دوجَنم دو مَرن افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

احساس عالم، زندگی کی تلخیوں،ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا زہر پیتے پیتے صبر کا سمندر بن گئے تھے ۔اُن کی باتوں سے دُور اندیشی اور دانشوری کے باب کھلنے لگتے ۔یہ فکر واحساس ہر وقت اُن کے دل ودماغ پہ قابض رہتا کہ ہم کہاں سے اس دُنیا میں آتے ہیں ،یہاں کیا کرنا ہے اور مرجانے کے بعد کہاں جانا ہے۔حیات وکائنات سے متعلق غور وفکر نے اُن میں کئی خوبیاں پیدا کردی تھیں ۔اُن کی زندگی میں پیش آمدہ حالات وواقعات اور تجربات ومشاہدات نے اُنھیں بہت کچھ سکھا دیا تھا۔اُن کے دل ودماغ کے ہر گوشے میں یہ بات رچ بس چکی تھی کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے ۔منافقت انسان کو رُسوا کرتی ہے۔خود نمائی ،خود غرضی اور چھچھورا پن انسان کی عزت ختم کردیتا ہے ۔حرص وہوس انسان کو سکون وراحت سے دُور رکھتی ہے ۔جھوٹ اور حرام کا مال انسان کا دل مردہ کردیتا ہے۔ اُنہیں دینی ودُنیاوی علوم کی خاصی واقفیت تھی۔گہرے مطالعے اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ اُن کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہربات کو منطقی اور استدلالی اُصولوں پر پرکھنے کے عادی تھے ۔ڈویژنل کمشنر جیسے بڑے عہدے سے سبکدوش ہوچکے تھے ۔احساس عالم نے بہت پہلے اپنے دل ودماغ میں اس بات کو بسا لیا تھا کہ بڑا آدمی بڑے قد اور عہدے کے لحاظ سے بڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ گوناگوں خوبیوں اور وسیع تر معلومات کے اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ایک روز احساس عالم کے دوست گفتار احمد نے انھیں فون کیا کہ میں کسی اہم مسٔلے کے بارے میں آپ کے گھر پر آرہا ہوں۔گفتار احمد ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے کافی مشہور ومقبول تھے ۔احساس عالم سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے ۔سماج کے تقریباً ہر فرد پر اُن کی نظر رہتی تھی ۔کچھ ہی وقت کے بعد وہ اپنی گاڑی میں احساس عالم کے گھر پر پہنچ گئے۔اُنھوں نے گیٹ پہ لگی بیل کا بٹن دبایا تو اندر اللہ اکبر کی صدا گونج اُٹھی۔چند لمحوں میں احساس عالم کا خادم گیٹ پر آگیا اور گفتار احمد سے پوچھنے لگا
’’جی آپ کون؟‘‘
’’بیٹے مجھے گفتار احمد کہتے ہیں ۔میں احساس عالم صاحب سے ملنے آیا ہوں ،انھیں کہیے آپ کے دوست آپ سے ملنے آئے ہیں‘‘
خادم نے اندر جاکر احساس عالم کو بتایا ۔وہ خود اندر سے گیٹ پر آئے ۔گفتار احمد نے انہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو زور سے کہا’’السّلام علیکم‘‘گفتار احمد کو دیکھتے ہی اُنہوں نے مسرت آمیز لہجے میں کہا
’’وعلیکم السّلام۔ارے گفتار! آپ ہیں ، آیئے اندر آیئے‘‘
احساس عالم ،گفتار احمد کو ڈرائنگ روم میں لے آئے۔خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد خادم کو چائے پانی لانے کو کہا۔کچھ ہی وقت کے بعد خادم نے پانی کے دوگلاس لائے اور اُس کے بعد چائے لائی ۔چائے پیتے ہوئے احساس عالم نے گفتار احمد سے پوچھا
’’اور سُنایئے آج کل کیا کچھ ہورہا ہے اور آپ کیا کچھ کررہے ہیں؟‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’آج کل کیا کچھ ہورہا ہے وہ سب کچھ موبائل فون کے ذریعے ہر شخص کو معلوم ہوجاتا ہے ۔رہا یہ سوال کہ میں آج کل کیا کچھ کررہا ہوں تو میرے دوست!میرے مشاہدے میں کچھ ایسے حیران کن واقعات آئے ہیں کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ اتنی تعلیمی،سائنسی اور تکنیکی ترقی کے باوجود ہمارے سماج میں آج بھی
ایسے کچھ لوگ کیوں موجود ہیں جوبچکانہ حرکتیں کرتے ہیں اور احساس سے عاری ہیں‘‘
