خواتین کیلئے لیڈی ڈاکٹرمیسر نہیں لمحۂ فکریہ

شازیہ اختر شاہ۔منڈی، پونچھ

تندرست صحت بہت بڑی نعمت ہے یہ ایسی دولت ہے جو روپے پیسے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ تندرستی نہ ہو تو انسان کی ساری دولت بے کار جاتی ہے۔ اس کے بغیر انسان نہ دولت کما سکتا ہے اورنہ بڑے کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔یہ صیح ہے کہ اگر تندرستی نہ ہو تو دنیا کا کوء لطف نہیں۔ اگر انسان کے پاس لاکھ دولت ہومگر تندرستی نہ ہو تو سب کچھ بے کار ہے۔اگر بات کی جائے جموں و کشمیر کی جسے ہندوستان کا تاج کہا جاتا ہے۔لیکن یہاں کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے آج پھی محکمہ صحت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔جموں وکشمیر کا سرحدی وآخری ضلع پونچھ ہے۔ جہاں صحت کے نظام ہی نرالاہے۔ کہیں عمارتیں ہیں توڈاکٹر نہیں، کہیں ڈاکٹر ہیں تو عمارت نہیں۔جس کی جیتی جاگتی مثال ضلع پونچھ سے 30 کلو میڑ دور پنچایت چکھڑی بن ہے۔جو آج بھی محکمہ صحت کی جانب سے منتظر ہے۔ چکھڑی کی بات تو قرین قیاس ہوگا۔ تحصیل ہیٍڈ کوٹر پر غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال منڈی گزشتہ کئی سالوں سے بہترین عمارت اوربہترین سہولیات ہونے کے باوجود لیڈی ڈاکٹر سے خالی ہے۔ جس سے خواتین کو اپنا علاج کرانے میں پریشانی ہو رہی ہے۔اس سلسلے پر بات کرتے ہوئے پروین اختر عمر 33 سال، ان کا کہناہے کہ منڈی ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونیکی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی خواتین کو دیکھنے کو ملتی ہے۔جس کی وجہ سے جہاں اسے علاج کے لئے ایک دن کا وقت لگنا چاہئے وہیں اسے چکھڑی جیسے علاوقوں سے پلیرہ پھر منڈی اور منڈی سے پونچھ کے اسپتال جانا پرتا ہے۔جس میں پورا ایک دن گزرجاتاہے۔ سب ضلع ہسپتال منڈی تک بھی سڑکوں کی خستہ حالت ہونے کی وجہ سے یہا ایمبولنس بھی نہیں جاسکتی ہے۔ایسے میں حاملہ خاتون کو کندھے پر اٹھا کر یہاں سے 4 کلو میڑ دور پپلرہ پہنچایا جاتا ہے ،وہاں سے ایمبولنس کے ذریعہ سب ضلع یسپتال منڈی لایا جاتا ہے۔لیکن لیڈی ڈاکڑ کی پوسٹ ہونے کے باوجود بھی وہاں پر لیڈی ڈاکڑ موجود نہیں ہے تو حاملہ خاتون کو یہاں سے پونچھ ریفیر کیا جاتا ہے۔ گھر سے لے کر پونچھ تک کے تقریبا 5 گھنٹے سفر کر کے جانا پڑتا ہے۔ اتنا سفر کرنے تک کئی بار بہت دیر ہوجاتی ہے اور راستے میں ہی خاتون دم توڑ جاتی ہے۔ سب ضلع اسپتال منڈی میں ایک لیڈی ڈاکڑ نہ ہونے کی وجہ سے ایک نہیں بلکہ متعدد جانیں چلی جاتی ہیں۔

 

 

