خرافات

ہارون قاضی کی شریک حیات عارفہ جان کو آج فوت ہوئے پورے پندرہ سال مکمل ہوگئے۔ اپریل کے مہینے میں جب موسم بڑا ہی سہانا تھا،باغوںمیں پھول کھلے ہوئے تھے اور بہار کا موسم پورے شباب پر تھاتو ہارون قاضی کی زندگی کے باغ میں خزاں کی آمد ہوئی۔ اور یہ آمد بھی ایسی تھی کہ کبھی اس میں پھرسے بہارکا آنا ممکن نہ ہو سکا۔
عارفہ جان کی حادثے میں ہوئی اچانک موت نے ہارون قاضی کواس طرح توڑ کر رکھا تھا جیسے خزاں کا موسم چنارکے پتوں کو بے دردی سے زرد کر کے توڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی شریک حیات سے بے پناہ محبت کرتاتھا۔
 موت واقعی دردناک ہوتی ہے۔ ہارون قاضی کےہاں یہ درد اور تکلیف اُسکےجسمانی، ذہنی اور جذباتی رُوسے ظاہر ہو رہا تھا۔ کئی بار تواس کا ذہنی توازن بھی بگڑ گیا۔ ایک سال تک وہ اس حادثے سے نہیں اُبھر پایا۔ وہ اپنے کمرے میں بند اپنےبچوں کے ساتھ دن رات بیٹھے رہتا۔ نہ تو خود باہر نکلتااور نہ ہی اپنی اولاد کو باہر نکلنے دیتا۔ آخر اس کی عمر تھی ہی۔ کتنی، پینتیس سال۔ اس جوانی میں جس بھی انسان کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے اس کے ہوش و حواس کھو بیٹھناتو لازمی تھا۔
اس کے گھر کے پاس ہی رہنے والےاس کے بھائی اشفاق قاضی اور ان کی والدہ حسینہ بیگم نے اس مشکل وقت میںاُس کوسنبھالا، سہارا دیا اور اس کے بچوں کی پرورش کی۔ ایک سال کی انتھک محنت اور علاج کی بدولت حسینہ بیگم اور اشفاق قاضی ہارون قاضی کو کچھ حد تک ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوئے۔
عارفہ جان کی موت کے وقت اُسکی بڑی اولاد عمران کی عمر دس سال اور چھوٹی اولاد عشرت کی عمر آٹھ سال کی تھی۔ اُس کی دنیااب اس کی اولاد میں ہی بستی ، جن سےاسکی زندگی کی ابتدااور اختتام دونوں ہی ہوتاتھا۔ اپنے بچوں کی خوشی اور ان کی ضروریات پوری کرنا ہارون قاضی کا واحد شوق  اور مشغلہ تھا۔
وہ اتنا جوان اور خوبصورت تھا کہ کئی ساری کنواری لڑکیاں اُس پر فدا تھیں۔ اُس کی جوانی اور خوبصورتی دیکھ کر ہر کوئی اس کو صرف ایک ہی مشورہ دیتا کہ وہ دوبارہ نکاح کرے۔ آخر وہ اتنی لمبی عمر کیسے اکیلےگزاریں  گے اور بچوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گے لیکن ہر بار اس کا ایک ہی جواب ہوتا۔ "میری دنیا تو میرے بچے ہیں جو مجھے عارفہ سے ملے ہیں ۔ نہ تو میں کبھی تنہائی محسوس کرتا ہوںاور نہ ہی بیگم کی ضرورت۔"
اس سے اُلفت رکھنے والے اُسکے رشتہ داروں اور یاروں نے بھی کئی ساری لڑکیاں دیکھیں لیکن وہ اسکو راضی نہ کر پائے ۔ آخر کارسب نے ہتھیار ڈال دیئے اور لڑکیاں دیکھنا اور ہارون قاضی کو سمجھانا چھوڑ دیا۔
اسکا پورا دن دفتر، اپنے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال میں گزرجاتا۔ان مصروفیات میں وہ اتنامشغول رہتا کہ اُسے اپنے بارے میں کبھی سوچنے کی فرصت بھی نہ ملتی۔