احساس عالم نے متجسس انداز میں پوچھا۔
’’ارے! کیا ہوا؟کس طرح کے لوگ دیکھے؟‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’یار! ہمارے محلے میں ایک آوارہ گدھا کھبی کبھی آتا ہے اِدھر اُدھر نالیوں میں پڑا کچرا کھاکے واپس چلا جاتا ہے ۔ایک روز کالج کے پروفیسر مُدبّر اکبر نے نہ جانے کہاں سے خاردار ٹہنیاں لاکر اُس گدھے کی دُم کے او پر رکھ دیں ۔گدھا دولتّی جھاڑتا ہوا تیزی سے بھاگنے لگااور اِدھر پروفیسر مُدبّر اکبر ہنستے ہنسے لوٹ پوٹ ہونے لگے‘‘
احساس عالم یہ واقعہ سُن کے ہنس پڑے ،پھر کہنے لگے
’’ارے ! اتنے بڑے کالج کے پروفیسر کی ایسی نازیبا حرکت !یار، گفتار یہ میں کیا سُن رہا ہوں‘‘
گفتار احمد نے اپنی ہنسی پہ قابو پاتے ہوئے کہا
’’ایک اور واقعہ سُن لیجیے ۔وہ یہ کہ ایک روز میں اپنے مکان کی بالکونی میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پڑوس کی میڈم نازلی نئے سُوٹ بوٹ اور پورے بناؤ سنگھار کے ساتھ اپنی گاڑی کی چابی لے کر گھر سے باہر نکلی تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اُس نے پیچھے مُڑ کر اپنی ایڈیوں کی طرف ایک دو بار دیکھا اور پھر گاڑی میں بیٹھ گئی‘‘
احساس عالم یہ سُن کر ایک بار پھر زور سے ہنس پڑے پھر مذاق کے طور پر کہنے لگے
’’ہوسکتا ہے صحیح بناؤ سنگھار کی تصدیق ایڈیوں سے حاصل ہوگئی ہو‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’تیسرا واقعہ سُن لیجیے۔وہ یہ کہ ایک روز میں گھر سے بازار کی طرف جارہا تھاکہ اسی دوران میں نے انجان عاقل نام کے ایک نوجوان کو اپنے بوڑھے باپ کی پٹائی کرتے دیکھا۔بوڑھے باپ کی دلدوز چیخیں سُن کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔میںنے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔جاتے ہی اُس نوجوان کو بالوں سے پکڑا ۔لاتوں اور مُکّوں سے اُس کی دُھلائی کی ۔وہ درد سے ایک طرف بلبلاتا رہا ۔میں نے جب اُس بوڑھے باپ سے یہ پوچھا کہ آپ کا بیٹا آپ کو کیوں مارہاتھا تواُس نے کہا
’’بیٹے! میرا بیٹا شراب پیتا ہے ۔میں نے جب آج اِسے گھر میں دیکھ لیا تو میں نے اِسے ڈانٹا لیکن اِس نے مجھے مارنا شروع کیا‘‘
یہ واقعہ سُن کے احساس عالم کی احساساتی دُنیا میں مایوسی پیدا ہوگئی ۔انھوں نے کہا
’’ارے! لعنت بھیجو ایسے سنگدل بیٹے پر ۔سوچئے اس دور میں خونی رشتے کتنے پامال ہورہے ہیں!‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’میرے دوست !چوتھا واقعہ سُن لیجیے۔وہ یہ کہ ایک روز میرا بھانجا محمد دلکش میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا۔’’ماموں ! میں نے اپنے لئے پانچ منزلہ مکان تیار کردیا ہے۔چھٹی منزل کی فکر میں ہوں ۔چوبیس لاکھ روپے کی گاڑی خریدنا چاہتاہوں اور دو انگریزی نسل کے کُتّے خریدنے کا شوق ہے جو میرے گھر کی صحیح رکھوالی کرسکیں‘‘۔میںنے اپنے بھانجے کو کہا۔’’کیا تم نے یہ شعر نہیں سُنا ہے کہ
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
بھانجے نے کہا’’ماموں !مجھے موت والے شعر نہ سُنائیں ۔مجھے موت سے ڈر لگتا ہے۔ابھی میرے ارمان باقی ہیں‘‘
احساس عالم نے یہ واقعہ سُن کر ایک ٹھنڈی آہ بھری ،پھر کہنے لگے
’’میرے دوست!اُس مکان کی کسی کو فکر نہیں ہے جہاں تاقیامت رہنا ہے‘‘
گفتار احمد نے لمحہ بھر کے لئے خاموشی اختیار کی پھر اچانک انہیں ایک اور واقعہ یاد آگیا۔کہنے لگے
’’ایک اور واقعہ سُن لیجیے ،وہ یہ کہ ایک روز میں اپنے پڑوسی کے ساتھ دلشاد ہوٹل میں چلا گیا ۔وہاں پہنچ کر ہم نے کباب کی ایک ایک پلیٹ کھائی ۔ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک استاد اور اُس کا چہیتا شاگرد آکے سامنے ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔اُستاد نے اپنے شاگرد کی طرف شراب کی بوتل بڑھاتے ہوئے کہا
