حضرت ِمحمد مصطّفیٰ ﷺ کی شانِ رحمت

مولانا نعمان نعیم

خاتم الانبیاء،سیّدالمرسلین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ’’رحمۃ للعالمین ‘‘بناکر دنیا میں بھیجا، یہ لقب اور شرف ایسا ہے جو کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ رحمۃللعالمین وہی عظیم ترین شخصیت قرار پائے گی، جس نے انسانیت کو توحید کے نور سے منور کرنے ،دنیا کو امن و سلامتی کادرس دینے کے ساتھ ساتھ امنِ عالم کے قیام و استحکام کےلیے ساری زندگی صرف کی ہو، جس نے بندوں کو اللہ سے ملایا ہو، جس نے غریبی و امیری، جوانی و پیری، امن اور جنگ، رنج و راحت، حزن و مسرت، ہر موقع اور مقام پر انسانیت کی راہ نمائی کی ہو، جس کی تعلیم نے تمام افرادِ بشر کو بھائی بھائی قرار دیا ہو، جانی دُشمنوں کو پروانۂ اَمن و امان عطا کیا ہو، غیرمسلم ذمیوں کو جان و مال، عزت و آبرو اور دیگر حقوقِ انسانی کی حفاظت میں مسلمانوں کے ہم پلّہ اور مساوی قرار دیا ہو، رحمۃ للعالمینؐ وہی ہے جس نے تمام بنی نوع انسان کو انسانی، قومی، قانونی اور مالی مساوات کا درس دیا ہو، جس نے یہودیوں، عیسائیوں، منافقین اور تمام مخالفین کے ساتھ بے نظیر رواداری اور عدل و انصاف کا معاملہ کیا ہو اور ان کے ہر طرح کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی ہو، جس نے انسانوں کے تمام طبقات، امیر و غریب، عوام و خواص، بوڑھوں، بچوں، جوانوں، مردوں عورتوں، نیک و بد، محنت کشوں، مزدوروں، غلاموں، کنیزوں کے ساتھ رواداری و غم گساری، مساوات و ہم دردی کے جذبات سے معاشرے کو آراستہ کیا ہو۔
سرورِ عالم ؐکی حیاتِ طیبہ رواداری، مساوات و ہمدردی اور غم خواری و غم گساری، عفو درگزر اور رحم و کرم کے واقعات سے معمور نظر آتی ہے۔ عام انسانوں کی خدمت ان کی حاجت روائی اور اَشک شوئی سے سرکارِ دوعالمؐ کو بڑی دل چسپی رہی، خدمتِ خلق چوں کہ دعوت کا راستہ ہموار کرتی ہے،دلوں کے بند دروازے کھولتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت سے پہلے نبی اکرمؐ کو خدمت خلق کی تربیت دی۔
خدمتِ خلق کے دائرے میں سرکارِ دوعالمؐ نے رشتے داروں کا ہمیشہ خیال رکھا، ان کے ساتھ حسبِ مراتب معاملہ کیا، ان کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے، یتیموں، بیوائوں اور بے نوائوں کی خبرگیری کی اور ان کی امداد فرمائی،بے روزگاروں کی مالی مدد اور مظلوموں، مصیبت زدہ لوگوں کی دست گیری فرمائی اور نبوت کے ساتھ سرفراز کیے جانے سے پہلے بھی مکہ معظمہ میں امن و امان کے قیام کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں آپؐ برابر شریک رہے۔
محسنِ انسانیت، حضرت محمدؐ کی نبوت و رسالت کا امتیاز یہ ہے کہ رحمن و رحیم پروردگار نے آپ ؐکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا۔ اس حوالے سے ارشادِ ربانی ہے:: اور ہم نے (اے رسولؐ) آپ کو تمام جہانوں کے لیے (سراپا) رحمت بناکر ہی بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء 105)
قرآن کریم کی یہ آیتِ مبارکہ قرآنِ ناطق رحمۃ للعالمینؐ کی شانِ رحمت، آپؐ کے خصائل و شمائل اور اخلاق کریمانہ کا جلی عنوان ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ عزوجل کے تمام انبیاء ومرسلین ’’رحمت‘‘ تھے، مگر ’’رحمۃ للعالمین‘‘ نہیں تھے۔ ان کی شانِ رحمت اپنی قوم، اپنے علاقے، اپنے دور اور اپنے زمانے تک محدود تھی، جب کہ رحمتِ مجسم ، محسنِ عالم حضرت محمد ؐکی رحمت و شفقت کا دائرہ ہر عہد، ہر زمانے، ہر قوم، اپنے پرائے، جملہ کائنات اور جملہ مخلوقات یہاں تک کہ تمام جہانوں اور دنیا و آخرت کو شامل ہے۔
رحمۃ للعالمین ؐکی صفتِ رحمت اور آپؐ کی شانِ رحمت کی تجلّی عام ہے۔ رحمت کے اس خزانے اور امت کے غم خوار کے دربار میں دوست، دشمن، اپنا پرایا، عورت، مرد، بوڑھے بچّے، کافر، مسلم، آقا و غلام، انسان ،حیوان، کائنات اور تمام جہانوں کا ذرّہ ذرّہ ہر ایک صنف ہستی برابر کی حصّے دار ہے۔ آپؐ کی شانِ رحمت تمام عالمین، تمام جہانوں اور ہر عہد کو محیط ہے۔
کفار و مشرکین نے مکہ مکرمہ میں وہ کون سا ظلم تھا جو سرکارِ دوعالمؐ اور صحابۂ کرامؓ کے ساتھ روا نہ رکھا ہو، آپؐ کوجسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپؐ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپؐ کا گلا گھونٹا گیا،نماز کی حالت میں آپؐ پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپؐکے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے، تین سال تک شعب ابی طالب میں آپؐ کو محصور رکھا گیا، جس میں ببول کے پتے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ ؐکو سخت اذیت پہنچائی گئی۔
لوگوں نے آپؐ کو اتنا زدوکوب کیا کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے، آپؐ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، آپؐ مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیا گیا، اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہود کے ساتھ مل کر رحمتِ عالمؐ اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی، فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آ رہی تھی، انہیں خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا۔
سرکارِ دوعالمؐ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا: اے قریش کے لوگو! تمہیں کیا توقع ہے، اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی اُمید رکھتے ہیں، آپؐ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں،جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔ (زادالمعاد، ج: 1ص: 424)
علامہ شبلی نعمانی رحمتِ دو عالم، حضرت محمد ؐ کی سیرتِ طیبہ کے ان واقعات کو نقل کرنے کے بعد آپؐ کی شان رحمت اور رحمۃ للعالمینی کے متعلق لکھتے ہیں ’’حضور انورؐ کی ذات پاک تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر آئی تھی، حضرت مسیحؑ نے کہا تھا کہ ’’میں امن کا شہزادہ ہوں‘‘، لیکن امن و سلامتی کے شہنشاہ اعظم حضرت محمد ؐ کو خدا وند ازل ہی نے خطاب کیا!’’وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘
(محمدؐ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ آپ ؐکے خزانۂ رحمت میں دوست و دشمن، کافر و مسلم، بوڑھے بچے، عورت مرد، آقا و غلام، انسان و حیوان ہر ایک صنف ہستی برابر کی حصے دار تھی۔ آپؐ نے فرمایا! میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو پیغام دیا! ’’ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، اور اے خدا کے بندو! سب آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔‘‘رسول اللہؐ کی یہ بے مثال تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے اور شانِ رحمت کا عظیم مظہر ہیں۔