خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ دخترِ رسولؐ

 میر امتیاز آفریں

اسلام میں چار خواتین کو خصوصی عظمتوں اور رفعتوں سے نوازا گیا ہے وہ ہیں: حضرت آسیہ ، حضرت مریم، حضرت خدیجہ اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما۔ان چار خواتین میں بھی جو خصوصی اعزاز حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا ؓکو بخشا گیا ،وہ بیان سے باہر ہے۔آپ کی عظمتوں کو بیان کرتے ہوئے ہی ایک عربی شاعر نے لکھا ہے:
لو کان النساء لمثل ھذا
لفضلت النساء علی الرجال
یعنی اگر خواتین حضرت سیدہ فاطمہ جیسی ہوں، پھر تو ماننا پڑے گا کہ مردوں پر خواتین کی ہی فضیلت ہے۔
آپ کی مبارک ذات میں اللہ نے کئی غیر معمولی نسبتیں جمع فرمائیں تھیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے لاڈلی اور چہیتی بیٹی بھی ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ بھی اور حسنین کریمین ؓکی والدہ بھی۔ آپ کو اللّہ نے امت مسلمہ کی جملہ خواتین کیلئے اسوہ یعنی نمونہ کے طور پر نمایاں فرمایا۔
آپ کو فاطمہ، بتول، زھرا، طاہرہ، سیدۃ النساء کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔روایات کے مطابق فاطمہؓ آپ کو اس لئے کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو مع اولاد آتش دوزخ سے دور رکھے گا۔ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب حضرت فاطمہ آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ پکڑ کر جبین مبارک پر بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھاتے اور اسی طرح جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ ؓکے پاس تشریف لاتے تو وہ تعظیم کے لئے اٹھ کھڑی ہوتیں اور استقبال کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ زہرہ، ذکیہ، راضیہ اور بتول حضرت سیدہ کے القاب سے ہیں۔بتول آپ کو اس لئے کہتے ہیں کہ آپ علائق دنیا سے منقطع تھیں۔ حضرت سیدہ علم، عمل ، روحانیت اور اخلاق میں خواتین عالم سے منقطع تھیں اور اپنی نورانیت اور پاکیزگی کی وجہ سے آپ زہرہ کہلائیں۔
جب آپ جوان ہوئیں تو اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ پھر حضرت علی ؓنے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ مرحبا و اہلاً۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے بات کی وہ خاموش رہیں۔ پھر آپؐ نے حضرت علی سے فرمایا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ہاں گھوڑا اور زرہ ہے۔فرمایا ، گھوڑا جہاد کے لئے ضروری ہے، زرہ کو بیچو۔ انہوں نے 480 درہم کے عوض زرہ بیچی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے خرید کر قیمت ادا کرکے زرہ بھی واپس کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درہم اپنے پاس رکھے۔پھر ایک مٹھی درہم لے کر حضرت بلال کو دئے اور فرمایا کہ اس کی خوشبو لے آؤ،اور اہل بیت سے فرمایا کہ فاطمہ کا سامان تیار کرو۔ چنانچہ ایک چارپائی اور بستر بنایا گیا۔ امام احمد نے روایت کیا ہے کہ ایک کملی، ایک مشک، اور ایک چمڑے کا تکیہ بھی سامان میں شامل تھا۔چار سو مثقال چاندی مہر قرار پایا۔ آپ کا نکاح بھی روایات کے مطابق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ مقرر فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خطبہ نکاح پڑھا اور برکت کی دعا فرمائی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جب پوچھا گیا کہ انہیں کیسی شریکِ حیات ملی ہیں تو آپ نے فرمایا العون علی العبادۃ یعنی عبادتِ باری تعالیٰ میں بہت زیادہ معاون۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا:’’فاطمہ میری لخط جگر ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔ پیغمبر اسلام کی لخت جگر ہونے کے باوجود آپ کے پاس کوئی خادمہ نہ تھیں، اس لئے گھر کا کام مثلاً پانی لانا اور دانے پیسنا وغیرہ آپ خود کیا کرتی تھیں حتیٰ کہ آپ انتہائی تھک جاتی تھیں اور کام کے آثار آپ کے ہاتھوں اور کاندھوں پر پڑتے۔ آپ کے شوہر حضرت علیؓ یہ سب کچھ دیکھ کر رنجیدہ ہوتے، لیکن کچھ نہ کر سکتے تھے، اسی طرح وقت گزرتا رہا، لیکن حضرت فاطمہ کی زبان پر کبھی حرف شکایت نہ آیا، کیونکہ جس طرح وہ نشست و برخاست اور چال ڈھال میں اپنے والد محترم جیسی تھیں، اسی طرح اپنے والد محترم والے اخلاق کی بھی حامل تھیں۔
