خیمے افسانہ

مشتاق مہدی

’’ ساتھیو۔۔۔تم ایسا کرو۔میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے یہ سارے خیمے جلا ڈالو ‘‘
’’ کیا۔۔۔تم یہ کیا کہہ رہے ہو ماہان ۔؟ ‘‘کئی آوازیں اُسکے کانوں سے ٹکرائیں۔
’’ وہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو تم سُن رہے ہو۔یہ سارے خیمے آج جلا ڈالو۔یہ میرا حکم ہے ‘‘
’’مم۔۔۔۔مگر ماہان ‘‘ دراز قد ساتھی نے سمجھانے کے انداز میں کہا ۔’’ذرا سوچو تو۔یہ خیمے ہماری پناہ گاہیں ہیں۔آرام گاہیں ہیں۔ہم انہیںجلا ڈالیں تو پھر کہاں جائیں گے۔‘‘
’’ جہنم میں۔۔۔! ‘‘
ماہان کے لہجے میں تیزی اور تلخی تھی۔آس پاس کھڑے ساتھی ایک پل کے لئےسہم سے گئے۔کوئی کچھ نہ بولا۔ماہان کچھ دیر تک اپنے خیالوں میں کھو یا رہا۔پھر اُس نے گھوم کر جِگرا کی طرف دیکھا۔
جِگر ا اُس کا دیرینہ ساتھی تھا۔اُسے ہمہ تن گوش پاکرماہان نے کہا۔
’’ یہی خیمے ہماری شکست کا اصل سبب ہیں ‘‘
’’ کیا۔۔۔۔۔۔۔شکست کا سبب؟‘‘
’’ ہاں۔ہماری ناکامی کی وجہ یہی خیمے ہیں۔‘‘
’ ’ وہ کیسے۔۔۔۔؟ ‘‘ جگرا کی آنکھوں میں ایک ساتھ کئی سوال لہرائے۔’’ میں سمجھا نہیں۔۔۔
ماہان تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔‘‘
ماہان نے گھور کر اُسے دیکھا۔بولا کچھ نہیں
جِگرا کی الجھن بڑھنے لگی۔آس پاس کھڑے جوانوں کی آنکھوںمیں حیرت کے کبوترپَھڑپھڑانے لگے۔پھر اُنکی نظریںبے اختیاراپنے اپنے خیموں کی طرف اٹھ گئیں۔
تھوڑے ہی فاصلے پرسفیدہ کے درختوں کی قطار میں اُنکے رنگ بہ رنگی خیمے چمکتی دھوپ میںبہت بھلے لگ رہے تھے اور خیموں کے باہر لگے چھوٹے چھوٹے سرخ سفیدجھنڈے ایک خاص لَے تال میں لہرارہے تھے۔پھر اُنکی نظریںواپس لوٹ آئیں۔
ماہان کو انہوں نے کسی فکر میں ڈوبا ہوا پایا۔دراصل ایک خیال اسکے ذہن میں چمک اٹھا تھا۔وہ سوچ رہا تھا۔میرے جوانوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ تو ہے ۔دور تک مار کرنے والے ہتھیار بھی ہیں مگر ان ہتھیاروں کوجو لہو حرکت دیتا ہے۔۔۔شعلہ بنا دیتا ہے۔اُس میں کسی ایک چیزکی کمی جھلکتی ہے۔
وہ کمی کیا ہے ۔۔۔۔۔
کیامر مٹنے کے جذبے کا فقدان
یا پھر دنیاوی خواہش کی دُھند۔۔۔
یا اپنی آسائش کا حد سے زیادہ دھیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آخر وہ کمی کیا ہے۔۔۔۔۔؟
لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ کسی نتیجہ پر نہ پونہچ سکا۔اُلجھ سا گیا۔بالآخر اُسکے منہ سے نکلا۔
’’ یاد کرو۔۔۔کل کے میدانِ جنگ کا منظر نامہ۔۔۔۔ہمارے انگنت ساتھی کٹے۔میدان جنگ میںبے گوروکفن رہ گئے۔ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔ہم کیا کر پائے۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔دہشت زدہ ہوکر بھاگ کر چلے آئے واپس انہی خیموں میں۔اِسی لئے کہتا ہوںدوستو۔۔جلا ڈالو آج یہ سارے خیمے۔۔۔۔۔‘‘
وہ سبھی کسی تذبذب میں گرفتار نظر آئے۔ماہان نے اُنکی بے چینی محسوس کی ۔ لمحہ بھر بعد اپنے قدم اٹھاکرکہا۔
’’آو چلو۔۔۔۔۔پہلے میں اپنا ہی خیمہ جلا دیتا ہوں ۔‘‘
���
مدینہ کالونی مَلہ باغ۔سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053