دعوت کارڈ افسانہ

 خوشنویس میر مشتاق

دعوت ہو یا نہ ہو۔۔۔۔۔ دعوت کا نام سُنتے ہی مُنہ میں پانی بھر آتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے طرح طرح کے پکوان گردش کرنے لگتے ہیں ۔ زباں پر طرح طرح کے سواد آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ قوتِ ذائقہ تیز ہونے لگتی ہے۔ دعوت کو لے کر دل میں عجیب قسم کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ کچھ بھی ہو دعوتوں کا اپنا الگ ہی مزّہ ہے ۔ یہ بِن بُلائے مہمان کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ گھر کے سالن کھا کھا کے مُنہ کا ذائقہ بھی اب خراب ہونے لگا ہے۔ عرصہ ہوا کہیں سے کوئی دعوت نہیں ہوئی۔
خیر! دعوتوں کا کیا دعوتیں تو ہوتی رہینگی۔۔۔۔!!!
فرمان کے ہاں شادی کی تقریب ہونے والی ہے۔ شادی کو لے کر گھر میں کافی گہما گہمی ہے۔ اِدھر شادی سر پہ آن پہنچی ہے اُدھر فرمان کا پارا ساتویں آسمان کی گردش پر ہے۔ شادی کو لے کر فرمان کافی فکر مند تھے۔ کیوں نہ ہو ! اکلوتی بیٹی کی شادی جو ہونے جا رہی ہے۔ یہاں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ اِن لوگوں کے شاپنگ کے چونچلے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
شام کے وقت گھر کے سبھی لوگ دستر خواں بچھائے کھانا نوش فرما رہے تھے۔ سبھی گھر والے باتوں ہی باتوں میں اس قدر مگن ہو گئےکہ کھانے پینے کے آداب تک بھُول گئے۔ ذکر شادی کا ہی چل رہا تھا ۔ ہر کوئی اپنی اپنی بات منوانے کی خاطر ایسے فرمائشیں کر رہا تھا جیسے کوئی فرمائشی پروگرام چل رہا ہو۔ فرمان چُپ چاپ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ آخر ! فرمان کو اپنے ضبط پر قابو نہ رہ سکا۔ فرمان کی گرج دار آواز سے کِچن میں ایک دم سے سناٹا چھا گیا ۔ گھر کے سبھی فرد ایک دوسرے کو کتنے لگے۔
فرمان:۔ ” تم لوگوں کو صرف اپنی اپنی پڑی ہے۔ تمہیں اِس بات کا اندازہ بھی ہے کہ شادی سر پر کھڑی ہے اور ابھی تک کارڈ بھی چھپ کر نہیں آئے۔ یہ شادی ہے کوئی مذاق نہیں جو تم لوگ اِتنے غیر سنجیدہ ہو رہے ہو۔ابھی تک تو کارڈ چھپ کر آجانے چاہیے تھے۔
ہاں ! کارڈ جب چھپ کر آجائیں ۔ میرے مرحوم بھائی کی بیوہ کا کارڈ مجھے دے دینا میں خود جاکر کارڈ دے آؤں گا۔ باقی تم لوگوں کو شادی میں جس جس کو بُلانا ہے بُلا لو۔ بس اِس بات کا خیال رہے کوئی رہ نہ جائے۔
آخر ! لوگوں میں میرا اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ میری بھی کوئی عزّت ہے۔ میرا بس ایک ہی ارمان ہے کہ شادی دھوم دھام سے ہو۔ شادی میں کسی بھی قسم کی بد مزّگی نہ ہو۔ دعوت ایسی ہو کہ دعوت ختم ہونے کے بعد لوگوں کی زبان پر صرف اور صرف میرا نام ہو اور کچھ نہیں۔۔۔۔”
بالآخر ! کارڈ بھی اچھے سے تقسیم ہو گئے ۔ شادی کا دن بھی آن پہنچا۔ مہمان بھی آنے شروع ہو گئے۔ قریبی رشتہ دار تو دو دن پہلے ہی ڈیرہ جما کے بیٹھ گئے۔ ہر ایک چہرہ پُر مسّرت ، سُرور و اِنبساط کی کیفیت لئے دعوت کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ بیٹی کی رخصتی بھی خیر خیریت سے ہو گئی۔ دعوت بھی تقریباً اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ لوگ دعوت کا کھانا ایسے چٹکا کر گئے جیسے صدیوں سے بھوکے پڑے ہوئے تھے۔ لیکن فرمان کے مرحوم بھائی کی بیوہ ابھی تک دعوت میں شرکت کیلئے نہیں پہنچی۔ لوگوں کو ویسے بھی باتیں بنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ یہ نظّارہ دیکھ کر لوگ کُونوں کُھدروں میں جاکر کُھسر پُھسر کرنے لگے ۔ فرمان لوگوں کا رویّہ دیکھ کر سخت پریشان ہونے لگے۔ آخر ! مرحوم بھائی کے گھر سے ایک بھی فرد شادی میں شرکت کیلئے نہیں آیا۔ فرمان پریشانی کی کیفیت چہرے پر لئے چہل قدمی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔
فرمان ہاتھ ملتے ہوئے خود ہی خود سے باتیں کرنے لگے!
“آخر ! کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کسی بات کا گِلہ تو نہیں ہوا ؟ ہم لوگ اِتنے بےحِس تو نہیں ہیں۔
یا خُدایا! میری جو بچی کھچی عزّت تھی آج وہ بھی چلی گئی۔”
فرمان اِسی پریشانی کی کیفیت میں کمرے کے چکر کاٹ رہا ہے۔ دفعتا اُس کی نظر طاق پر پڑے لفافے کی طرف پڑی جس پر مرحوم بھائی کی بیوہ کا نام بڑے بڑے حرُوف سے لکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔!!!
���
ایسو،اچھ بل ( اننت ناگ)
[email protected]