حِنا کے پھول

زمین داری الطاف کا خاندانی پیشہ کا تھااور یہ کام تو بڑے صبر و سخت محنت کا ہوتا ہے مگر وہ نہ تو محنتی تھا اور نا ہی کسی کام میں ماہر۔کئی جماعتیں پڑھکر گھر میں بیٹھا ہمیشہ کسی نہ کسی مسلے پر گھر والوں سے الجھتا رہتا تھا۔ اس کی شادی بھی ایک ہم مزاج عورت سے ہوئی تو اسکے ابا نے اپنے ہی گائوں میں ایک دوکان کھول کے دی۔ کئ سال بعد انہیں رب کائنات نے ایک  پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ پہلے دن سےہیالطاف اور اسکی بیوی پر یہ بھوت سوار ہوا کہ وہ نجمہ کو گھر سے دور کسی باہر کے علاقے میں پڑھائی کے لئے بھیج دینگے، اسلے نہیں کہ بیٹی کی پڑھائی ایک گھرپریوارکی پڑھائی ہے اور اس لئے بھی نہیں کہ مستقبل میں بیٹی کی زندگی علم کے نور سے مہکے بلکہ اس لئے کہ بیٹی کو باہر پڑھا کرفی الحال وہ آس پاس کے لوگوں کو نیچا دکھا سکیں ۔ان دونوں کی نیت جان کرالطاف کے ابا کو شک ہی نہیں بلکہ اس بات کا پورا یقین ہو گیا  کہ یہ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی کی زندگی خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کی سخت مخالف کے باوجود بارہویں جماعت کے بعد ہی الطاف نے ایک زمین کے ٹکڑے کا سودا کرکے نجمہ کو پڑھائی کیلئے باہر بھیج کر ہی دم لیا۔ وہاں نجمہ کے کھانے پینے، ہوسٹل اور کالج کی فیس اور چھٹیوں میں گھر آنے جانے کا ہوائی جہاز کا خرچہ اور باقی اخراجات پورے کرتے کرتے الطاف نے اپنی وراثت میں تقریبا  نصف زمین فروخت کر دی۔ 
کئی سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ خیر سے نجمہ اپنے ہاتھوں میں ڈگری لے کرگھرآئی۔اب وہ اپنے خاندان میں ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں میں باہر سے آئی ہوئی پہلی ڈگری یافتہ لڑکی بن گئ۔گھر آتے ہی اسےدادا جی نے کسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے کا اور الطاف کو نجمہ کی شادی کرنےکا مشورہ دیا لیکن الطاف نے دونوں باتوں سے منع کیا۔اپنی بیٹی کے کھانے پینے، سونے جاگنے، کپڑے پہنے اور انگریزی بولنے کا ڈھنگ دیکھ کر اس کے پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے ۔
اپنے وقت پر نجمہ کے ہاتھوں میں حنا کے پھول سجانے کی بجائے وہ اس کی سرکاری نوکری کے خواب دیکھنے لگا۔ نہ جانے کیوں الطاف اور اس کی بیوی کو زندگی کے اصول اور تعلیم کا مفہوم ہی سمجھ نہ آیا ورنہ تو ان کی دہلیز پر نجمہ کے لئے موزوں وقت پر موزوں اور مناسب رشتے آئے مگر ان دونوں نے ہر دفعہ ہر رشتے میں بال کی کھال نکالتے نکالتے بے دردی سے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر ہم نے اتنی پڑھی  لکھی بیٹی کو سرکاری نوکری ملنے سے پہلے بیاہ دیا تو گائوں میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔دوسری طرف ہماری بیٹی کو سسرال میں بھی عزت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے گا ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی اپنے  سسرال میں خوداری کی زندگی گزارے جو سرکاری نوکری کے بغیر ممکن نہیں ۔نجمہ بیچاری بھی اپنے والدین کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی اس طرح ڈھیر سارا وقت گزرگیا۔۔
نجمہ کے ہم عمر اور ہم جماعت لڑکے اور لڑکیوں اور اسکی سہیلیوں کی شادیاں ہوئیں ۔ بچے بھی ہوئے۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش بھی تھے مگر نجمہ نوکری کی سولی پر لٹکتی رہی اس کے ماں باپ اس بات سے انجان تھے کہ وقت میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ وقت پر شادی کرنے کے نقصانات نہیں بلکہ بے شمار فائدے ہیں اور ہرانسان اپنے اپنے حصے کا رزق کھاتا ہے اور ہرانسان کو اپنے حصے کی خوشیاں بھی ضرورملتی ہیں۔فضول کسی چیز کےانتظار میں تو وقت اور عمرسوکھی ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں ۔آج تک کوئی انسان  وقت اورعمرکی رفتارکوقابونہ کرپایا ہے اور نہ کرپائیگا۔
اس طرح ان کی بیٹی نجمہ عمرکی سیڑھیاں چڑھتی گئی اورگزرتےوقت کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری ملنا بھی محال ہوگیا۔ جب چہرے کےنقوش اور بالوں کی زبان اپنی داستان خود بیان کرنے لگےتب کہیں جاکے انکی آنکھیں کھلیں۔ اب ان کےدلوں میں نجمہ کی شادی کی خواہش نے تو شدت اختیارکرلی مگرانہیں اسبات کا اندازہ نہ تھا کہ  جو لڑکااب کی بارنجمہ کو دیکھنے اپنی ماں کے ساتھ آیا وہ نجمہ کو ادھیڑعمر کی عورت کہہ کر نا پسند کرکےواپس چلاجائیگا۔
 
���
پہلگام اننت ناگ ،موبائل نمبر؛9419038028