حیاتِ انسانی میں صحیح عقائدکی اہمیت اور ضرورت عقائدمیں غفلت سے فتنوں کی کثرت ہورہی ہے

محمد فرقان

عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے، صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اوردائرہ اسلام سے خارج ہے ،کیونکہ مسلمان کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہؐ نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں۔ عقیدۂ توحید، عقیدۂ رسالت اور عقیدۂ آخرت۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہےکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور ربّ ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے، ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے، اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہےاور تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے ، اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدۂ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا ،سب کے سب انبیاء حتیٰ کہ خاتم النبیین حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھا۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہےکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ’’یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ‘‘ کہ ’’اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 59)۔ ایک حدیث میں ہےکہ نبی اکرمؐ نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘ کہ ’’اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔‘‘ (مسند احمد)۔توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ‘‘ کہ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ تو بنی آدم نے جواب دیا: ’’قَالُوْا بَلٰی ،شَہِدْنَا‘‘ کہ ’’کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 172)۔ عقیدۂ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینؐ، اصحاب رسول ؓ، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین و بزرگانِ دین نے بے شمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدۂ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدۂ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے۔
عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہؐ پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا‘‘ کہ ’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔‘‘ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ’’قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَاِ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں، لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے ،وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہےکہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَ‘‘ کہ ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے، ورنہ اس کے بغیر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
عقیدۂ آخرت عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بے بنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپؐ سے بے شمار احادیث عقیدۂ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ’’قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ کہ ’’کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا ،جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدۂ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے۔ عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیردائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں ’’اٰمَنْتُ بِاِ وَمَلَائِکَتِہ وَ کُتُبِہ وَ رُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَ شَرِّہ مِنَ اِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ کہ ’’ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!‘‘۔ (صحیح مسلم)۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
(مضمون نگار مررکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹرہیں)
رابطہ۔8495087865
[email protected]