دلدوز سانحہ اور سوشل میڈیا کارستانی کڑواسچ

فاضل شفیع فاضل
اپنی گندی سوچ اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام انسان اور پرامن مسلمان مرد یا عورت کو بے گناہ قتل کرنے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات کے حقوق تک کا خیال رکھتا ہے ،وہ اولاد آدم کے قتل عام کی اجازت کیسے دے سکتا ہے! بیٹی اللہ کی طرف سے ایک نعمت بھی ہے اور ایک عظمت بھی ہے ، جس کی قدر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ حال ہی میں بڈگام میں ایک دل کو دہلا دینے والا واقع پیش آیا۔ ایک انسان نے کس طرح حیوانیت سے ایک جواں سال طالبہ عارفہ کا بے دردی کے ساتھ قتل کیا اور اس کی لاش کے کئی ٹکڑے کرکے متعدد جگہوں پر پھینکے۔ کیا ایک انسان اس قدر وحشت اور درندگی کا روپ اختیار کر سکتا ہے! یہ ایک الگ موضوع ہے۔
عارفہ کے قتل سے اس کے گھر والوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ لیکن بے حد افسوس کی بات یہ ہے کہ چند خودساختہ فیس بک صحافیوں نے کس طرح عارفہ کے قتل کے سانحہ کو سوشل میڈیا پر اُچھالا ہے۔ حد تو تب ہوئی جب ایک فیس بک صحافی نے عارفہ کی ماں سے سوال کیا ،’’ عارفہ کے قتل کو لے کر آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟‘‘۔ افسوس! کیا آپ صحافت کے اصولوں سے بے خبر ہیں؟ فیس بک صحافیوں نے مقتول عارفہ کے گھر پر میلہ لگا کے رکھا ہے۔ دراصل وہ ان کے دکھ درد بانٹنے نہیں بلکہ اپنے اپنےفیس بک پیجوں اور چینلوں کو بڑھاوا دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ چند خود ساختہ صحافیوں نے تو اس قتل کی تحقیقات بھی مکمل کی ہے اور خود سے فیصلے بھی آنے شروع ہو گئے ہیں۔
عارفہ کا دردناک قتل سوشل میڈیا کے ان فنکاروں کے لیے ایک نئی چیز لے کر آئی۔ کسی نے اپنے فیس بک پیج پر ایکن (Animated video) ڈالا تھا، جس میں قاتل شبیروانی کا سرقلم کردیا جاتا ہے اور دوسری ویڈیو میں اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ آخر ایسی ویڈیو کا مقصد کیا ہے؟ محض کچھ Views حاصل کرنا یعنی دوسرے الفاظ میں یہ لوگ عارفہ کے قتل سے بھی فیس بک یا یوٹیوب سے پیسے کما رہے ہیں۔ کشمیر وادی میں سوشل میڈیا خاص کر فیس بک اور یوٹیوب نے تہلکا مچا کے رکھا ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ عارفہ کے قتل کا معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے۔حالانکہ جموں کشمیر پولیس نے محض چند روز میں ہی اصل قاتل کا پردہ فاش کر کے اس کو عوام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ قاتل کو سزا اب قانون دے گا نہ کہ فیس بک یا یوٹیوب! میری قاتل کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے لیکن میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ عارفہ کے اہل خانہ کو یہاں کے فیس بک جرنلسٹس نے کافی حد تک پریشان کیا ہے۔ ایسے ایسے سوالات پو چھے جا رہے ہیں جو کہ صحافت کے دائرے سے باہر ہیں۔ ایک فیس بک صحافی رو رو کر لوگوں سے ویڈیو شیئر کرنے کی تلقین کر رہا تھا، اس کے آنسو عارفہ کے لئے نہیں بلکہ اپنی چینل کے لیے تھے ،کیونکہ ہمارے فیس بک اور یوٹیوب حضرات کو ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھاناخوب آتا ہے۔
سوشل میڈیا نے صحافت جیسے اعلیٰ پیشے کو کافی نقصانات سے دوچار کیا ہے اور کشمیر کے ہر گھر میں ایک فیس بک صحافی موجود ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی چینلوں کو فروغ دینے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں اور جھوٹی اور غیر مستند خبروں کو بڑھاوا دینے میں ان کا اہم کردار رہتا ہے۔ ان کی صحافت کا دائرہ شئیر (Share) سے شروع ہوکر سبسکرائب(Subscribe) پر ختم ہوتا ہے۔ ان کا ویڈیو کس حد تک صحیح ہے، اس بات کی ان کو کوئی پرواہ نہیں رہتی کیونکہ ان کو جلد از جلد اپنی چینلوں کو (Monitize) کرنا رہتا ہے تاکہ فیس بک یا یوٹیوب ان کی کمائی کا ایک نہ رُکنے والا ذریعہ بن جائے۔
مقتول عارفہ کے گھر میں اس وقت متعدد فیس بک صحافی اور یوٹیوبر موجود ہیں جو ہر روز طرح طرح کی ایک نئی ویڈیو نکالتے ہیں، جس سے ان کی اچھی خاصی کمائی ہو سکے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ صحافت جیسے عظیم پیشے سے کس طرح ایسے لوگوں نے کھلواڑ کیا ہے اور ان کی تعداد میں بڑھتا اضافہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے!
آج جو لوگ عارفہ کے گھر سے روز نئی نئی دلخراش ویڈیوز بناتے ہیں، اگلے چند روز میں غائب ہو جائیں گے اور اس سانحہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول جائیں گے۔ یہ صحافت نہیں بلکہ مفاد پرستی ہے۔ یہ لوگ پھر سرکار سے پوچھنے کی زحمت نہ کریں گے کہ آخر عارفہ قتل کیس کی سماعت کہاں تک پہنچی!
ایسے لوگوں کو بڑھاوا دینے میں ہم سب شامل ہیں کیونکہ انکی ویڈیوز کو ہم لوگ آگ کی طرح پھیلاتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان ویڈیوز کو دیکھتے ہیں اور شیئر کرتے ہیں جس سے ایسے خود ساختہ صحافیوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے خودساختہ صحافیوں کی جانچ پڑتال کرنا اب وقت کی ضرورت بن چکی ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے کام لے کر ایسے لوگوں کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی مقتول عارفہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
[email protected]