حضرت شیخ حمزہ مخدوم ؒ ولی ۖ کامِل

محمد اشرف بن سلام

کشمیر کے عظیم المرتبت ولی حضرت شیخ حمزہ مخدومـ رحمتہ اللہ علیہ کا مزارِ اقدس شہرِ سرینگر کےکوہِ ماران پر واقع ہے۔جسے عرف ِ عام میں آستانہ ٔ مخدوم صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔حضرت شیخ حمزہؒ کشمیر کے ایک معروف روحانی بزرگ تھےاور سلطان العارفین کے نام سے مشہور ہیں۔ سلطان کا لغوی مطلب بادشاہ ہے اورالعارفین عارف کی جمع ، جس کا اصطلاحی معنی ہے اللہ کی معرفت رکھنے والا۔ اس لحاظ سے آٖپ کو سلطان العارفین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت شیخ حمزہ مخددم ؒ گراں قدر شان و عظمت کے مالک تھے ، آپؒ کے خدمت اقدس میں ایسے دانشور وں کی جماعت تھی،جو خود بھی آپ ؒ کے ارشادات سے فیض اُٹھاتےاور دوسروں کو بھی اس سے مستفید فرماتے تھے۔ان ہستیوں میں حضرت میر حیدرؒ،خواجہ حسن قاریؒ،حضرت بابا علی رینہ اور خاص کرحضرت بابا دائود خاکی ؒ قابل ذکرہیں۔
حضرت شیخ حمزہ مخددم رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت 900ھ کو تجر سوپور میں ہوئی اور آپ ؒکا نام حمزہ رکھا گیا۔حمزہ عربی میں شیر کوکہتے ہیں۔حضرت حمزہ نے اپنے داد اسے قرآن پاک کی تعلیم پائی اور اس کے بعد آپؒ کو سری نگر لایا گیا اور حضرت بابا اسماعیل زاہد ؒ کے سُپرد کرکے خانقائہ دار الشفاہ میں داخل کیا گیا۔اس وقت خانقاہ میں بابا فتح اللہؒ، اخوندملاّ درویشؒ حافظ عربی اور اخوند ملاّ لطف اللہ درس دیتے تھے۔یہ اپنے اس دور کے مشہور ومعروف بزرگ تھے۔حضرت مخددم نے علم تجوید، فقہ، حدیث، تفسیر ،ادب ودینیات اور عربی وفارسی کی پوری مہارت حاصل کی تھی۔ آپؒ نے کچھ عرصہ خانقاہ شمس چیک واقع کمانگر پورہ متصل جامع مسجد گزارا ۔ اُسی دور یعنی 932ھ میں حضرت سیدجمال الدین دہلوی البخاریؒ کشمیر تشریف لائے اور خانقاہِ ملک احمد یتو میں قیام فرمایا،یہیں پر حضرت شیخ حمزہ ؒکی روحانی تربیت فرمائی ۔
اس کے بعد حضرت حمزہ ؒ نے کچھ عرصہ مخدوم منڈو میں گزارااورپھر کشمیر کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے اقامت ِ دین اوراشاعت ِ اسلام کا فریضہ انجام دینے لگے۔ اس کے بعد آپؒ نے کوہِ ماراں (ہری پربت) کے جنوبی حصہّ میں تبلغ دین کیلئے پسند فرمائی ۔یہاں پر ارادت مند آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر ظاہری و باطنی تربیت و فیض حاصل کرتے تھے۔حضرت سلطان العارفینؒ کے ہم عصر اولیا اللہ میں حضرت شیخ یقوب صرفی ؒ، حضرت سی احمد کرمانی ؒ، حضرت خواجہ طاہر رفیقی ؒ اور حضرت مخدوم حاجی احمد قاریؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں اور آپ ؒ کے خلفاء میں حضرت ابوحنیفہ ثانی شیخ بابادائود خاکی ؒ ، حضرت ہردی باباریشی ؒ(ریشہ مالوصاحب)۔حضرت میر حید ر تولہ مولہ۔خواجہ حسن قاریؒ اور ملااحمد چاگلیؒ وغیرہ ہیں۔
ظاہر ہے کہ دنیا میں بہت سے ایسے دوستِ خدا آئےہیں ۔جنہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سنت نبویؐ کی خدمت میں وقف کردی تھی،انہیں حضرات نے لوگوں کے دلوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔اُنہی برگزیدہ شخصیات میں حضرت شیخ حمزہ مخددم کا نام بھی نمایاں ؒ ہے،جو خدمت کو راحت سمجھتے اور ایثار و محبت کو زند گی کا مقصد تصور کرتے تھے۔ زندگی گزارانے کا یہی اخلاقی درس ہمیں حضرت شیخ حمزہ ؒ سے ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء حق اور اہل عقلمند حضرات نے دوست کے دوست پر اثر کا ادراک کیا ہے، انہوں نے بہتر لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور بْرے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے ڈرایا ہے اور نیک ،پرہزگار اور متّقی حضرات کی صحبت اختیار کر نے پر زور دیا ۔؎
