دنیا اور دولت کی ہوس تقویٰ کی دشمن فکر و ادراک

ابو نصر فاروق

اے ایمان لانے والو تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔شاید کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوجائے۔ (البقرہ:۱۸۳)حضرت
قرآن میں جب روزے کا حکم آیا توبتایا گیا کہ روزے کا مقصد روزہ دار میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔یعنی روزہ رکھ کر بھی اگر روزہ دار میں تقویٰ پیدا نہیں ہوا تو روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں ہوتا ہے۔جھوٹ پر عمل کرنے کا مطلب ایسی تما م باتوں پر عمل کرناہے جو شریعت کے خلاف ہیں۔
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کئے، جن کو کتاب دی گئی تھی اُن کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ اُنہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میںایک دوسرے پرزیادتی کرنے کے لئے ایسا کیا۔ اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے تو اللہ کو اُس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔(آل عمران:۱۹)
جن لوگوں نے خود کو مسلمان کہنے کی جگہ مختلف فرقوں کے ذریعہ اپنی پہچان بنا رکھی ہے، وہ سب اسلام کے مخالف اور انکار کرنے والے ہیں۔ ان کے اندر نہ تقویٰ ہے نہ ایمان کی خوبیاں۔بلکہ وہ فرقہ پرستی ہے جس سے مسلمانوں کو سختی سے منع کیا گیا اور روکا گیا ہے۔یہ ایسے گنہ گار ہیں کہ ان کی وجہ سے اللہ کا عذاب آئے گا اور وہ عذاب صرف ان تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کے شکار ہو جائیں گے۔وہی بات ہوئی کہ خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی ڈبو کر رہیں گے۔
اصلی اور سچے اسلام کی پیروی کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہر مسلمان دین کا علم حاصل کرتا ،لیکن وہ ایسا نہیں کر رہا ہے، دنیا داری سے اُس کو فرصت ہی نہیں ہے۔اللہ کی آیات سے منہ موڑنے اور اُن کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوگا پڑھئے:’’اب اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور اُن سے منہ موڑے،جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں اُنہیں اُن کے اس منہ موڑنے کی بدلے میں ہم بد ترین سزا دے کر رہیں گے۔(انعام:۱۵۷)
اللہ کے قانون کی جگہ شیطانی قانون کی پیروی کرنے والے قیامت میں کافر قرار دے دئے جائیں گے اورجہنم میں جلتے رہیں گے۔ ایسے لوگوں کا روزہ اور تراویح اور قرآن کی بیکار تلاوت، اُن کے کام آئے گی ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازدین کا ستون ہے۔جس نے نمازقائم کی، اُس نے دین قائم کیا۔ جس نے نماز ڈھادی، اُس نے دین ڈھا دیا ۔ (مؤطا امام مالکؒ)رسول اللہؐنے فرمایا: تین آدمی کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں اٹھتی۔(یعنی قبول نہیں ہوتی)وہ امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں، وہ عورت جس کا شوہر اُس سے ناراض ہو،وہ بھائی جو اپنے بھائی سے تعلق توڑے ہوئے ہو۔(ابن ماجہ)
کیا اس دور میں مسجدوں کے امام ایسے ہیں کہ اُن کے مقتدی کی اکثریت اُن سے خوش ہے ؟ کیا گھروں کی عورتیں ایسی ہیں جن سے اُن کے شوہر ہر لحاظ سے راضی اور مطمئن ہوں ؟ کیا بھائی بھائی اور بھائی بہن میں محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا رشتہ قائم ہے یا سب ایک دوسرے سے رنجش اور شکایت اپنے دل میں پال رہے ہیں ؟ نہیں تو پھرایسے لوگوں کا روزہ کیسے قبول ہوگا اور جنت کیسے ملے گی ؟
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری دنیا ایک پونجی ہے اور اس کا بہترین حصہ ایک صالح عورت ہے۔ (مسلم)حضرت ام سلمہ ؓروایت کرتی ہیں، رسول اللہؐ فرمایا: جس عورت کی وفات کے وقت اس کا شوہر اس سے راضی ہے وہ بہشت میں جائے گی۔ (ترمذی)حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں، رسول اللہ ؐنے فرمایا: اگر (میںاللہ کے سوا خلق میں سے)کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دینا چاہتا توعورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی)
کیا مسلم گھرانوں میں آج ایسی بیویاں پائی جاتی ہیں جن کی تصویر نبی رحمتؐ دکھا رہے ہیں ؟ اگر ایسی بیویاں ہوتیں تو اُن گھروں میں ایسی بیٹیاں پیدا نہ ہوتیں جو غیر مسلموں سے شادی کرتیں۔آج کی مسلم لڑکیوں کو دین کی تعلیم دی ہی نہیں گئی اور اُنہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ قرآن میںاللہ کا حکم ہے کہ ایمان والے زانی اور مشرک مرد عورتوں سے نکاح نہ کریں۔مسلم لڑکیاں جب غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرتی ہیں تو وہ زندگی بھر اُن کے ساتھ زنا کرتی رہتی ہیں، اور اللہ کے نزدیک اُن کی حیثیت زناکار یا طوائف کے جیسی ہوتی ہے ،جس سے پورا انسانی سماج نفرت کرتا ہے۔ایسے گھر والوں کا روزہ کیسے قبول ہوگا ؟