اب تو حسینہ  بیگم بھی فوت ہو چکی تھی۔گھر بھی اس طرح سنبھالتاجیسے اس میں عارفہ جان کی روح آکر بسی ہو، جو اس سے اتنی نزاکت اور بغیرنقص کے ہر کوئی کام کرواتی۔ انہی ساری مصروفیات میں پندرہ سال گزرنے کا اُسکو احساس بھی نہ ہوا۔ عمران کی عمراب پچیس سال اور عشرت تیئس کی تھی۔ اپنے بچوں کی پرورش اُسنے بڑی ہی نزاکت اور لاڈ سےکی تھی۔ اب تو عمران ایک انجینئرتھا اور عشرت یونیورسٹی میں زیر تعلیم۔
ہارون قاضی جو کہ اب پچاس سال کاتھا اپنے بچوں کا والد کم اور بڑابھائی زیادہ دکھتا۔بھائی اشفاق قاضی کے ساتھ اُسکا بڑاہی گہرا اورشفقت بھرارشتہ قائم تھا۔ انھوںنے ہی عمران اور عشرت کی شادی کی بات ہارون قاضی سے کی تھی۔ دونوں بچوں کا نکاح ایک ہی وقت کیاگیا۔
ہفتوںتک مہمانوں کا آنا جانا لگا رہا۔ ایک مہینے کے اندر شادی کی ساری رسومات ختم کی گئیں۔ عشرت اپنے شوہر کے ساتھ اپنا گھر بسانے میں لگ گئی اور عمران اپنی زندگی میں مشغول ہوگیا۔
اب تو گھر سنبھالنے کی ذمہ داری بھی نئی بہوشازیہ پر آگئی۔ جب ہارون قاضی دفتر سے گھر لوٹتا تو اس کی چائےبھی تیار ہوتی اور شام کو کھانے کے لئے پکوان اور چاول بھی۔ جب وہ صبح نماز پڑھ کر مسجد سے لوٹتا،گرما گرم چائے اور روٹی بھی اس کے سامنے رکھ دی جاتی۔کھانے پینے اور بعض دفعہ بازار سے کچھ سامان خریدنے کے بغیر اب اسکے پاس کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ کمرے کی دیواریں اب اُ سےقید خانے اور اکیلے پن کا احساس دلاتیں۔ جو اکیلا پن ہارون قاضی نے کبھی بھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اب ایک گھٹن سی ہونے لگی تھی۔ اُسے نہ تو اسکے کرنے کیلئے کوئی کام رہ گیا تھا اور نہ ہی دل کھول کر بات کرنے کے لیے کوئی۔
ہارون قاضی جو پہلے دفتر سے تین بجے ہی نکلنے کے فراق میں لگارہتاتھا۔ اب سب لوگوں کے چلے جانے کے بعد بھی بڑی بے دلی سے نکلتا۔ جب بھی کوئی اُس سے اس روئےکی وجہ پوچھتا توایک درد بھری مسکراہٹ بھر کر کہتا "ارے یار! گھر جا کر کیا کروں گا ۔ کوئی کام تو کرنے کو ہوگا نہیں۔ بہواکیلے ہوگی۔ یا تو وہ آرام کر رہی ہوگی یا محلے کی سہیلیوں کے ساتھ گپ شپ ۔میں وہاں جا کرکیوں کر اسکےآرام یاگپ شپ میں خلل ڈالوں۔"
اُسکے سارے خیر خواہ اب پھر سےاُ سے وہی نصیحت دینے لگے کہ وہ نکاح کرے۔ آخر وہ ابھی بھی تندرست، جوان اور خوبصورت جو تھا۔ کئی ماہ تک اس نے یہ نصیحتیںنظرانداز کیں۔ پراب وہ خود بھی ایک ساتھی کی کمی محسوس کرنے لگا تھا۔ ایک ایسےساتھی کی کمی جو اس کی تنہائی کو دور کرتا۔جو اسےپیار کرتا۔ وہ جس سےپیار کرتا اور اپنی زندگی کے خوبصورت لمحے گزارتا۔
اس نے بھی اب من بنایا کہ وہ نکاح کرے گا۔ عارفہ کی موت کےسولہ سال بعد اب اس کا نکاح کرنا ایک مجبوری اور ضرورت بن چکی تھی۔ سب سے پہلے اس نے اس بات کا ذکر اپنے بھائی سےکیا۔ اس سے نظریںچراتے ہوئے اس نے کہا "بھائی جان! آپ کو تو پتا ہے کہ میں بچوں کی شادی کے بعد کتنا تنہا ہو گیا ہوں ۔ ہر وقت اکیلےپڑارہتا ہوں۔ جب بہوگھر میں اکیلےہوتی ہے تو میں گھر میں قدم رکھنے سے ڈرتا ہوں۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں تاکہ میری زندگی کو ایک معنی اور مقصد ملے۔ کیا آپ کی نظر میں کوئی عورت ہے؟"
