حقیقت، صداقت ،شجاعت وشہادت شہدائے کربلا

حمیرا فاروق

تواریخ کے اوراق ایسے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں جن کو پڑھ کرانسان دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوکر اپنی زندگی میںآگےبڑھتا ہے۔ حق و صداقت کا جھنڈا صرف مومن وغیور انسان ہی لہرا سکتا ہے، باطل انسان اسکا گمان کرنا تک گوارہ نہیں کرسکتا۔ہم کوئی جانبداری کی بات نہیںکرتے بلکہ حق کو حق سمجھ کر پیش کرتےہیں ۔ خون کے رشتوں سے سے زیادہ معزز اور محترم دینی رشتہ ہوتا ہےجو ہمیں حضرت یوسف ؑ کے قصے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے کون سا رشتہ زیادہ فوقیت رکھتا ہے ۔ دینی رشتے محبت و احساس سے بھرے ہوتے ہیں ۔ان رشتوں پہ انسان اپنی جان تک نثار کر دیتا ہے ۔
تاریخ نے کئی ہستیوں کے نام بڑے تعظیم و فخر سےلئے ہیں جو دنیا کو فتح کرنے کی صلاحیت و حوصلہ رکھتے تھے اور جنہوں نے حق کے لیے اپنا خون پیش پیش رکھا ۔ اُنہی ہستیوں میں ایک معزز ہستی جن کا نام تاریخ میں قائم و دائم ہے۔سیدنا حسینؓ، فاطمہؓکےلال،علیؓ کے جگر گوش اور رحمت للعالمین ؐ کے نواسے، جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنے خاندان والوں سمیت خود کو میدان کربلا میں پیش کیا ۔ وجہ صاف تھی کہ خلافت بادشاہیت میں تبدیل ہوگئی تھی ۔ خلفائے راشدین کے بعد حکومت بنو اُمیہ کے ہاتھ میں آئی تھی، امیر معاویہ چونکہ اسلام کا بادشاہ اول مانا جاتا ہے اور خلافت وہیں ختم ہوجاتی ہے جب معاویہ تخت نشین ہوتےہیں ۔اسکے بعد صلح حسن ہوتا ہے جس میں یہ معاہدہ حضرت حسنؓ ، امیر معاویہ سے لیتےہیں کہ آپ اپنے بعد کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔ لیکن جب وہ بستر مرگ پہ آتےہیں تو وہ اپنے بیٹے یزید کو بادشاہ نامزد کرتے ہیں جو پھر جنگ کی ایک اہم وجہ بن جاتی ہے ۔
اگرچہ امام حسینؓ کی شہادت کو ۱۳۲۰سال گزر چکے، لیکن اب بھی مسلمان حسینؓ کوبدستور یاد کررہے ہیں۔ ہر وقت تواریخ کو دہرا کے جیسے نیا کربلا برپا ہوجاتا ہے، پھر سے دلوں میں رنج و الم طاری اور چشم نم ہوتی ہیںکہ کس طرح دھوکے میں لاکرسیدنا حسینؓکو اُنکے خاندان والوں سمیت شہادت کا جام پلایا گیا ۔ بنو اُمیہ کے لعینوں کے ہاتھوں امام حسینؓ کی شہادت تو اُمت کے لیے خاص ہے، اس لئے اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی دنیا آپؓ کو یاد کررہی ہے ۔
صداقت با لآخر دنیا کے سامنے آہی جاتی ہے ۔ بنو امیہ چونکہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو غلط دکھانا چاہتے تھے لیکن جو ہستی جنت کے نوجوانوں کے سردار ہو،جن کی ماں جنت کے عورتوں کی سردار،جن کا باپ علم کا دروازہ ہو،اور جن کے نانا رحمت للعالمین ؐ ہوں، وہ کبھی غلط ہوسکتے ہیں؟ ۔ کامل مومن وہ ہے جو حق بات کو برملا بیان کرسکے ۔ خلفائے راشدین کا دور حق پر مبنی تھا اور انہوں نے اپنی رعایا کو بھی یہ حق دیا کہ اگر انکو لگتا کہ خلیفہ غلط کر رہا ہے، وہ کھلم کھلا اپنی شکایت پیش کرتےتھے ۔ لیکن معاویہ کے بعد نہ تو شورائیت رہی اور نہ ہی حق کا احترام،اگر کوئی حق بات بولتا بھی تو اسکا سر قلم کیا جاتا تھا ۔ حضرت امام حسین ؓکو یزید کے ساتھ کوئی ذاتی جنگ نہیں تھی بلکہ جنگ محض اس بنا پرہوئی کہ یزید نظام حق میں تغیر لانا چاہتا تھا اور امام حسین ؓجو انتہائی دانااور علم وفہم میں وسیع النظر تھے کومحسو س ہوا کہ یزید کا ارادہ اُمت کے لئے ۓ وباء بن جائے گی اس لئےیزید کی بیعت کرنے سے انکارکیا،یہاں تک کہ شہادت پائی ۔چنانچہ جن لوگوں نے امام حسینؓ کوبُلا یا، ان میں پہلا شخص جرح بن سنان تھا اور یہ عتبہ بن ولید کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ یہ سبھی لوگ ایک ہی خاندان سے تھے، جنہوں نے اہل ایمان کا خون بہا کر اسلام کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن سب بدبخت ناکام و نامراد ہو گئے ۔ کیونکہ دین اسلام کے بقاء تا قیامت رہے گی، یہ اللہ تبارک و تعالی کا وعدہ ہے ۔
بلاشبہ مومن نہ تونفس کی پیروی کرتا ہے اور نہ ہی اقتدار پانے کے لئے نسل ِانسانیت کا قتل کرتے ہیں کیونکہ وہ حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں ۔ یزید نے اگرچہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر ڈالا لیکن حق پر حسینؓ ہی تھے۔ یہ درد ناک سانحہ اُمت مسلمہ کے ایمان کو تازہ کرتا ہےاور یہ جنگ حق و باطل کی تمیز سکھاتی ہے۔ اسلام شروع سے دنیا میں زندہ و جاوید رہ کے لوگوں کے روشنیوں کی اور رہنمائی کرتا چلا آرہا ہے اور تا قیامت کرتا رہے گا ۔ یہ چراغ کبھی نہیں بجھ پائے گا، چاہے بجھانے والے کتنی بھی کوشش کریں۔ حق پر چلنے والے پروانے کبھی اپنی پرواہ نہیں کریں گے بلکہ حق کے چراغ کے اردگرد گھوم کر خود کو فنا کرکے ہی رکھ دیںگے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت تاقیامت آنے والی نسلوں کے لئے رشد و ہدایت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
( آونیرہ شوپیاں )
[email protected]