دورِ حاضرمیں علمائے کرام کی ذمہ داریاں؟ فکر انگیز

یاسر بشیر

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق جب کی،اس وقت سے ہی انسان کی رہبری و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائیں،جو انبیاء بھی اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے ان کا سب سے بڑا کام لوگوں کا تزکیہ کرنا تھا۔اللہ تعالیٰ نے لاکھوں میں انبیاء بھیجے۔اُن کا کام اور مقصد ایک ہی تھا مگر وقت اور حالات مختلف تھے۔حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے ،تو اُن کا کام بھی وہی کا جو باقی انبیاء کا تھا یعنی لوگوں کا تزکیہ اور کتاب(قرآن) کی تعلیم۔ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آئے گا۔مگر نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں‘‘۔حضرت محمدؐ کے وارث اُن کی امت کے علماء ہیں۔اس حدیث شریف کا آسان معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو کام انبیا کو تھا، وہی کام علماء کو انجام دینا ہے مگر تعلیم وہی ہونی چاہئے جو رسول کی تعلیم تھی۔کوئی نئی بات اُن کی تعلیم میں شامل نہیں کرنی چاہئے،ورنہ وہ بدعت بن جاتی ہے۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ہر کوئی بدعت گمراہی ہے اور ہر کوئی گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے۔
آج کے حالات میں علماء کیا ذمہ داری ہے،یہ ایک بڑا سوال ہے؟۔آج جن حالات کا سامنا اُمت کو کرنا پڑتا ہے،ان کا حل کیا ہے؟اور اِن حالات میں اُمت کو کیا کرنا چاہئے؟اس بات سے لوگ واقف کرنا علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔علماء کی ذمہ داری ہے کہ جو مسائل اُمت کو درپیش ہیں،اُن کے متعلق جذبات کو بالائے طاق رکھ کر ٹھنڈے دماغ سے ان کے حل کے متعلق سوچنا چاہئے۔علماء اُمت کے نمائندے ہوتے ہیں،علماءکی اور ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اُمت میں انفرادی یا اجتماعی طور پر جو خرابیاں پائی جاتی ہیں،اُن کے سدباب کے اسباب پر غور کرنا۔ مگر آج ہمارے زیادہ تر علمائے کرام جن کاموں میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں؟ اُن میںمناظرہ بازی،لڑائی جگڑے،آپس میں کفر کے فتوے لگانےاور مختلف منافرات کے کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔غرض اُن کے ذمہ جو کرنےکا کام تھا،وہ اُس سے وہ بہت دور ہوچکے ہیں۔وہ یہ تک بھول چکے ہیںکہ قیامت کے دن عالم کو اُس کو علم کے متعلق سوال ہوگا۔ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ آخری دور میں آسمان کے نیچے بدترین لوگ اُس دور کے علماء ہونگے۔اُنہی میں سے فتنہ نکلے گا اور انُہی میں ختم ہوگا۔ذرا غو کریں،کیا آج کے علماء کی حالت اس سے مختلف ہے؟۔ہر جگہ مناظرہ بازی کے بازار گرم ہورہے ہیں،جن میں علماء کا اہم رول رہتا ہے۔
آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے مگر کوئی بھی مسلم ملک بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔ان حالات میں علماء کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہوں کو اُن مسائل کی طرف متوجہ کراتے،مگر جس طرح مسلم ممالک کے سربراہاں درپیش مسائل کی طرف توجہ دینے میں غفلت برتتے ہیں،اُس سے زیادہ توموجودہ وقت کے علماء غفلت میں مشغول ہیں۔
ایک حدیث شریف میں علماء کو چاند سے تشبیہ دی گئی ہے۔یعنی جس طرح چاند خود روشن ہوکر دوسروں کو روشنی دکھاتا ہے،اُسی طرح علماء بھی ہونے چاہئے۔اُمت کو جو چلینجزآج درپیش ہے،ان کی طرف علماء کی نظر ہونی چاہئے۔علماء کو چاہئے کہ ان چلینجز کو خوب اچھی طرح سمجھے اور عوام الناس کو ان چلینجز سے آگاہ کریں۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اس کی اپنی ایک تہذیب ہے۔وہ تہذیب علماء کو عوام کے سامنے رکھنی چاہئے۔مگر آج کے علماء نے مغربی تہذیب کے لئےمیدان ہموارکرتے جارہے ہیں۔جوکہ علمائے سلف کے کام کے بالکل مخالف ہے۔مولانا ادریس کاندھلویؒ کے والد حافظ محمد اسماعیل ٹماٹر کو ٹماٹر نہیں کہتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ یہ انگریزی لفظ Tomato کی اردو شکل ہے۔بقول ڈاکٹر محمد احمد غازی ’’یہ بات آج ہمیں لطیفہ معلوم ہوتی ہے۔لیکن اس بات نے اُس وقت مغربی اثرات میں رکاوٹ پیدا کی۔
مسلمانوں کی جو نئی نسل اسلام سے دور ہوتی جارہی ہے،اس کے وجوہات کو جاننا اور ان کا حل نکالنا علماء کی ہی ایک اہم ذمہ داری ہے۔مولانا ٰ مودودی ؒ کہتے ہیں کہ ’’علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رحجانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعاً کوشش نہیں کرتے۔جو چیز مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کررہی ہے، ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہے کرالیجئے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ اٹھا نہیں سکتے‘‘۔
علماء کو چاہئے کہ وہ فروعی مسائل کو چھوڑیں،اُمت کے اصل مسائل کی طرف دھیان دیں۔مسلکی اختلافات کو بالائی طاق رکھیں،اُمت کے عوام کو آپس میں لڑانا نہیں چاہئے بلکہ ان کوآپس میں سیسہ پلائی دیوار بننے کی تلقین کرنی چاہئے۔بقول سید مودودیؒ ’’ہمارے مذہبی رہنما فروع میں اس درجہ منہمک ہوئے کہ اصول ہاتھ سے چھوٹ گئے‘‘۔ اس وقت ملت کو علماء کی ایک قیادت ہونی چاہئے۔کیا آج کے علماء میں قائدانہ صلاحیت ہے؟نہیں!۔آج کے علماء صرف خانقاہوں میں کام کرتے ہیں،باہر کے دنیا کی ان کو پتہ ہی نہیں ہے۔علماء کو اس دور میں اپنے آپ میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اللہ تعالیٰ اُمت کو علماء حق سے نوازے۔آمین
(ایسو شانگس،رابطہ۔ 9149897428)
[email protected]