خواتین کی سمگلنگ …مسئلہ سے لاتعلقی حل نہیں!

قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے گزشتہ دنوںسرینگر میںانسانی سمگلنگ کے خلاف آگاہی کے اپنی نوعیت کے پہلے قومی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا پریشان کُن انکشاف کیا کہ جموں وکشمیر میں خواتین کی سمگلنگ کے معاملات میں گزشتہ سال تقریباً 16فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اچھی ملازمتوں اور شادیوں کے نام پر خواتین کی سمگلنگ ہوتی ہے اور شادی کے نام پر انکا جنسی استحصال کیاجاتا ہے ۔انہوںنے برملا طور کہا کہ یہاں مغربی بنگال سے خواتین نوکریوں اور کام کیلئے آتی ہیں یا لائی جاتی ہیں لیکن پھرزبردستی ان کی شادی کسی ایسے شخص سے کی جاتی ہے جو اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے ۔گوکہ اسی سمینار کی صدات کرتے ہوئے جموں وکشمیر یوٹی کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے انسانی سمگلنگ کوجرائم کی سب سے گھنائونی شکل قراردیکرکہا کہ حکومت نے خواتین کے خلاف جرائم کیلئے زیرو ٹالرنس یا صفر رواداری کی پالیسی اپنائی ہے اور تمام پولیس تھانوں میں خواتین کیلئے ہیلپ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں تاہم ریکھا شرما کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار کچھ اچھی منظر کشی نہیں کررہے ہیں۔ خواتین کی سمگلنگ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر میں مغربی بنگال ،بہار اور دیگر ایسی ریاستوں سے شادی کے نام پر خواتین کی سودابازی عام ہوچکی ہے ۔

 

 

یہاں باضابطہ دلالوں کا ایک منظم نیٹ ورک کام کررہا ہے جو ایسی ریاستوں سے والدین کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کو خرید کر لاتا ہے اور پھر شادی کے نام پر انہیں یہاں بیچ دیاجاتا ہے اور پھر ایسی خواتین کے خلاف ظلم و زیادتی کی جو المناک داستانیں رقم کی جاتی ہیں ،انہیں محسوس کرنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جموںوکشمیر ،خاص کر کشمیر کا شاید ہی کوئی ایسا گائوں یا قصبہ ہوگا جہاں ایسی خواتین موجود نہ ہوں جن کی گھریلو تنگدستی کا ناجائز فائدہ اٹھاکر انہیں ایک ایسی منڈی میں ایک مقدس رشتے کے نام پر نیلام کیاگیا ہے جس کو ہم نکاح کہتے ہیں۔ ہم شاید ابھی تک نکاح معاہدہ کو اس کی اصل روح میں سمجھ نہیں پائے ہیں۔یہ کوئی سودا بازی نہیں بلکہ ایک مقدس بندھن ہے جہاں پیسوں کے لین دین کا سوال پیدا نہیںہوتا ہے تاہم ،ہم جس طرح مغربی بنگال و دیگر ایسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی غریب لڑکیوں کی سودابازی کو شادی کا نام نہیں دے رہے ہیں ،اس کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں ہم ان لڑکیوں کی غربت اور پسماندگی کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہوتے ہیں ۔اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ ایسے بے شمار رشتے کامیابی سے ہمکنار ہوچکے ہیں اور میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں کوئی بگاڑ یا فساد نہیں ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم غلط کو غلط نہ کہیں۔اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ایسی خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے گنت معاملات ریکارڈ پر ہیں ۔ یہ بھی ایک طرح کی سمگلنگ ہی قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ یہاں باضابطہ پیسوں کا لین دین ہوتا ہے ۔اسی طرح یہاں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد یا عمومی تشدد کے معاملات بھی تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اور مسلسل میڈیا کے ذریعے رپورٹ بھی ہورہے ہیں۔اس کے باوجود بھی اگر ہم آنکھیں بند کرکے کہیں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو بات بننے والی نہیں ہے کیونکہ حقائق سے چشم پوشی کرکے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتاہے بلکہ اس کے لئے باضابطہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اتنی آگہی آنے کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں کیوں اضافہ ہوا ہے جبکہ کشمیر میں جب تعلیم نا کے برابر تھی تو خواتین کی عزت و تکریم کو ایمان کا جزو سمجھا جاتا تھا ۔ آخر شر ح خواندگی میں اتنا اضافہ ہونے کے باوجود خواتین کیساتھ سلوک میں گھڑی کی سوئیاں جیسے پیچھے کی طرف ہی مڑ چکی ہیں ۔آج کے جدید دور میں تعلیم کو سب امراض کی دوا قرار دیاجارہا ہے تو ایسا کیا ہوا کہ تعلیم کے باوجود مرد جیسے وحسی بن گیا ہے حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا کیونکہ حقیقی تعلیم آدمی کو حقیقی معنوں میں انسان بنا تی ہے ۔تو کیا ہمارے تعلیمی نظا م میں ہی نقص ہے ؟۔یقینی طور اس کا جواب ہاں میں ملتا ہے کیونکہ ہم نے تعلیم کے نام پر انسان کو مشین بنادیا ہے اور اس کے جذبات کچل دئے ہیں جبکہ اخلاقی قدریں پروان چڑھانے کاکوئی بندوبست نہیں ہے ۔جب اخلاقی تعلیم کا فقدان ہو اور آدمی کو انسان بنانے کا کوئی بندو بست ہی نہ ہو تو پھر انسانی سماج میں ایسے آدمیوںکے ذریعے بگاڑ اور فساد یقینی بن جاتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم مختلف جرائم کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جس میں خواتین کے خلاف جرائم بھی شامل ہیں۔بھلے ہی لیفٹیننٹ گورنر کہیں کہ جموںوکشمیر میں انسانی سمگلنگ کے سب سے کم واقعات رپورٹ ہوتے ہیں تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہاں ہم سب دودھ کے دھلے ہیں ۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ یہاں حوا کی بیٹی عتاب کا شکار ہے بھلے ہی غیرت کے نام پر بیشتر واقعات رپورٹ نہ ہورہے ہوں۔جب ہم مان لیں گے کہ یہاں بھی رجحان حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش نہیںہے ،جبھی ہم اس رجحان کی نفی کرنے کے جتن کریں گے ۔ماضی قریب سے جرائم سے نامانوس جموںوکشمیر میں اگر جرائم اس حد تک بڑھ چکے ہیں تو کوئی تو وجہ ضرورہوگی ۔ہمیں ان وجوہات کا پتہ لگانا ہے اور جب وجوہات معلوم ہونگے تو تدارک کرنا آسان ہوگا ۔اس لئے بہتر رہے گا کہ علامات پر کام کرنے کی بجائے ہم اصل بیماری کی جڑ تک پہنچیں اور بیماری کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے اقدامات کریں کیونکہ اُس وقت تک ایک کامل انسانی معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیںہوپائے گی ۔