خواتین کے مذہبی حقوق اور دورِ حاضرکی صورت ِحال گردش ِ زمانہ

ڈاکٹرامتیازعبدالقادر،بارہمولہ

مسجد مسلم معاشرہ کاپہلاادارہ ہے۔وہ ایک طرف عبادت کی جگہ ہے، دوسر ی طرف علم کاگہوارہ بھی۔علاوہ ازیں مسجدہی معاشرتی وسیاسی سرگرمیوں کامرکزہے۔ ان تمام عوامل کی بنا پر عہدنبویؐ میںمسجدوں کے دروازے عورتوںکے لئے اپنی شرائط کے ساتھ کھلے ہوئے تھے۔مسجد نبویؐ مردوں اور عورتوں دونوںہی کے لئے عبادت و ثقافت اور معاشرت کا مرکز تھی۔اگر کوئی عورت قرآن سننا چاہتی یا مشاغل ِدرس وتدریس میں شریک ہونا چاہتی یاباہمی تعارف کی غرض سے یا خیر و تقوی ٰ کے کاموں میں تعاون کی غرض سے مسلمان خواتین سے ملنا چاہتی تو وہ یہ سارے خیر کے کام باپردہ ہوکر مسجد نبویؐ میں کرسکتی تھی۔آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو علم و نیکی سے معمور ماحول ملا تھا۔ان اسباب کی بنیاد پر تمام ازواج مطہراتؓ علم کے بلند مقام تک پہنچ گئیں ۔ان کی حیثیت معلمات کی تھیں۔اکابر صحابہ و تابعین ان سے حدیث ،تفسیر اور فقہ میں استفادہ کیا کرتے تھے۔اْس عہد میںخواتین صرف مسجد نبویؐ میں ہی نہیںآیاکرتی تھیں بلکہ مدینہ کے اطراف میںموجودمحلوں کی مسجدوںمیںاورمدینہ سے باہر کی مسجدوں میںبھی آیاکرتی تھیں، ذیل میںتاریخ کے اوراق کوپلٹ کر کچھ شواہد درج کیے جاتے ہیں:حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ لوگ قباء میںفجر کی نمازپڑھ رہے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے بتایا کہ آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پروحی آئی ہے اورآپؐکوخانہ کعبہ کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم لوگ بھی اپنارْخ کعبہ کی طرف کرلو، اس وقت نمازپڑھنے والوں کے چہرے شام کی طرف تھے، لہٰذا تمام لوگوں نے اپنا رْخ کعبہ کی طرف کرلیا‘‘۔(بخاری)حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں کہ ابن ابی حاتم ؓ نے ثویلہ بنت اسلمؓ کے حوالہ سے خانہ کعبہ کی طرف رُخ پھیرنے کی کیفیت کوبیان کیاہے، ثویلہؓ فرماتی ہیںکہ ’’عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اورمردعورتوںکی جگہ آگئے،پھرہم نے بقیہ دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرکے اداکیں۔ـ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدمیں آنے کے عورتوںکے حق کوتاکید کے ساتھ بیان کیا اوراس حق کوہرطرح کی زیادتی سے بچانے کی بھی کوشش کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’اگرتمہاری عورتیں رات میںمسجد جانے کی اجازت مانگیں توتم انہیںاجازت دے دو‘‘۔(بخاری ومسلم)ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓکی ایک بیوی فجراورعشاء کی نمازمسجد میںباجماعت اداکیاکرتی تھیں،ان سے کسی نے کہا کہ آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں جب کہ آپ کومعلوم ہے کہ حضرت عمرؓ اس کوناپسند فرماتے ہیں اوران کوغیرت بھی آتی ہیں؟ جواب میںانھوںنے کہا:وہ مجھے خودکیوں نہیںمنع کردیتے ؟ اس پر اس شخص نے ان سے کہا کہ دراصل وہ آپ کواس لئے نہیںمنع کرتے کیونکہ نبی کریم ؐنے فرمایاہے کہ ’اللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجدوںسے نہ روکو‘۔(بخاری)،صحیح مسلم میں الفاظ یوں ہے:’اگر کسی شخص سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے۔‘مشہور شافعی مئورخ و فقیہ امام نووی(المتوفیٰ ۶۷۶ھ) اس بارے میں لکھتے ہیں:’’لیکن یہ حکم درج ذیل امور کے ساتھ مشروط ہے جنہیں علماء نے احادیث نبویہ ؐ ہی سے اخذ کیا ہے۔عورت نے خوشبو نہ لگا رکھی ہو،سج بن کر نہ جائے،لباس فاخرہ پہن کر نہ جائے،اس طرح نہ جائے کہ مردوں کے ساتھ اختلاط ہو،راستہ محفوظ ہو۔‘‘(بحوالہ فقہ النّساء از عطیہ خمیس ،ص۵۱۲)