’’بوتل کا ڈھکن آہستہ سے کھولو اور دو پیگ تیار کردو‘‘دیکھتے دیکھتے استاد اور شاگرد دونوں شراب پینے لگے اور اِدھر مجھے کسی مسجد سے اذان سُنائی دینے لگی‘‘
احساس عالم کے چہرے پر رنجیدگی کے آثار اُبھر آئے ۔کہنے لگے
’’اللہ سب کو ہدایت دے اور احساس کی دولت سے مالا مال کرے‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’میرے دوست ! میں نے آپ کو پانچ چشم دید واقعات سُنائے ۔میں اس طرح کے لوگوں کے بارے میں آپ کے بصیرت افروز خیالات سننے کا متمنی ہوں کیونکہ آپ ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار شخصیت ہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے عالم بھی ہیں اور عامل بھی‘‘
احساس عالم نے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
’’گفتار احمد!میرے دوست!یہ آپ کا حُسن ظن ہے ۔میں ایک معمولی آدمی ہوں۔لیکن اس کے باوجود میں ایسے لوگوں کے بارے میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں ۔وہ آپ غور سے سُن لیجیے ۔بہت ممکن ہے کہ آپ کے دل ودماغ میں میری وہ باتیں اُتر جائیں ۔پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ نسل ِ آدم اس دُنیا میں دو طرح کا جنم لیتی ہے ۔پہلا جنم وہ ہے جب آدمی نو مہینے کے بعد ماں کے پیٹ سے اس دُنیا کے پیٹ میں آتا ہے ۔لیکن دوسرا جنم لینے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں ۔جب آدمی میںخداشناسی،خود شناسی،فہم وفراست،احساسِ ذمہ داری،تہذیب وشائستگی ،صبر وتحمل،شعور وادراک،احساس موت وحیات جیسی اخلاقی وروحانی صفات پیدا ہوجاتی ہیں تو سمجھ لیجیے اُس نے دوسرا جنم لے لیا۔آپ نے مجھے جو پہلے دو واقعات سُنائے اُن میں پروفیسر مُدبّر اکبر اور میڈم نازلی نے ابھی دوسرا جنم نہیں لیا ہے ‘‘
احساس عالم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
’’گفتار احمد !جہاں تک آپ کے تیسرے ،چوتھے اور پانچویں بیان کردہ واقعے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کی معلومات کے لئے یہ کہنا چاہتا ہوںکہ آدمی کی موت بھی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک ضمیری موت اور دوسری جسمانی موت۔جب آدمی کا ضمیر مرجاتا ہے تو پھر وہ نہ حقوق وفرائض کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اُس میں حرام وحلال کی تمیز رہتی ہے ۔اس لئے آپ کے تیسرے واقعے میں انجان عاقل ،چوتھے واقعے میں محمد دلکش اور پانچویں واقعے میں استاد اور شاگرد کی پہلی موت ہوچکی ہے!‘‘
گفتار احمد نے کہا
’’یار! آپ کی باتوں نے مجھے حیران کردیا۔یہ تو بالکل ایک نیا انکشاف ہے ۔میں اللہ کا شکر بجالاتا ہوں کہ آپ سے میری ملاقات ہوئی ۔کافی وقت بیت گیا ہے ۔میں اب آپ سے اجازت چاہتاہوں ۔اللہ نے چاہا تو پھر کبھی ملاقات ہوگی‘‘
احساس عالم نے کہا
’’یار! مجھے بھی یہ موقع نصیب ہوا کہ اپنے قلیل مطالعے، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کچھ باتیں آپ کے گوش گزار کرسکا‘‘
گفتار احمد اُٹھ کھڑے ہوئے ۔احساس عالم سے ہاتھ ملاتے ہوئے باہر اپنی گاڑی میں آکے بیٹھ گئے اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔راستے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے پوچھ رہے تھے کہ میرا دوسرا جنم ہوا ہے کہ نہیں ؟اور کبھی اُن کے دل ودماغ کو یہ احساس دبوچنے لگتا کہ کہیں میری پہلی موت تو نہیں ہوگئی۔
���
سابق صدر شعبۂ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532