حضرت ابن عباسؓکہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو، اور میں تم میں کا بہترین آدمی ہوں ، بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لحاظ سے۔(ابن ماجہ)
کیا مسلم گھرانوں میں بیویوں کے شوہر اس طرح کے ہیں جیسی تصویر اوپر کی حدیثوں میں دکھائی جارہی ہے ؟ نہیں تو پھر یہ نہ اپنے آپ کو جہنم سے بچا پائیں گے ،نہ اپنی بیوی کو نہ اپنے بچے اور خاندان کو۔ایسے مرد اور شوہر اور باپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پورے خاندان کو جہنم میں پہنچا دیں گے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے گھرانوں میں جب لوگ روزے رکھ رہے ہیں اور جیسے تیسے تراویح بھی پڑھ رہے ہیں تو اُن کو اس کا فائدہ ہوگا ؟
’’رشتہ دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اورمسافر کو اُس کا حق، اور فضول خرچی نہ کرو۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل:۲۶/۲۷)حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ فرمایا:بدلہ چکانے والا صلہ رحمی کرنے (رشتے نبھانے ) والانہیںہے۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اُس سے رشتہ داری توڑی جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔(بخاری)
رشتہ داروں سے رشتہ داری نبھانے کے کتنے فائدے ان حدیثوں میں بتائے جا رہے ہیں۔لیکن مسلم ملت کے گھرانوں کو دیکھئے،جتنے دولت مند لوگ ہیں وہ اپنے غریب رشتہ داروں سے تعلق اور ناطہ نہیں رکھتے ہیں۔وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ اُن کے غریب رشتہ دار اُن کے گھروں میں آئیں، جن کی وجہ سے سماج میں اُن کی بدنامی ہو۔جب آج کے مسلمان رشتہ داریاں نبھاہی نہیں رہے ہیں، تو پھر ان کاروزہ کس کام کا ؟
حد سے زیادہ دولت کا لالچی مال جمع کرنے کی ہوس میں دوسرے ضرورت مندوں پرخرچ نہیں کرتا ہے، لیکن اپنے شوق ، نام و نمود،دکھاوے اورعیاشی کے لئے بے تحاشہ مال خرچ کرتا رہتا ہے۔ اپنی فضول خرچی کے لئے اس کے پاس دولت کم نہیں ہوتی ہے، لیکن کسی نیک کام میں خرچ کرنے کے لئے یہ غریب اور نادار بن جاتا ہے۔فضول خرچی اسے شیطان کابھائی اور اللہ کا ناشکرا بنا دیتی ہے ،لیکن یہ احمق سمجھتا ہے کہ اس کا نمازی اور حاجی ہونا اُسے جنت میں لے جائے گا۔ہر گز نہیں شیطان کے بھائی اور ناشکرے کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔بدنصیب کو نہیں معلوم کہ اُس کی حد سے زیادہ دولت ہی اُسے جہنم میں آگ بن کر جلاتی رہے گی۔ایسے بد نصیبوں کا کیسا روزہ، کیسی تراویح، کیسی شب قدر اور کیسی عبادت۔ سب کچھ دکھاوے اور ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
حد سے زیادہ دولت کا مالک خود سے کمتر لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اُن سے ہمدردی کی جگہ نفرت کرتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اپنے غریب رشتہ داروں کا بھی اپنے یہاں آنا جانا یا اُن کے یہاں آناجانا پسند نہیں کرتا ہے۔اس کا غلط تکبر اورغرور اس کو ایسا شیطان بنا دیتا ہے جو اللہ کی رحمت اور حفاظت سے محروم اور بدنصیب بن کر دنیا میں بے چینی ، بیماری اور ذلت و رسوائی کا عذاب جھیلتا رہتا ہے۔نبی کریم ؐ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر اور غرور ہو گا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ایسے بد نصیبوں کا کیسا روزہ، کیسی تراویح، کیسی شب قدر اور کیسی عبادت۔ سب کچھ ڈھونگ ہے۔
ظلم کا ایک مطلب تو شریعت پر عمل نہیں کرنا یعنی اُس کا انکار کرنا ہوتا ہے اور اُس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے حق سے زیادہ لے اور دوسرے کو اُس کے حق سے کم دے۔کیا اس وقت کے مسلم سماج میں مسلمان ایک دوسرے سے مطمئن ہیں کہ اُن کی حق تلفی نہیں ہورہی ہے ؟کیا مسلم گھرانوں میں رہنے والے خاندان کے افراد ایک دوسرے پرظلم یعنی اُن کے حق کی حق تلفی نہیں کر رہے ہیں۔کیامسلم گھرانوں میں پیار محبت،ہمدردی خیر خواہی اوراپنائیت کا ماحول پایا جاتا ہے ؟ آج کا مسلمان اس دور کی شیطانی تہذیب اورماحول کا ایسا دیوانہ ہو چکا ہے کہ اُس کو اللہ اور رسولؐ کی کوئی پروا نہیں۔اُس کا ایمان عقیدہ،یقین اور طور طریقہ صرف حد سے زیادہ دولت کمانا اور جمع کر کے رکھنا ہے۔کیاایسے لوگوں کو رمضان کی مبارکباد دی جاسکتی ہے ؟
(رابطہ8298104514)