دستورِ ہند ۔حقوقِ انسانی کا سچا علمبردار اپنا وطن

مجاہد عالم ندوی
ہمارے دستور کی خصوصیت یہ ہےکہ یہ ایک تاریخی اور تفصیلی مسودہ ہے، دستور ہند کو ترتیب دینے میں بہت ساری سماجی اور اقتصادی خواہشات اور امیدوں وابستہ ہیں۔ کسی اور ملک کا دستور اتنا استحقاق نہیں رکھتا ،جتنا دستور ہند جمہوریت کو ملک میں نافذ کرنے کے قابل ہے۔دستور ہند کی خاصیت یہ ہےکہ یہ دستور ایک وقت میں تمام کو حقوق فراہم کرتا ہے۔ذات پات، مذہب، جنس، طبقاتی، معاشی حیثیت اور دیگر معاشرتی برائیوں سے قطع نظر آئینی حقوق کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔بھارتی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں جس میں کثیر الجماعتی جمہوریت ، آزاد عدلیہ ، انتخابی یونین ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مابین اختیارات کی وضاحت ، اقلیتوں کے لیے خصوصی تحفظ ، قبائل اور مظلوم طبقات کے لئے ریزرویشن اور سیکولرازم شامل ہے۔
کئی جمہوری ممالک کو جمہوریت حاصل کرنے کے لیے دستور کو مرتب کرنے میں مستقل جدوجہد کرنا پڑا اور برسوں تک اس کی مہم چلانی پڑی مگر ہمارے ملک کے دانشوروں نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مکمل دستور فراہم کیا، آئین کی مثالی 11 جلدیں اس بات کا ثبوت ہیں۔
متنوع نظریات کی یکجہتی :
پہلا آئینی کنونشن 9 دسمبر 1946 کو ہوا تھا، آئین ترتیب دینے والے کمیٹی کے تقریبا 82 فیصد ارکان کانگریس کے ممبر تھے۔ ان کے خیالات ایک دوسرے کے متضاد تھےاور یہ اتنا آسان نہیں تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا تحریری آئین بنانے کے لئے ان سب کو متحد کیا جائے۔اس پورے عمل میں اگرچہ کانگریس کے ارکان اکثریت تھی مگر اسے ترتیب دینے میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا اور اس عمل میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو بھی شامل کیا گیا تاکہ آئین کو مخصوص پارٹی کے داخلی عمل کے طور پر نہیں دیکھا جائے،اس لیے آئینی فریم ورک کمیٹی کے چیرمین کے طور پر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو منتخب کیا گیا۔ عظیم قائدین کی کوششیںڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے انہیں دی گئی ذمہ داریوں کو بے مثال صلاحیتوں سے نبھایا۔ اگرچہ کمیٹی میں 300 افراد تھے جن میں صرف 20 افراد نے ہی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کانگریس کی جانب سے ، جواہر لال نہرو ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بابو راجندر پرساد نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔
کے ایم منشی اور الاڈی کرشناسوامی آئیر کا کردار بھی نمایاں تھا۔ آئین پریشد کے قانونی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے بی این راؤ اور چیف ڈرافٹس مین کے کردار میں ایس این مکھرجی کا انوکھا کردار بھی اتنا ہی قابل ستائش ہے،انضمام کو اہمیت دی گئی ۔ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی بیشتر دفعات ، جو برطانوی حکمرانوں نے تشکیل دی تھیں، کو آئین ہند میں شامل کیا گیا تھا۔ جدید جمہوریتوں کے تجربات سے بہت کچھ نکالا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ تنقید ہوئی ہے کہ آئین سے ’بھارتیہ‘ کے آثار ہٹا دیئے جا رہے ہیں۔مرکز ریاست تعلقات کے بارے میں کافی بحث ہوئی۔ جس کے بعد ایک ایسے وفاقی نظام کو تشکیل دیا گیا جو ریاستوں کو کچھ اختیارات کے ساتھ ایک خاص درجہ فراہم کرتی ہے۔
تحفظات کی حمایت :
ڈاکٹر امبیڈکر نے اس وقت کے کمزور اور تکلیف جھیل رہے قبائلی طبقات کو تحفظات فراہم کرنے کا فیصلہ لیا۔عوامی رائےکچھ اور بھی ہے جو ہمارے آئین کو خاص بناتا ہے۔ دستور کو ترتیب دینے میں عوام سے رائے اور تجاویز بھی طلب کی گئیں جس میں کثیر تعداد میں نمائندگیاں موصول ہوئیں۔ جس کا تجزیہ کیا گیا اور اس پر کئی دنوں تک سماعتیں بھی ہوئیں۔
نفاذ کے بعد :