"ہارون تم اورشادی!اب جب تم پچاس سال کے ہو۔ بھابھی کی وفات کے بعد کتنے سالوں تک ہم تم سے منتیںکرتے رہے کہ تم شادی کرلو پر تم نے کسی کی ایک نہ مانی ایک نہ سنی ۔ اپنی جوانی بچوں کے لئے صرف کردی۔ میں تمہارے اس فیصلے سے بےحد شادماں ہوں۔ کیا تم نے اپنے بچوں سے اس بات کا ذکر کیا ہے؟"
"نہیں بھائی جان۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بچوں کو میرے ارادے کے بارے میں بتا دیں۔"
" ٹھیک ہے ہارون۔ اتوار کو میں عشرت کو بھی بلا کر دونوں بھائی بہنوں کو تمہارا فیصلہ سناتا ہوں"۔  یہ کہہ کر اشفاق قاضی نے اپنے سامنے پڑی چائے کی پیالی ختم کی اور وہاں سے اُٹھ کے چلا۔
اتوار کو چچا اشفاق نے ہارون کے دونوں بچوں اور بہوکو اپنے گھر دعوت دی۔ دوپہر کا کھانا ختم کرنے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوئے۔"عمران اس وقت تم دونوں بہت ہی چھوٹے تھے جب عارفہ بھابیدنیا سے چل  بسی۔ اس حادثے کے بعد تمہارےابو تو بالکل ٹوٹ گئےتھے۔ ان کےجینے کی صرف ایک ہی وجہ تھی۔ تم دونوں کی پرورش۔اب جب تم دونوں کے گھر بس چکے ہیں اور وہ واحد وجہ بھی ختم ہوچکی ہے، میں چاہتا ہوں اور تمہارا ابو بھی، کہ وہ پھرسے جینا سیکھیں ۔ وہ پھرسے نکاح کرے"
یہ الفاظ سن کر عشرت کے ہاتھ سے اس کا فون گر پڑا اور دبئی ہوئی آواز میں کہا"نکاح اور وہ بھی اب"۔
" اس بات میںکیا برائی ہے۔ کیا عیب ہے۔تمہارے ابو کے سامنے ایک لمبی عمر پڑی ہے"۔ اشفاق قاضی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"چچا میں سسرال میں کیا کہوں گی۔ اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی"۔
" ہاں چچا۔میں بھی شازیہ سے کیا کہوں گا ۔ سب لوگ ہم پر ہنسیں گیں"۔عمران نے بہن کی ہاں میں ہاںملاتے ہوئے کہا۔
" ہم کبھی اس فیصلے میں ابو کا ساتھ نہیں دیں گے"۔
یہ کہہ کر سب وہاں سے نکل گئے اور ہارون قاضی کےگھر چلے گئے۔ گھر میں وہاسی پل کامتو قع تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی عشرت نے کہا " ابو یہ آپ کیسی بات کر رہے ہو ۔ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہے۔ میں اپنی سسرال میں کیا کہوںگی"۔
" ہم کیا منہ دکھائیں گے۔ ہمارے ہمسائےاور رشتہ دار کیاکہیں گے۔کیا سوچیں گے۔ ابو! چاہے جو کچھ بھی ہوجائے ہم آپ کے اس فیصلے میں کبھی آپ کا ساتھ نہیں دیں گیں" ۔عمران نے بڑے ہی غصہ بھرے لہجے میں کہا۔
