حضرت علی المرتضیٰ ؓ ۔اوصاف بہ گفتگو ممکِن نیست خلیفہ چہارم

افتخاراحمدقادری
جامع المناقب میں ہے: صحابی ٔرسول حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں: حضرت علی ؓصاحبِ شجاعت و صداقت، زہد و عرفان، علم و فضل میں لاثانی تھے۔ خود حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جنتی آدمی کو دیکھنے کا خواہشمند ہے، وہ میرے علی ابو تراب کو دیکھے۔ فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ الله رب العزت نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں فاطمتہ الزہرہ کی شادی مولا علی سے کرادوں۔ میرے ساتھ نماز سب سے پہلے علی نے پڑھی، اے علی !جو تیرا دوست وہ میرا دوست، جو تیرا دشمن وہ میرا دشمن ہے۔‘‘ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’تمہاری حیثیت میرے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارونؑ کی موسیٰؑ کے ساتھ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں( ترمذی شریف)، علی میرے ہیں اور میں علی سے ہوں( ترمذی شریف)، جس کا میں مددگار ہوں، علی بھی اس کے مددگار ہیں،(مسند احمد) منافق علی سے محبت نہیں رکھتا اور مومن علی سے بغض نہیں رکھ سکتا( ترمذی شریف)، جس نے علی کو گالی دی، اس نے مجھے گالی دی( احمد)، علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے( ترمذی شریف)، میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ( ترمذی شریف)۔ ‘‘
آپ کا نام: علی۔ کنیت ابو الحسن اور ابوتراب ہے۔ آپ کے والدِ ماجد حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ہیں۔ حضرت علی ؓ کی ولادتِ باسعادت 13؍رجب المرجب 30ہجری، عام الفیل بروز جمعتہ المبارکہ کو ہوئی۔ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کا نام علی رکھا، آپ کے والدِ ماجد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد المناف ہیں۔ بااعتبار نسب آپ حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی ہیں، آپ کی کنیت ابو تراب اور مشہور لقب حیدر ِکرّار ہے۔ آپ کی تربیت تمام و کمال حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے آغوشِ رحمت میں ہوئی۔ جب حضور اقدسؐ کو خلعتِ نبوت عطا ہوئی، اس کے ایک دن بعد آپ شرفِ ایمان سے فیضیاب ہوئے ،اُس وقت آپؓ کی عمر گیارہ سال تھی۔ حضرتِ ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں، مسجدِ نبوی میں ایک سائل نے سوال کیا کسی سے کچھ نہ ملا ،حضرت علی نماز میں تھے ،اپنی انگلی کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کردیا اور سائل نے انگوٹھی اُتار لی خوش وخرم واپس ہوا(شان صحابہ/صفحہ 117) حضرت علیؓ،نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی تربیت کا شاہکار ہیں۔ آپؓ نے تاریخ کے مہیب اندھیرے میں حق وصداقت کا چراغ روشن کیا، حکمت علم و فضل اور بلاغت میں آپ اپنی نظیر تھے۔ آپ ؓکی شجاعت و بہادری تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے۔ آپ کی سیرت، سیرتِ نبوی کے گرد گھومتی ہے۔ آپ نے حق اور حقیقت کے لیے جان جیسی عزیز چیز قربان کر دی۔ فاتح خیبر حضرتِ علی ؓہی ہیں۔ آپ تقوی وطہارت، شجاعت علم اور حسنِ اخلاق کا مجسمہ تھے، آپ ؓکی زندگی سادگی اور فقر کا کامل نمونہ تھی۔ حضرت علی ؓ، حضرت عثمانِ غنی ؓ کی شہادت کے بعد 26؍ذی الحجہ 35 ہجری کو مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت عثمانِ غنی ؓ کی شہادت پر مسلمانوں میں فتنہ کا دروازہ کھل چکا تھا، آپ کے عہد خلافت میں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں۔ حضرت علی ؓ نجیب الطرفین ہاشمی، نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے عاشق، سر خیل اولیا اور خلیفہ چہارم ہیں۔ بحر علم وحکمت، مخزن سخاوت سلطان الشجاع، رہبر اولیا الله، مظہر العجائب، امام المشارق و لمغارب، رازدان شریعت و پیشوائے طریقت ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ،حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمانِ غنی ؓ کے زمانہ ہائے خلافت میں حضرت علی ؓ، اُن کے معتمد مشیر، دست و بازو رہے۔ خصوصاً حضرت عمر ؓ اہم معاملات میں آپ سے مشورہ لیتے تھے۔ حضرتِ علی ؓ حضرتِ عمر فاروق اعظم ؓ کے بہترین ہمدرد تھے۔ حضرتِ علی ؓ کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ آپ سوائے غزوہ تبوک کے تمام غزوات میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے ہمرکاب ہوئے۔ غزوہ بدر میں جوستر مشرکین مارے گئے، ان میں سے اکیس آپؓ کی تیغ سے قتل ہوئے تھے۔ غزوہ احد میں جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو کفار نے اپنے نرغے میں لیا تو اس وقت حضرت علی ؓ نے حضورِ اقدسؐ کے قریب پہنچ کر کفار پر شدید حملے کیے اور شجاعت کا بے مثل کارنامہ پیش کیا۔ غزوہ خندق میں جب عمر بن عبدود نے جو قوت اور بہادری میں سینکڑوں آدمیوں پر بھاری سمجھا جاتا تھا، مقابل صف عسکر اسلام ہوا، تو حضرتِ علیؓ اس کے مقابلے میں نکلے اور آپؓ کی ذوالفقار نے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے، عمر بن عبدود کے قتل سے دشمنانِ اسلام کی ہمت ٹوٹ گئی اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ خیبر کا قلعہ قمروص جب فتح نہ ہوسکا تو حضورِ اقدسؐ نے لشکرِ اسلام کاعلَم حضرت علیؓ کو عطا فرمایا، اُس وقت حضرت علیؓ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، حضورِ اکرمؐ نے اپنا لعاب مبارک لگا دیا، آشوبِ چشم جاتا رہا۔ آپؓ ایک ہی جست میں خندق کو پار کر کے قلعہ کے دروازے پر پہنچ گئے، اس کے ایک کواڈ کو ڈھال بنا کر لڑے اور قلعہ فتح کر لیا۔ آپؓ کے اس تحیر کن قوت کو دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔ حضرت علی کرم الله تعالیٰ وجہہٗ فرماتے ہیں: اگر میں جست لگاؤں تو آسمان تک پہنچ جاؤں یہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے لعاب مبارک ہی کی برکت تھی۔ آپ سخت جاڑوں کے موسم میں باریک قسم کے کپڑے استعمال کرتے تھے۔(شان صحابہ/صفحہ/120) حضرتِ علی ؓ، ذی الحجہ 35ہجری میں خلیفہ ہوئے اور 17رمضان المبارک 40ہجری کو شہید ہوئے۔ حضرتِ حسنین کریمین رضی الله تعالیٰ عنہ کے علاوہ آپؓ کی دیگر ازواج سے سولہ فرزند تھے۔ بعض نے تصریح کی کہ آپ کے کل انیس بیٹے اور 18بیٹیاں تھیں، چھ صاحبزادے آپ کی حیات ہی میں انتقال کر گئے باقی تیرہ میں سے چھ، یعنی حضرت عباس بن علی، حضرت عثمان بن علی، حضرت عمر بن علی، حضرت ابو بکر بن علی، حضرت ابو القاسم محمد بن علی، اور حضرتِ امام حسین کربلا میں شہید ہوئے۔ دنیا میں اس وقت صرف پانچ بیٹوں حسن، حسین، محمد بن حنیفہ، عباس، عمر سے آپ کی نسل چل رہی ہے۔
شہادت: 18رمضان المبارک 40ہجری کو حضرتِ علی ؓ جامع مسجد کوفہ میں تھے، شقی ازلی ابن ملجم خارجی نے اس شمع ہدایت پر جس کی حیات کا ایک ایک لمحہ نوع انسانی کے لیے مشعلِ راہ تھا، جو تقوی و پرہیز گاری، علم و معرفت میں یکتائے روزگار تھا، زہر آلود خنجر سے زخمی کیا اور یہ علم و فضل کا آفتاب 21رمضان المبارک کو غروب ہوگیا۔ آپؓ کا روضہ اقدس نجف اشرف میں فیوض ولایت محمدی کا مرکز اور اولیاء امت کا ملجا و ماوی ہے۔آپؓ فصاحت و بلاغت اور قادر الکلامی میں حضور اقدس ؐ کا عکسِ جمیل تھے ،آپ ؓکے اقوال اور خطبات اثر پذیری میں آپ اپنی مثال ہیں۔آپ ؓ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو نمایاں ہے۔ صبر و شکر، تسلیم و رضا، قناعت و توکل، جود و سخا، ایثار و رحم دلی، دلیری و شجاع، عادت و محاسن، اخلاق و اطوار، تزکیہ، تصفیہ، ریاضت و مجاہدات، کشف و کرامات، علم و تدبر، زہد و ورع، افہام و تفہیم، مدبر و مفکر ایسے بے شمار کمالات کے مالک ہیں جو بیان امکان سے ماورا ہے۔
[email protected]