صحابہؓجیسامعاشرہ تاریخ انسانی میںایک لاثانی معاشرہ ہے۔صحابہؓ ایک دوسرے کی رائے سے معقول اختلاف بھی کرتے تھے لیکن دل ایک دوسرے کے لئے پاک وصاف خیال دل موجزن رکھ کر، برداشت کامادہ موجودتھا۔ شجرہ طیبہ نے ان کوجوڑ کے رکھاتھا۔رزم ہو یا بزم،پاک دل وپاک باز تھے۔ حضرت عمرؓ کے دورِخلافت کاہی واقعہ بہت مشہور ومعروف ہے کہ منبر پرکھڑے ہوکرانہوںنے مہرکی حدمقررکرناچاہی تواکابرصحابہؓ کی موجودگی میںامیرالمومنین کی رائے کے اختلاف میںجوآوازگونجی وہ ایک خاتون کی ہی تھی۔ عدم برداشت کی موجودہ تشویشناک صورت حال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔اس نے اُمت کومنتشر کرکے چھوڑا،غیر اقوام ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔جب سے عورتوں کے لئے مسجدوں کے دروازے بندہوئے ،شرک کے دروازوں پردستک شروع ہوئی۔اللہ کی بارگاہ پرجب ہم نے پہرے لگائے توصنف ِنازک نے رہزنوں کی بارگاہ کوترجیح دی۔توحید کے مرکزسے ان کودور کرکے ان کو اوروں کی بارگاہ میںسجدہ ریزہونے پرمجبورکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترجیحات کومدنظر رکھ کرخواتین کوگھروں میںنماز اداکرنے کی صرف ترغیب دلائی مگرہم میں سے ایک طبقہ نے اسے لایعنی مسلہ بنادیا۔نمازپنج گانہ کے علاوہ بیشتر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ صحابیاتؓ نمازجنازہ میں بھی شریک ہوتی تھیں۔عہدنبوی ؐکی معاشرت پرژرف بینی سے نگاہ دوڑائیں توخواتین مختلف محرکات کی وجہ سے مسجد جایاکرتی تھیں۔ ذیل کی سطور میںاس طرف اشارہ کیاجاتاہے:
(۱) نمازکی ادائیگی: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم مومن عورتیں فجرکی نمازمیںنبی کریم ؐکے ساتھ چادراوڑھ کرشریک ہواکرتی تھیں، پھرہم عورتیں نماز پڑھ کراپنے گھروں کوواپس ہوتی تھیںلیکن ہم سے کوئی بھی غلس (تاریکی)کی جہ سے پہچانی نہیںجاتی تھیں(بخاری ومسلم)۔حضرت عمر ہ بنت عبدالرحمٰن ؓ کہتی ہیں کہ ان کی بہن نے کہاکہ میںنے’ق والقرآن المجید‘ جمعہ کے دن نبی کریمؐ کی زبان مبارک سے یادکیا۔ آپؐ یہ سورہ ہر جمعہ کومنبر پر پڑھا کرتے تھے‘‘۔(مسلم)حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیںداخل ہوئے توآپؐ نے دیکھا کہ دوستونوں کے درمیان رسی بندی ہوئی ہے۔ آپؐنے پوچھا یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا حضرت زینبؓنے یہ رسی باندھ رکھی ہے۔ جب وہ نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیںتواس پر ٹیک لگالیتی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس رسی کوکھول دو۔ تمہیںاس وقت تک نماز پڑھنی چاہیے جب تک تمہارے اندر نشاط اورچستی باقی رہے۔ جب تم تھک جائوتوتمہیں بیٹھ جاناچاہیے۔(بخاری ومسلم)
