خاص ہے ترکیب میں قومِ ِرسولِؐ ہا شمی فہم وفراست

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
قوموں اورمِلّتوںکی تاریخ میں بعض مرحلے بڑے سخت آزما ہو تے ہیں۔ ایسے نازک وقت اگر قوم و ملّت میں حالات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ کمزور پڑجائے تو قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جا تی ہیں اور تاریخ کے صفحات میں قصۂ پارینہ بن کر رہ جا تی ہیں اور آنے والی نسلیں انہیں تازیانہ عبرت کے طور پر دیکھتی ہیں۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں ایسی قوموں کا تذکرہ ملتا ہے جو اپنے وقت میں بڑی زور آو رتھیں اور اپنی شان وشوکت کا دبدبہ انہوں نے دنیا میں قائم کرلیا تھا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کی ساری چودھراہٹ ختم ہو گئی اور مشیت یزدی نے اقتدار کی زمام کار کسی اور قوم کے ہاتھوں میں دے دی۔ قومِ مسلم کے ہاتھوں میں بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں عروج اور سربلندی کی منزلیں آئیں۔ دنیا کے ایک بڑے حصے پر انہیں حکمرانی کرنے کا بھی موقعہ ملا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ حکومت کے تذکرہ کے بغیر اس ملک کی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔ اس طویل دورِ حکومت میں مسلمانوں نے اپنی بے مثال اور منفرد طرز حکمرانی کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اُسے آج کا ہر انصاف پسند شخص نہ صرف تسلیم کر تا ہے بلکہ اس دورِ حکومت کو موجودہ دور میں بھی قابل تقلید مانتا ہے۔ اس درخشاں تاریخ کو رکھتے ہوئے بھی مسلمان اس وقت ایک ایسی کشمکش کا شکار ہو گیا ہے جو اس کے حال اور مستقبل کو انجانے خوف میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ اس ناگہانی اور تشویشناک دور سے گزرتے ہوئے بھی ملّت کا بڑا طبقہ پورے عزم اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ البتہ ملّت کی وہ کالی بھیڑیں جو ہر دور میں اپنے مفادات کے حصول میں لگی رہتی ہیں، اب بھی وہ اپنا گھناؤنا کردار ادا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہی ہیں۔ اپنے اثرو رسوخ کو اقتدار کی گلیاروں میں بڑھانے کے لئے امت کی رُسوائی کے کاموں میں لگی ہوئی ہیں۔ملک میں کسی نہ کسی عنوان پر مسلمانوں کو اُلجھائے رکھنے کا کھیل کھیل رہی ہیںاور انہیں فرقوں میں باٹنے اور آپس میں ٹکرانے کے منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔ لیکن من حیثیت القوم اس وقت ہندوتانی مسلمانوں کا شعور جاگا ہے۔ وہ اس بات کا ادراک کرنے لگے ہیں کہ اس وقت اس ملک کے مسلمانوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہئے۔ انہیں اپنی ملّی و دینی شناخت کا تحفظ کیسے کرنا ہے،جس کے نتیجہ میں کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی شعور ی بیداری کی شمع روشن ہو تی دیکھی جا رہی ہے۔اس طویل اور صبر آزما مرحلے کو ہم صرف اور صرف اسلام کی بتائی ہوئی لا زوال تعلیمات کی روشنی میں ہی طے کر سکتے ہیں۔

ہادی اعظم صلی اللہ علیہ واالہ وسلم نے اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی کامیابی کے لئے جو حکمت عملی چودہ سو سال پہلے اختیار کی تھی، وہی طریقہ کار موجودہ حالات میں امت کے لئے بہترین اسوہ فراہم کرتا ہے۔ آزمائشوں کے موقعہ پر آپؐ کا غیر متزلزل عزم اور حوصلہ اور اپنی منزل کا واضح ہدف ہمارے لئے مشعل ِ ہدایت ہے۔ ملت اگر وقتی اور ہنگامی اچھل کود کرنے کی عادی ہوجائے تو وہ عیاّر حریف کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک ایسے وقت جب کہ مسلمانوں پر چہار طرفہ یلغار ہورہی ہے، اس کا سدّباب کرنے کے لئے اسوہِ رسولؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ملّت کو ایمان پر استقامت کا ثبوت دینے کے لئے تیار کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ یہ جان بھی اللہ کی امانت ہے۔ ایمان کی حفاظت میں یہ جان جاتی ہے تو اللہ کے دربار میں اس کی بڑی قدر ہے۔ ایک مسلمان ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ایمان سے دستبردار ہوکر جینا نہیں چاہتا۔ جس دن مسلمان ایمان کی قولی شہادت کے ساتھ عملی شہادت دیں گے باد سموم کے جھونکے ختم ہوجائیں گے۔ ہر طرف سے مسلمانوں کی مظلومی اور مقہوری کی داستانیں سنائی جائیں تو قوم میں حوصلہ اور ہمت کیسے پیدا ہوگی۔ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اقتدار کے لٹنے سے یا معاشی بدحالی سے یا پھر سیاسی بے وزنی سے ملت اپنا وجود نہیں کھو دیتی۔ مسلمانوں کاحقیقی وجود اور ان کی امتیازی شناخت ان کے ایمان باللہ سے ہے۔

دنیا کے سارے سہارے ختم ہوجائیں لیکن اللہ ان کا مددگار اور کارساز ہو تو دنیا کی کوئی حکومت انہیں مِٹا نہیں سکتی۔ بلاؤں کے اس ہجوم میں امت میں عقیدہ توحید کو راسخ کردیا جائے تو مخالف کی باد صر صر سے مسلمان کبھی نہیں گھبرائے گا۔ اس وقت ملت مخالف طاقتوں کی جانب سے اٹھائے گئے متنازعہ موضوعات میں الجھ کر رہ گئی ہے ، چاہے وہ حجاب کا مسئلہ ہویا نماز جمعہ کی کھلی جگہ پر ادائیگی کی بات ہویا پھر حلال گوشت پر امتناع کا مسئلہ ہو یا دیگر موضوعات ۔ ان سے ہٹ کر مسلمانوں کو خود اپنا ایجنڈا طے کرنا ہوگا اور اسی کے مطابق اپنا پروگرام بنانا ہوگا۔ اہم بات یہ کہ دنیا کا کوئی بھی گروہ خارجی طوفان کا مقابلہ بڑی آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے لیکن اندرونی خلفشار پر قابو پانا اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک اس میں وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کی صفات نہ ہوں۔ امت کی اس وقت جو کیفیت ہے اس کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمان ہر قسم کے جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کا ثبوت دیں اور یہ اتحاد دین کی بنیاد پر ہو۔ آخری اور اہم بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ’’امت وسط ‘‘اور ’’خیر امت ‘‘کے لقب سے نوازا ہے۔ اس کا یہ دائمی فریضہ ہے کہ وہ شہادت حق کے فرضِ منصبی کو ہر حال میں ادا کرے۔ نفرت اور عناد کی جو فضاء فرقہ پرستوں کی جانب سے ملک میں پیدا کی جا رہی ہے، اس کے ازالے کے لئے ملک میں اسلام کا تعارف بڑے پیمانے ہو۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس کو اپناکر ہندوستان میں مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حا صل کر سکتے ہیں اور ملک میں امن و آشتی کے نقیب بن سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ملت اسلامیہ دعوت دین کو اپنامشن بنالے اور اپنی عملی زندگی سے ثابت کرے کہ وہ اسلام کی سچی پیرو ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
(رابطہ۔9885210770 ) [email protected]