائے ہوئے گھر میں ایک کونہ بھی نصیب نہ ہوا۔ نہ جانے اس ماں کے دل پر کیا بیتتی ہوگی جس نے اپنے لخت جگر کو اپنے خون سے سینچا ہو اور آج وہ اس کی خیریت تک نہ پوچھتا ہو۔ جب یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو میں ڈر جاتا ہوں ماں۔
ذرا بات کو سمجھو ماں۔ میں کوئی عالِم نہیں ہوں جو تمہیں سبق دینے بیٹھ گیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں تم جو کچھ کرنا چاہ رہی ہو، اس میں صرف میری بھلائی دیکھ رہی ہو، جبکہ تم اپنے بارے میں کچھ بھی سوچ نہیں رہی ہو، جیسا کہ تم ہمیشہ کرتی ہو ماں۔
وہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ آج وہ خود چل کر ہمارے گھر آئے تھے، اپنی بچی کے لیے میرا رشتہ مانگنے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اچھے لوگ نہیں ہیں، لیکن ماں ذرا بات کو سمجھو۔ آج یہ بات جگ ظاہر ہے کہ لڑکا چاہے کتنا بھی غریب ہو، اگر وہ سرکاری ملازم ہو جائے تو رشتوں کے بازار میں اس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔ ہر ماں باپ اپنی بچی کے لیے اس کی خواہش کرتے ہیں۔
ذرا بات کو سمجھو ماں۔ جس لڑکی کے گھر تم صاف صفائی کرتی تھی، پوچھا لگاتی تھی، برتن مانجھتی تھی، اسی لڑکی کو تم اپنے اس غریب خانے کی بہو بنا کر لانا چاہتی ہو۔ اگر وہ اِس گھر میں بہو بن کر آ جائے تو کیا وہ مٹکے سے ایک گلاس پانی لاکر تمہیں پلائے گی؟ تمہارا احترام کرے گی؟ کل تک جو تمہیں حکم دیتی تھی۔ کیا آج وہ تمہارا حکم مانے گی یا نہیں مانے گی، یہ سب میں نہیں جانتا ماں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں تم سے جدا نہیں ہونا چاہتا۔ مجھے اپنے آپ سے جدا کرنے کی کوشش مت کرو ماں۔ ذرا بات کو سمجھو ماں۔
 
���
اسسٹنٹ ٹیچر، نندورا، مہاراشٹرا،موبائل نمبر؛ 8275047415