حافظ ابن حجرؒکے بقول اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مسجدمیں عورتوں کانفل نمازپڑھنا جائزہے۔وہ لکھتے ہیںکہ سعید بن منصورؓ نے عروہ ؓکے حوالہ سے بیان کیاہے کہ حضرت عمرؓنے رمضان میںتراویح کی نماز کے لئے لوگوں کوحضرت ابی بن کعبؓ کے پیچھے جمع کیا، وہ مردوں کوتراویح کی نمازپڑھایاکرتے تھے اور تمیم الداری ؒ عورتوں کو تراویح کی نمازپڑھایاکرتے تھے۔ امام نوویؒنے ’المجموع‘میںلکھاہے کہ عرفجہ الثففیؒ کہتے ہیں ’حضرت علی ؓ لوگوں کورمضان میںتراویح پڑھنے کاحکم دیاکرتے تھے۔ آپؓ مردوں کے لئے امام مقررکرتے تھے اوراسی طرح عورتوں کے لئے ایک امام مقررکرتے تھے، میں(عرفجہؓ)عورتوں کاامام تھا‘۔(بیہقی)
(۲) خواتین کی تعلیم وتربیت: حضرت عبداللہ ؓ کی بیوی حضرت زینبؓ فرماتی ہیںکہ میںمسجد میںتھی، میںنے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،وہ فرما رہے تھے کہ’’ اے عورتو! صدقہ کرو اگرچہ تمہیںاپنا زیورہی کیوںنہ صدقہ کرناپڑے۔ـ‘‘(بخاری و مسلم)خیرالقرون میں صحابیات ؓکے اندر احکام دین معلوم کرنے کی ایسی تڑپ پیداہوگئی تھی کہ وہ شب وروز اس کے لئے بے چین رہتی تھیں اور اس تلاش وجستجو میں جو دشواریاں پیش آتیں،وہ ان کومایوس یابددل نہ کرتیں بلکہ ہر عقدہ ان کے سمند شوق کے لئے تازیانہ کاکام دیتا۔ انصار کی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:’’انصار کی عورتیں بھی بہت خوب تھیں، دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے سلسلہ میں حیااورشرم ان کے لئے رکاوٹ نہیں بنتی تھیں‘‘۔(مسلم۔کتاب الحیض)مسجد کی علمی وعبادتی مجالس میں خواتین بڑے ہی ذوق وشوق کے ساتھ خاصی تعدادمیںشریک ہوتی تھیں۔خولہ بنت قیسؓ حضورؐ کی بلندی آواز کاذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں،’’جمعہ کے دن رسول اللہؐ کاخطبہ اچھی طرح سنتی تھی حالانکہ میںعورتوں میںسب سے آخرمیںہوتی ‘‘۔(طبقات ابن سعد۔ج۸)
موجودہ تمدنی ومعاشرتی حالات پرغوروفکر کرنے والاہرانسان اس اعتراف پرمجبورہے کہ موجودہ بے راہ رو تہذیب نے عورت اورمرد کوایک ایسے مقام پر لاکھڑا کردیاہے جہاں سکون اورچین کے ہزارسامان کے باوجودوہ ان سے محروم ہیں۔مادہ اورروح کی تعلیم وتربیت کے لئے ضروری ہے کہ آج بھی مسجد کے دروازے خواتین کے لئے واکئے جائیں تاکہ موجودہ تمدنی ومعاشرتی بحران کاخاتمہ ہو۔بخاری میں مذکور ہے کہ مشہور تابعی عطاء ؒسے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ امام کو خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد عورتوںکے پاس آنا چاہیے وعظ و نصیحت کے لیے جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرتے تھے؟ عطاء ؒنے جواب دیا کہ’’ یہ ائمہ کے لیے ضروری ہے اور وہ ایسا کیوں نہ کریں؟‘‘
(۳) اجتماع عام کی دعوت پرمسجد میںحاضرہونا: حضرت فاطمہ بنت قیسؓفرماتی ہیںجب میری عدت کے دن ختم ہوگئے تو میںنے نبی کریمؐ کے منادی کو آواز لگاتے ہوئے سنا ’’لوگو!مسجدمیںجمع ہوجاؤ۔‘‘ایک روایت میںہے کہ’’ لوگوںمیںآوازلگادی گئی کہ مسجد میںجمع ہوجائیںتو لوگوںکے ساتھ میںبھی گئی، میں عورتوں کی سب سے اگلی صف میںتھی، جومردوں کی سب سے پچھلی صف کے بعد تھی۔‘‘(مسلم)
(۴) زخمیوں کی تیمارداری: ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ خندق کے دن حضرت سعد ؓ کے بازو کی رگ میں زخم آگیا، نبی کریمؐ نے مسجد میںان کے لئے خیمہ لگوادیا تاکہ آپؐ ان کی قریب سے عیادت کرسکیں(بخاری)۔ حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے ابن اسحاق ؓ یہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ خیمہ رفیدہ اسلمیہؓکاتھا۔ نبی کریم ؐنے حضرت سعد ؓ کومسجد نبوی کے قریب موجود رفیدہ کے خیمہ میںرکھوایا۔ رفیدہ ؓ زخمیوں کاعلاج کرتی تھیں۔