حضرت فاطمہ کی وفات 3 رمضان المبارک 11ہجری میں واقع ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ اپنی تمام صاحب زادیوں سے زیادہ عزیز تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے ہی آپ کو بشارت دی تھی کہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے مجھ سے تم ملو گی۔ اس خوشخبری سے آپ کو مسرت ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے انتقال کی خبر سن کر ان کو جو صدمہ ہوا تھا، اس کی بہت کچھ تلافی ہوگئی۔چناچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تھوڑے ہی عرصے بعد حضرت فاطمہ نے بھی انتقال فرمایا۔آپ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر تھیں۔امام ذہبی حب رسول میں آپ کے کچھ اشعار اس طرح نقل کرتے ہیں:
ماذا علی من شم تربتہ احمدا الا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب کو انھا صبت علی الایام عدن لیا لیا
یعنی جس نے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی خوشبو سونگھ لی، اگر وہ عمر بھر کوئی خوشبو نہ سونگھے تو اسے کوئی پرواہ نہیں۔مجھ پر غموں کے اتنے پہاڑ ٹوٹے کہ اگر وہ دنوں پر ٹوٹتے تو وہ بھی رات میں تبدیل ہو جاتے۔آپ سے مروی 18 احادیث محدثین نے روایت کی ہیں۔
اگر آپ کے نقوش سیرت کو دیکھیں تو بچپن سے ہی آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک رہنے کا موقع عنایت ہوا۔ بچپن میں ہی آپ کی والدہ کا انتقال ہوا اور آپ پر جیسے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ روایات میں درج ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کی تدفین سے لوٹے تو سیدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ‘میری امی کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ‘ آپ کی امی اللہ کے پاس چلی گئیں۔
ابن اسحاق اپنی سیرت میں لکھتے ہیں کہ کافروں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر کیچڑ ڈال دیا تو آپؓ ان کے سر مبارک کو دھوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: بیٹی صبر کرو ، اللّٰہ جلد ہمیں ان سے مامون کرے گا۔ آپ نے دین کے رستے میں آنے والے مصائب پر بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔آپ نے اپنے والد کے ساتھ نہ صرف ہر دکھ برداشت کیا بلکہ شعب ابی طالب کے سماجی بائیکاٹ میں بھی تین سال تک صعوبتیں برداشت کرتی رہیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں:’میں نے فاطمہ سے زیادہ معمولات زندگی میں کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں پایا۔
آپ زیب وزینت سے پرہیز کرتی تھیں اور آپ کی شخصیت پر حیا، پاکدامنی، تقوی اور طھارت کا غلبہ تھا ۔ آپ کی پاک سیرت مسلم خواتین کیلئے اسوہ کاملہ کا درجہ رکھتی ہے۔آپ کی زندگی کا مقصد ہی رضائے الٰہی کا حصول تھا اور دینی اقدار پر تعامل آپ کا وطیرہ رہا۔ علامہ اقبال نے خوب فرمایا ہے:
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں اسوہ کامل بتول
یعنی تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول ہیں اور امت کی ماؤں کے لئے کامل نمونہ آپ ہی کی مبارک ذات ہے۔
آں ادب پروردہ صبرورضا
آسیا گردان ولب قرآن سرا
آپ صبر و رضا کے آداب سے آراستہ تھیں ، ہاتھ سے چکی پیستی تھیں اور لب پر قرآن کی تلاوت جاری ہوتی تھی۔ آپ کی نظر میں گھر جہادِ زندگانی میں عورت کا مورچہ ہے اور علامہ عبد الحق محدث دہلوی کے مطابق گھریلو تقسیمِ کار کا نظام آپ ہی کی بدولت امت کو ملا ہے کیونکہ حضرت علیؓ باہر کے کام انجام دیتے تھے اور آپؓ گھر کا اندرونی نظام سنبھالتی تھیں۔
حضرت فاطمہ ؓ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ راہ خدا میں سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتی تھیں۔خود فاقہ کشی کی زندگی بسر کرتی تھیں مگر دوسروں کو خوب کھلاتی پلاتی تھیں۔ایک بار ایک شامی خاتون نے دربار رسول ؐمیں حاضر ہوکر کچھ تحائف حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی خدمت میں پیش کئے، آپ ؓنے لے کر فوراً غرباء، فقراء اور مساکین میں تقسیم فرما دئے۔آپ غیبت اور تعصب سے پاک و صاف تھیں اور اخلاقِ حسنہ آپ کی شخصیت کا جزوِ لاینفک تھے۔حضرت سیدہ کی ذات ہر دور کی خواتین کیلئے مشعل راہ ہے اور اس سے مستفید ہونا ہر دور کی ضرورت ہے۔ آج جبکہ ماڈرن عورت مغربی طرز زندگی کی دلدادہ ہے اور وہ اسلامی اقدار کو پاؤں کی زنجیر سمجھتی ہے اور یوں فحاشی، عریانی اور نفسانیت و شہوانیت کی منڈی کی رونق بنتی جا رہی ہے، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسوۂ زھراء کو اپنا کر دین ودنیا کی کامیابیاں حاصل کرنے کا پروانہ حاصل کرے ۔کیونکہ:
کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ
[email protected]