خواتین کے بگاڑمیں مرد وں کا ہاتھ ! لمحۂ فکریہ

 حمیرا فاروق

لفظ عورت پڑھنے سے ہی دل میں ایک الگ سا احساس ،حیا اور نرمی آجاتی ہیں ۔ کیونکہ عورت کو قدرت نے صنف نازک بنایا اور وہ سب خوبیاں بدرجہ اُتم رکھیں جو کہ ایک مرد میں نہیں ۔ عورت میں رحم و شفقت ،پیار و محبت بمقابلہ مرد کے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا شاید کوئی انسان دنیا میں زندہ نہیں ہوتا ۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہےتو وہ محتاج ہوتا ہے خود اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتا، اسکو محبت کی ضرورت ہوتی ہیں ۔اسوقت ایک عورت بحیثیت ماں کے روپ میں ایک سائہ دار شجر کی طرح رہ کر اسکی تمام تر ضروریات پوری کرتی ہیں ۔ وہ راتوں کو جاگ کر اپنی نیندیں ،شبابی اور خون جگر ایک کرکے اپنے بچے کو پالتی ہے ۔ عورت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت جو انسانیت کی بقاء کے لیے مبعوث کی گئی جب آدمؑ کو مبعوث فرمایا گیا تو اسکی سکون کے لیے حواؑ کو ضروری سمجھا، تاکہ وہ اسکے سکھ دکھ میں شریک حیات رہیں ۔ پھر عورت کو وہ مقام ملا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باپ کو جنت کی خوشخبری دی، جس کے گھر میں بیٹی پیدا ہوجائے اور وہ پھر اسکی اچھی تعلیم و تربیت کریں ، اورعورت کا پیدا ہونا اس گھر کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا۔ بے شک بغیر عورت کے نسل انسانیت کا وجود مفقود ہیں ۔
ایک عورت ہی ہے، جسکے قدموں تلے اللہ تعالیٰ نے جنت رکھی ہے ۔ اگر مرد واقعی عورت ذات کا قدر شناس ہوگا تو اسکو جنت نصیب ہوگی ۔ چاہے پھر باپ کو انکی بیٹیوں کی وجہ سے ملے یا اولاد کو اسکی ماں کی وجہ سے ۔ اس لئے ہر مرد کو چاہیے کہ اسکے گھر میں جو بھی عورت ہو ، بہن ، بیٹی ، ماں، بیوی کی صورت میں تو انکو اچھی تعلیم تربیت سے آراستہ کریں، نہ کہ زمانہ جہالیت کی طرح انہیںپس پشت رکھ کراُن کے وہ تمام تر حقوق سلب کریں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیئے ہیں ۔ اگر عورت کو ایسے ہی چھوڑ کر مرد خود کو بری الذمہ سمجھے تو جہالت نسل در نسل چلےگی اور عورت جو ہمارے مستقبل کی عکاس ہے وہ باکردار ، صالح اور ترقی یافتہ نسل کے بجائے ایک ایسی قوم کو جنم دے گی جو کہ نسل انسانیت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی ۔لہٰذا اس بات کی طرف متوجہ ہونا مرد کے لیے ضروری ہے ۔ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اپنی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ مرد کو اسکے اہل و عیال کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ کوئی مرد خود کو مبرا نہیں کرسکتا ، بلکہ قیامت والے دن جب ایک نیک اور تہجد گزار آدمی کو حساب و کتاب سے فارغ کیا جائے گا اور اسکو جنت میں جانے کا حکم ملے گا تو پیچھے سے ایک عورت( اسکی بیوی) کی آواز آئے گی، کہ یا اللہ یہ کیسے جنت میں جاسکتا ؟ کیونکہ یہ تو خود نیک کام کرتا تھا، تہجد ،صدقہ خیرات کرتا تھا لیکن مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ تم بھی یہ کام کرو۔تب یہ چیز اسکو جنت میں جانے کا مانع ٹھہرے گی ۔
عورت دراصل ایک مرد اور اسکی نسل کی پہچان ہوتی ہے اور عورت کو بنانےاور بگاڈنے میں مرد کا ایک اہم رول ہوتا ہے ۔ وہ جس طرف ایک عورت کو لینا چا ہے، وہ ویسی ہی بن جاتی ہے ۔ عورت مرد کے سامنے چاہے کسی بھی روپ میں ہو، اگر اسکو اپنانے کے بجاے دھتکارا جائے تو وہ نہ صرف خود بگڑ جاتی ہے بلکہ ایک نسل اس کی شکار ہوجاتی ہے ۔ اس سب تباہی کا ذمہ دار برے حد تک سماج کا مرد ہی ہے جو اسکو اسکے حقوق سے ناآشنا رکھ کر اُسکے بے حیائی کی کاموں پہ روک ٹوک کے بجائے اس کی حوصلہ افضائی کرتا رہتا ہے، یا اگر اسکو کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کی اصلاح کرنے کے بجائے چھوڑ دیتا ہے۔دراصل اسکی اپنی غیرت مر چکی ہوتی ہے جو عورت کو بے باک بنا دیتی ہے ۔