(۵) قضاء وفتویٰ کی مجلس میںشرکت:حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کااس شخص کے بارے میں کیاخیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کوپائے، کیا وہ اس مرد کوقتل کرسکتاہے؟ پھر(مردوعورت)دونوں نے مسجد میںلعان کیا۔ میںاس وقت وہیںپر موجود تھا۔(بخاری ومسلم)
(۶) مسجدمیںسونا:حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عرب کے ایک قبیلہ میںایک کالی باندی تھی۔ ان لوگوں نے اسے آزادکردیا۔ وہ نبی کریمؐ کے پاس آئی اور ایمان لائی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مسجد نبوی میں اس کاایک خیمہ تھا ۔ راوی فرماتی ہیں کہ وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اورمجھ سے باتیں کیاکرتی تھی۔(بخاری)
ظاہر ہے فی الوقت مسجدمیں صرف نماز اورتعلیم وتربیت ہی ممکن ہے۔باقی امورات کے لئے اب مختلف شعبے بنائے جاچکے ہیں۔ عہد نبویؐ اور دورصحابہ میںمساجد یک منزلہ ہوا کرتی تھی؛ ایک بڑے ہال کے مانند۔ صحابہ ؓ ،صحابیاتؓ اور بچے اْسی بڑے کمرے (مسجد) میںنماز کی ادائیگی،درس وتدریس اوراصلاح وتربیت کے لئے جمع ہوتے تھے۔ مرورِزمانہ کی وجہ سے تمدن میںترقی آتی گئی۔تعمیرات کے نت نئے طریقے دیکھنے کوملتے ہیں۔ موجودہ دورمیںنہایت ہی احتیاط سے عورتوںکے لئے مسجد میں الگ سے ایک حصہ مختص کیا جاسکتاہے اورپردے کامعقول انتظام بھی ممکن ہے۔اختلاط مردوزن کا توسوال ہی پیدا نہیںہوتا، بس فکر ونیت کی اصلاح کی ضرورت ہے ،ورنہ خرابی و فتنہ کے سدباب کے تمام ذرائع موجودہیں۔
مردوںکے ساتھ ساتھ عورتوں کوبھی فاسد غذاؤں اورفاسد افکارونظریات سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کو عقلی و روحانی غذا پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔فساد زدہ ماحول میںعورت کوتھوڑی دیرکے لئے پاکیزہ اورصاف ستھری فضا فراہم کرنابہت ناگزیر ہے۔ایسے حالات میںجب کہ ہرطرف ایسی لڑکیاںاورعورتیں موجودہیں جونیم عریاں رہتی ہیں،خودبھی مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیںاورمردوںکوبھی اپنی جانب رجھاتی ہیںاوران کواپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں،ایسے ناگفتہ بہ ماحول میںمومن عورتوں کوایسے مواقع فراہم کئے جائیںجہاںوہ نیک و صالح خواتین سے مل سکیں اوران سے اپنے مراسم بڑھاسکیں۔ واضح رہے عہدنبوی کی عورت ایک مکمل معاشرتی زندگی گزارتی تھی۔ گردش زمانہ سے مسلمانوں کی حالت بدلتی رہی ہے اوراس کی وجہ سے نظام مساجد میںبھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مسجد کی سیاسی، انتظامی اورعدالتی حیثیت کم ہوتی گئی لیکن اس کی مذہبی اورتعلیمی مرکزیت اب بھی برقرارہے۔ لوگ نماز پنچ گانہ، جمعہ اورعیدین کے لئے یہاں جمع ہوتے رہتے ہیں۔اسی طرح تعلیمی واصلاحی سلسلے کاآغاز بھی مسجد ہی سے ہوتارہاہے لیکن مسلمان مردوزن جب مسجد سے دورہوئے، ان پرلادینی افکارونظریات غالب آتے گئے۔ ابتدائی تعلیم کے نتیجے میںذہن پر جونقوش مرتب ہوتے ہیں وہ زندگی بھر سیرت کومتاثر کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میںمسجد کی تعلیمی حیثیت بالکل واضح تھی اوروہی طرزعمل ہرعہدکے مسلمانوںکے لئے مشعل راہ ہے۔
[email protected]