دوریاں مٹائیں،خوشیاں بانٹیں!

وزیر داخلہ امیت شاہ جموں وکشمیر کا تین روزہ دورہ سمیٹ کر گزشتہ شام ہی نئی دہلی واپس لوٹ چکے ہیں تاہم اس تاریخی دورہ پر سیاسی اور سماجی حلقوں میں نہ صرف اس وقت گفتگو جاری ہے بلکہ آنے والے کئی دنوں تک اس دورہ پر مختلف زاویوں سے تجزئے پیش کئے جاتے رہیں گے کیونکہ اس دورے نے جموںوکشمیرکے بدلتے مزاج کو سب پر عیاں کردیا ہے ۔5اگست2019کو جب جموںوکشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والے دفعہ370اور 35-Aکی تنسیخ عمل میںلائی گئی تو بہت سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ اب جموںوکشمیرمیں بھارت کا ترنگا اٹھانے والا کوئی نہیں رہے لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ اس بات پر جب 15اگست یوم آزادی کے سلسلے میں ہر گھر ترنگا مہم چلائی گئی تو کشمیر میں 6لاکھ سے زائد گھرانوں پر بھارت کا پرچم لہرایا اور اب جب وزیر داخلہ نے دفعہ370کی منسوخی کے بعد پہلی بار جموںوکشمیر کا دورہ کیا تو نہ صرف راجوری کی ریلی میں انسانی سروں کا سیلاب امڈ آیا بلکہ بارہمولہ ریلی میں ہزاروں لوگوں کی شرکت چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ کشمیر کے مزاج بدل رہے ہیں اور کشمیری عوام جمہوری عمل سے اپنے آپ کو نہ صرف وابستہ کررہے ہیں بلکہ وہ جمہوری نظام میں ہی اپنے مسائل کا حل بھی چاہتے ہیں۔راجوری اور بارہمولہ عوامی ریلیوں میں عوام کی بھاری شرکت ایک طرح کا ریفرنڈم تھا جس میں عوا م نے اپنی شرکت سے واضح کردیا کہ وہ اشتعال انگیزی میں نہیں بلکہ تعمیری جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔

 

بھلے ہی ان جلسوں کو پہاڑی اور گوجر و بکروال طبقوں کی ریزرویشن سے جوڑکر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ایسے نعروں سے لوگوں کو ان جلسوں میں شرکت پر قائل کیاگیا تاہم زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں اور جس طرح عوام نے طویل مسافت کرکے کڑے سیکورٹی بندو بست کے مشکلات جھیلنے کے باوجود جلسہ گاہوںکو رونق بخشی ،وہ اُن عناصر کیلئے کھلا پیغام تھا کہ کشمیربدل رہا ہے ۔ خصوصی پوزیشن کی بحالی کے جھوٹے اور کھوکھلے نعروں سے عوام کو گمراہ کرنے والے سمجھ چکے ہونگے کہ ہوا بدل رہی ہے ۔نیم خود مختاری اور سیلف رول کا چورن بیچنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بدگمانیاں پیدا کرکے جموںوکشمیر اور دلّی کے درمیان مزیددوریاں نہیں بڑھاسکتے ہیںکیونکہ جہلم سے بہت پانی بہہ چکا ہے اورلوگ جذباتی نعروں سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور حقیقت کی دنیا میں رہ کر اب نہ صرف مسائل کا حل چاہتے ہیں بلکہ جمہوری ماحول میں قومی دھارے کا حصہ بن کر ترقی و خوشحالی کے اُس سفر کے مسافر بننا چاہتے ہیں جو5اگست2019کو شروع کیاگیا تھا اور جس میں اب جموںوکشمیر کا نقشہ ہی بدل رہا ہے ۔وزیر داخلہ نے بجا فرمایا کہ دفعہ370کی تنسیخ کے تاریخی فیصلہ سے قبل کشمیر میں جمہوریت 87ارکان اسمبلی اور6ممبران پارلیمنٹ تک محدود تھی لیکن آج جمہوریت گھر گھر تک پہنچ چکی ہے اور آج لوگوں کے چنے ہوئے تیس ہزار نمائندے حکمرانی کو عوا م کی دہلیز تک پہنچا چکے ہیں۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ قانون سازیہ کی اپنی اہمیت ہے اور اسمبلی کا کوئی متبادل نہیں بلکہ بلا تاخیر اسمبلی انتخابات منعقد کرائے جانے چاہیں تاکہ جموںوکشمیر میں عوامی حکومت قائم ہوسکے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ زمینی سطح پر عوامی بااختیاری اور حکومت میں شراکت داری کو یقینی بناکر کافی حد تک اس خلاء کو پاٹا جاچکا ہے ۔

 

جہاں تک اسمبلی انتخابات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے وزیر داخلہ نے ایک بار پھر بالکل غیر مبہم الفاظ میں واضح کردیا کہ ووٹر فہرستوں پر نظر ثانی کا عمل اور دیگر تیاریاںمکمل ہوتے ہی چنائو کرائے جائیں گے اور لوگوں کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا موقعہ فراہم کیاجائے گا۔اس کے بعد اس موضوع پر اب شاید ہی مزید بحث کی گنجائش بچتی ہے ۔ویسے بھی یہ طے تھا کہ حتمی ووٹر فہرستیں تیار کرکے چنائو کا اعلان ہوگا تاہم اب جس طرح اعلیٰ سطح پر وضاحت اور یقین دہانی آگئی ہے تو اس کے بعد اسمبلی چنائو کے حوالے سے شکوک و شبہات یکسر ختم ہوچکے ہیں۔وقت آچکا ہے جب مرکزی حکومت کو جموںوکشمیر کے عوام کے اس والہانہ استقبال اور جوش و خروش کی قدر کرتے ہوئے اُنہیں حقیقی معنوں میں جمہوری عمل کا شراکت دار بنانا چاہئے تاکہ کل کسی اور کو انہیں بہکانے کا موقعہ نہ مل سکے ۔ جموںوکشمیرکی زمین جمہوری عمل کیلئے بالکل تیار ہوچکی ہے اور اب اس کی شروعات کرنا باقی ہے ۔وزیراعظم سے لیکر وزیر داخلہ اور دیگر مرکزی اکابرین کیلئے یہ سنہری موقعہ ہے کہ وہ دل کی دوری اور دلّی کی دوری کو مٹانے کیلئے عملی طور کام کریں ۔ سیاست کیلئے ساری عمر پڑی ہے تاہم کشمیر جیسے حساس خطہ پر سیاست کرنے سے گریز کرکے وسیع تر قومی مفاد میں سب کو ساتھ لیکر چلنے میں ہی دانشمندی ہے ۔وزیر داخلہ نے کشمیری عوام سے بات چیت کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے سب کو ساتھ لیکر چلنے کا اشارہ بھی دیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پر امن اور خوشحال جموںوکشمیر کیلئے یہ عمل کب شروع ہوگا تاہم مقامی سطح پر اُن عناصر کو بھی سمجھ لینا چاہئے جو ابھی بھی ووٹ بنک سیاست کی خاطر لوگوں کو مخالف سمت میں لیجانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس راہ میں سوائے تکالیف کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اگر کچھ ملنا ہے تو وہ قومی دھارے میں شامل ہوکر ہی ملنا ہے ۔