جب مرد نیک ذات ہو، وہ عورت کو اپنی ضرورتوں کی حد تک ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ وہ اسکے حقوق بھی اُسے دیتا ہو تو عورت کبھی بہک نہیں سکتی ۔ ایک بے غیرت اور بدذات مرد کی وجہ سے عورت اپنی نسوانیت کھو کر طوائف بن جاتی ہے ، اور پھر وہی بے غیرت مرد اسپر اُنگلی اٹھاتا ہے کہ عورتوں نے معاشرہ بگاڈ دیا۔ اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا آخر ایسا کیوں ہوا؟جبکہ کوتاہیاں تو مردوں سے بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کو تو اللہ تعالیٰ نے قوام بنا دیا، جب مرد میں غیرت نہ رہی تو عورت نے بھی وفادار بننا بھی چھوڑ دیا اور غلط کاریاں عام ہونے لگیں۔ اگر مرد عورت کو دھتکارنے کے بجاے اپناتا تو ایک وفادار معاشرہ ،باحیا نسل وجود میں آتی ۔ ورنہ اگر ویسے ہی زمانہ جاہلیت کی طرح عورتوں کو ضرورت کی حد تک استعمال کیا جاتا رہے تو آئندہ نسل کا فیصلہ آپ خود کریں ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہیں کہ اگر ایک عورت غلط کام کررہی ہوگی تو اسکی وجہ سے چار مرد جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے، اس کا باپ ،بھائی،شوہر اور بیٹا ۔
اسلام میں مساوات ہے ۔ اگر عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا تو وہاں مرد کو غض بصر کا، اور جب عورت خود کو نہ چھپائے اور مرد کی آنکھیں خراب ہوجائے تو عورت کی عصمت کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ باوقار مرد کبھی اپنی عورت کو بغیر پردے کے گھر سے نکلنے نہیں دے گا ۔ یہ صرف ہوس پرست مردوں کا کام ہے ۔
اگر کوئی انسان دنیا کی تمام تر ڈگریاں حاصل کریں ، خود کو دنیا میں کامیاب یا عورت کا استحصال کرکے خود کو ذہین ترین شخص سمجھیں تو تب بھی وہ تعلیم یافتہ مرد نہیں کہلائے گا یا عورت ایسا کرےگی، وہ بھی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ جاہل تصور کی جائے گی ۔کیونکہ تعلیم جو ایک انسان سے تقاضہ کرتی ہے، جب وہ اسے محروم رہیں تو وہ ضائع ہے ۔ تعلیم یافتہ اور ذہین مرد اسکو کہا جاسکتا ہے جو غلظ اور ٹھیک ،حق اور ناحق میں تمیز کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو ۔ ورنہ اگر انسانیت اور خاص کر عورت کی نسوانیت کو نہ سمجھتا ہو تو حیوان سے بدتر تسلیم کیا جائے گا ۔ لہٰذا اس بات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ ایک عورت جو کہ ہمارا مستقبل اور ہمارے نسلوں کی نشانی ہیں اسکو نہ دھتکارا جائے اور نہ ہی اسکو کمتر سمجھ کر محض اپنی جنسی ضرورتوں تک محدود رکھا جائے بلکہ اسکو وہ سارے حقوق ملنے چاہئے جو اسکو ربّ العزت نے دیئے ہیں ۔ اگر اس کی ضروریات اُس کا اپنا مردپورا نہ کریں تو وہ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئےغلط اور ناجائز کاموں میں ملوث ہوکر معاشرے کو بگاڈ دیتی ہے۔اور نہ صرف بازار کی زینت بن جاتی ہے بلکہ بازاروں عورت بھی بن جاتی ہے۔
یہ حکم قرآن میں صرف انسانوں کے لیے ہےکہ وہ ایک دوسرے کو امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دیں، نہ کہ حیوان کو یہ حکم ملا ، حیوانات کو شرم وحیا سے عاری رکھا گیا ہے،وہ کہیں بھی اپنی خواہشات کی تکمیل بجا لاتے ہیں ۔ بخوبی خود غورو خوض کریں کہ اگر ہم انسانوں نے جانوروں جیسے اعمال کیے تو ہم اُن سے ابتر ہیں ۔ ایک عورت کو کھلونا سمجھ کر جہاں اور جیسے چاہے پیش آئیں، جسطرح چاہیں استعمال کریں تو اس سب کا ذمہ دار معاشرےکا مرد ہے، جو اب تک خواب غفلت میں محو ہوکر خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔ ہر مر اپنی خواتین کی اصلاح خودکرنے کو لازم جانیں ،ورنہ اللہ ربّ العزت کی پکڑ کے سامنے اُس کی کوئی اَکڑ نہیں چلے گی ۔
[email protected]