" کیوں عمران! میں نے کیا غلط کہایا کیا ہے ۔ اپنی جوانی کے خوبصورت سال تو میں تمہاری اور عشرت کی پرورش میں لگائے۔کبھی شادی کا خیال تک دل و دماغ میں نہیں آنےدیا۔ عمر بھر اپنی خواہشات اور ضروریات کو مار کر زندہ رہا۔ پتا ہےکیوں ؟ کیونکہ میرے پاس جینے کی وجہ تھی اور وہ وجہ تھی تم دونوں کی پرورش۔ اب تو میرے پاس زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے اور زندگی کسی وجہ کے بغیر گزارنا پتا ہےکیسا ہوتا ہے؟ آدمی بس اپنی موت کا منتظر رہتا ہے۔ صرف انتظار ہی اس کا وجود، مقدر اور نصیب بن جاتا ہے"۔
"اورتم کیا کہہ رہے تھے ؟لوگ کیا کہیں گے؟ پڑوسی کیا کہیں گے؟ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ ہماری کئی ساری خوشیاں یہی سوچتے ہوئے قربان ہو جاتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا لوگوں کا کچھ کہنا یا باتیں کرنا ہماری خوشیوںسے زیادہ معنی رکھتا ہے؟"
" ابو بس! مجھےآپ کا فلسفہ نہیں سننا۔ چاہے جو ہو جائے ہم آپ کو نکاح کی اجازت نہیں دیں گے۔ کل کوتو ہماری سوتیلی ماں ہماری جائیداد میں بھی شریک بن جائے گی"عمران نے بڑی ہی بدتمیزی سےاپنے والدسے کہا۔
"میں تم لوگوں سے رائے نہیں مانگ رہا ہوں۔ بس یہ بات ذہن نشین کرلو کہ میں نے رشتے کروانے والی اسلیلیٰ سے کہا ہے کہ میرے لیےرشتہ ڈھونڈے۔جیسے ہی  اُس سے کوئی مناسب رشتہ ملے گا میں نکاح کر لوں گا"۔
" ابوچاہے جو ہو پھر بھی جائے ہم آپ کے اس فیصلے میں کبھی آپ کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ ہی ہم آپ کی نئی بیگم کو اس گھر میں آنے دیں گے۔ بہتر ہوگا آپ اپنے دماغ سے یہ خرافات نکال دیں۔ آپ کے لئے اور ہم سب کے لئے یہی بہتر ہوگا"۔عمران نےدروازہ پٹا خ سےدے مارا اور وہاں سے چلا گیا۔
" ابو!بھائی نے بالکل صحیح کہا ایسی خرافات نہ لائیں آپ اپنے دماغ میں۔ ہم کبھی اس بات کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر آپ نے ایسی کوئی حرکت کی، میں کبھی اس  گھر میں دوبارہ قدم نہیں رکھوں گی"۔ یہ کہہ کر عشرت بھی وہاں سے نکل گئی۔
" میرے بھائی اپنا دل اُداس نہیں کرنا۔ میں بچوں کو سمجھاتا ہوں"۔یہ کہہ کر اشفاق قاضی بھی وہاں سے چلا گیا۔
شام کو جب اشفاق قاضی ہارون کے پاس گیااور اسے کھانے کے لئے بلایا تو وہ نہیں مانا۔ یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ اور کچھ بھی کھانے کا من نہیں ہے۔
اشفاق قا ضی نے اس سے سر درد کی ایک گولی دے دی اور اسکو آرام کرنے کے لیے کہا۔
اس کی بہو، شازیہ جب اسےبلانے گئی تواسکو بھی وہی وجہ بتا کر انکار کر دیااور سو گیا۔ دونوں بچوںمیں سے کوئی بھی اُسکے پاس نہیں گیا۔
اگلی صبح جب حسب معمول وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد کے لیے نہیں نکلااور نہ ہی دیر تک باہر آیا توشاذیہ اُسکے لئے چائے کی پیالی یہ سمجھ کر لے گی کہ شایداسےزیادہ سر درد ہو۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میز کے پاس پڑااس کا مردہ جسم دیکھ کر اس کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹی اورمنہ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ "ابو۔۔۔۔"
���