اس معاملے کو لے کر پنچائیت چکھڑی بن کی سرپنچ تعظیم اختر کا کہناہے کہ صحت کا تندرست ہونا ضروری ہے۔ اگر بات کی جائے ہمارے پنچایت کی تویہ پنچائیت 9 وارڈوں پر مشتمل ہے جو دور دراز اور پہاڑی علاقہ میں آبادہے۔ ہمارے یہاں کوئی بھی فرد کسی بھی وجہ سے زحمی ہو تو اسے منڈی لے جانے تک اس کا خون راستے میں ہی بہہ جاتا اور وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی حاملہ خاتون ہو تو وہ بھی وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ا س طرح سے ہمارے یہاں لوگوں کی قیمتی سے قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں۔محمد طارق عمر کا کہنا ہے کے دیکھنے کیلئے ہمارے پاس تو سب ضلع اسپتال منڈی کی بہت ہی خوبصورت عمارت ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ اندر سے خالی ہے کیونکہ یہاں نہ توکوئی لیڈی ڈاکٹر ہے اور نہ کوئی فزیشن ۔جبکہ پورا سٹاف میسر نہیں ہے۔ ایسی عمارت کا کیا کرنا جس کے اندر کوئی نہ ہو؟ اگر کوئی حاملہ خاتون کسی بھی علاقے کی ہو جیسے لورن پلیرہ چکھڑی اڑاء بائلہ کی ہو وہ وقت پر منڈی تو پہنچ سکتی لیکن پونچھ پہنچنے تک اس کا کام تمام ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے ایک نہیں بلکہ دو جانیں چلی جاتی ہیں۔ اگر ہمارے یہاں منڈی میں پورا سٹاف ہو تاتو انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

 

 

 

محمد اقبال کا کہنا ہے کے ضلع اسپتال منڈی میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی خواتین کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ جب ہم کسی حاملہ خاتون کو یہاں لاتے ہیں اور یہاںاسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ پونچھ ریفر کرتے ہیں۔کئی بار اس خاتون کو ایمرجنسی علاج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن لیڈی ڈاکٹر نہیں ہونے کی وجہ سے اسٹاف دیکھتے نہیں ہیں اور پونچھ ریفر کر دیتے ہیں۔گھر والے کسی طرح گاڑی کا انتظام کرتے ہیں لیکن حالت خراب ہونے کی وجہ سےحاملہ خاتون وہاں پہنچنے تک دم توڑ د یتی ہے۔ اس حوالے سے بلاک میڈیکل افیسر منڈی نصرت النساء بھٹی نے بات کرتے ہوے کہاکہ’’یہاں پرگائنوکالجسٹ (لیڈی ڈاکٹر) کی آسامی 2019سے خالی ہے، جبکہ کچھ عرصہ تک ساوجیاں میں تعینات لیڈی ڈاکٹر کو یہاں منڈی سب ضلع ہسپتال میں تعینات کیا گیا تھا۔پھر انہیں اصل پوسٹنگ پرواپس بھیج دیاگیا۔ جس کے بعد سے یہاں منڈی سب ضلع ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔قریب 35600کی آبادی صرف منڈی کی ہے، جبکہ ہیڈ زون منڈی کے تحت ایک لاکھ کے قریب آبادی ہے۔ جو ساوجیاں لورن سے لیکر سلوتری تک ہے۔یہاں منڈی مین لیڈی ڈاکٹر کی پوسٹ ہے۔ 2019میں ایک لیڈی ڈاکٹر استعفیٰ دیکر چلی گئی تھی۔اس کے بعد یہاں کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ہماراعملہ اور نرسیں عارضی طور پر دیکھ ریکھ کرلیتی ہیں۔ بغیر ڈاکٹر کے خواتین کا علاج ومعالج ناممکن ہے۔ ہم نے اپنے اعلی آفیسران تک اس معاملہ کو پہونچادیاہے۔ڈائیریکٹر صاحب کے نوٹس میں بھی لایا گیاہے، تاہم یہ ڈاکٹر کب تعینات ہونگے کچھ کہانہیں جاسکتاہہے۔‘‘
بہرحال، ہمارے ملک کے اس دوردراز کونے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی میں قایم ہسپتال کی خوبصورت عمارت تو موجود ہے لیکن آبادی کے نصف حصہ خواتین کے لئے ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات نہیں ہے۔ کیا جموں وکشمیر بھر میں اس ہسپتال میں تعینات کرنے کے لئے ایک خاتون ڈاکٹر نہیں؟ مزید کتنے سال اور لیڈی ڈاکٹر کا انتظار کرناپڑیگا؟ کیا یہاں کے قایدین کو یہ ہسپتال اور ہسپتال میں درپیش خاتون ڈاکٹر کی کمی نظر نہیں آتی؟ (چرخہ فیچرس)