آئین کے نافذ ہونے کے بعد بھی سفر آسان نہیں تھا۔ اراضی اصلاحات اور ہندو کوڈ بل پر صدر جمہوریہ نے خود اعتراض کیا تھا۔ صدر راجندر پرساد نے پوچھا کہ انہیں وزارتی مشورے کا پابند کیوں ہونا چاہئے؟ آئینی ماہرین نے کہا کہ یہ لازمی ہے۔ کچھ معاملات میں، یہاں تک کہ عدالتوں میں بھی، کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ عدالتی فیصلوں سے بچنے کے لئے متعدد آئینی ترمیم کیے گئے۔ ملک میں ایمرجنسی کے دوران مختلف آئینی دفعات کو کم کرنے کے لئے 42 ویں ترمیم پیش کی گئی تھی۔عدالتی فیصلوں کا تحفظ
بھارت میں عدالت اور قانون کا تحفظ اور احترام کیا گیا اور کئی اہم موقعوں پر عدالتی فیصلے سازگار رہے۔
بھارت کا عظیم آئین ٹھیک 70 سال پہلے 26 نومبر 1949 کو منظور کیا گیا تھا۔ اس کامیاب سفر کے رہنما خود عام آدمی ہیں۔ بھارت میں کثیر الجماعتی سیاسی جمہوریت پھل پھولتی ہے اور انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ عام آدمی کا ووٹ ہی ہے جو جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ہمارے دستور نے تمام شہریوں کے لیے چھ بنیادی حقوق عطا کیے جو اس طرح ہیں:۔
۱۔ حق مساوات ، یعنی کسی بھی شہری کے ساتھ اس کے مذہب و عقیدہ، ذات پات، رنگ و نسل یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی۔
۲۔ حق برائے آزادی یعنی کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی شہری پر کسی طرح کی پابندی عائد کرے یا اس کو حاصل شدہ آزادی میں رخنہ ڈالے، انسانی اقدار کے ساتھ ایک باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا حق بھی اسی حق میں شامل ہے۔
۳۔ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو ہر طرح کے استحصال سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
۴۔ہمارے ملک کا دستور تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے یعنی کوئی بھی شہری اپنی خواہش اور سمجھ کی بنیاد پر کسی بھی مذہب پر عمل کرسکتا ہے، مذہبی آزادی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی مذہبی رسم و رواج پر عمل کرسکتا ہے نیز وہ کسی بھی مذہبی تعلیم یا عمل سے انکار بھی کرسکتا ہے۔
۵۔ہمارا ملک زمانہ قدیم سے متعدد و متفرق تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے جو یہاں پر اپنی مختص تہذیب کے ساتھ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں، چنانچہ ہمارے ملک کے دستور نے ان تمام ہی شہریوں کو یہ حق فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کے تحفظ کے لیے اپنے تعلیمی و ثقافتی ادارے نیز رسم و رواج کی پابندی کرنے کا حق رکھتے ہیں نیز حکومت ان کو خاص مراعات فراہم کرنے کی مکلف بنائی گئی ہے ۔
۶۔اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارا دستور تمام شہریوں کو قانونی چارہ جوئی کا حق بھی فراہم کرتا ہے، یعنی اگر کسی شہری کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کرسکتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ ہمارا دستور اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے شہریوں کے مذہبی جذبات و عقائد کو مجروح کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ہے۔
اس وقت ہم کروڑوں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دستور و آئین سے متعلق بالکل معلومات حاصل نہیں، ہمیں اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ بحیثیت شہری اور مسلمان ہونے کے ہمیں کیا کیا حقوق حاصل ہیں، ہمیں اس کی خبر ہی نہیں کہ آئین نے ہمیں کیا دیا ہے اور ہم دی گئی مراعات سے کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کیا اٹھا سکتے ہیں؟
اگر سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کیاجائے اور موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم آج کے دن آئین ہند کا بطور خاص مطالعہ کریں، اس حوالے سے ناخواندہ لوگوں میں شعور بیدار کریں، ملی تنظیمیں اس سلسلہ میں ورک شاپس کا انعقاد عمل میں لائیں، تب کہیں جا کر ہم مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور بلا خوف ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا بھر پور حق ادا کرسکتے ہیں۔
(رابطہ نمبر۔ : 8429816993)
[email protected]>