داغ بلند ان طلب اے ہوش مند
تاشوی از داغ بلنداں بلند
(ترجمعہ:’’ اے عقلمند بلند خیال لوگوں کی صحبت تلاش کر، تاکہ تم بھی بلند خیال لوگوں کی صحبت کی وجہ سے بلند ہوجائیں‘‘) ان حضرات کی صحبت دنیا اور آخرت میں بھلائی پھیلاتی ہے، اس کے پاکیزہ ثمرات اور مبارک نشانات ہیں۔حضرت مالک بن دینار ؒ فرماتے ہیں: ’’تم نیک لوگوں کے ساتھ پتھر منتقل کرو، یہ اِس سے بہتر ہے کہ تم بُرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر حلویٰ کھاؤ۔‘‘ حضرت ا بو الدرداء ؓ ارشاد فرماتے ہیں: ’’نیک انسان کی صحبت اکیلے رہنے سے بہتر ہے اور اکیلے رہنا بُرے دوست سے بہتر ہے۔ ولی کے معنی بھی دوست،رہنا،محسن اور مددگار ہے ۔ مگر آج کے اس پُر فتن دورِ میں کئی نانہاد درویش اور بے علِم لوگ نہ صرف اولیائے اللہ اور بزرگان کے متعلق بے جا باتیں کرتے ہیں بلکہ ایسی ایسی من گھڑت کہانیاں اور قصے سُناتے رہتے ہیں کہ ایک عام انسان تو کیا،ایک خاصا پڑھا لکھا انسان بھی اُلجھن اور مخمصے میں پڑکے حیران وپریشان ہوجاتا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ دورِ حاضر میں وادیٔ کشمیر میں بھی نام نہاد درویشوں اور مکار و جاہل پیروں کا ایک بہت بڑاحلقہ ہر نکڑ اور ہر کونے میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے، اور فریب کاری سے اپنی روٹی روزی کا چکر چلا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جن کسی شخص کو محنت و مشقت اور ایمان داری کے تحت کوئی کام کاج کرنے کا شوق اوروطیرہ نہیں رہا ہے ،وہ درویش اور پیر بن جاتا ہے ۔ہاتھ میں تسبیح اور انگلیوں میں دو چار انگوٹھیاںلگاکر سادہ لوح لوگوں اور عقل کے اندھوں کو لوٹنے میں مصروف ِعمل رہ جاتا ہے۔عقل و شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ بزرگان دین اور مکار زاہدوں میں کتنا فرق ہوتا ہے مگر عام لوگوں کو اس کا ادراک نہیں ہوتا اور اسی سبب وہ فوراً ان عیا رو مکارلوگوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں ۔
قارئین کرام ! خداوندِ کریم کے سامنے بہترین مخلوق بننے کی کوشش کرو اور نفس کے سامنے شدید ترین بنو ۔شرِ نفس سے بچنے کیلئے اپنی باطنی حالت اور روحانی قوت لوگوں کے نظروں سے چھپانے کی کوشش کرنا بزرگان دین کا طریقۂ کار رہا ہے،اور یہ پاک باز فرائض و سُنّن کے ساتھ ساتھ دوسری عبادات بھی ہمیشہ پوشید ہ طور اداکرتے آئے ہیں۔ اس کے برعکس رِیّاکار زُہد فروش اور مکار درویش ، لوگوں کی زبانی محض اپنی تعریفیں سُننے اور منافع کمانے کے لئے دین ِ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ان لوگوں کی عبادت بھی محض دِکھادے کیلئے ہوتی ہےاور ان کے مراقبے بناوٹی ہوتے ہیں،جنہیںوہ ورع، زُہد ،تقویٰ اور درویشی کے نام دیتے ہیں۔بلا شُبہ خداپرست لوگ اپنی عبادت کا سلسلہ اپنے اور خدا کے درمیان ہی پوشیدہ رکھتے ہیں، لیکن زاہدان مکار اپنی ریاضت کا ڈھنڈ ور اہر گلی کوچے میںپیٹتے رہتے ہیں۔
حضرت خواجہ بہائو الدین نقشبندؒ فرماتے ہیں کہ مرُشد کو خداوندکریم کے عشق کے بغیر ہر دِل چسپی سے دست بردار ہونا چایئے ۔حتیٰ کہ اپنے وجود کو بھی مرکز ِ توجہ نہ بنانا چایئے ۔مرید بنانے کی آرزو مرشد کیلئے سئم قاتل سے کچھ کم نہیں۔ یعنی جو پیر مرید بنانے کی تگ ودَو اور فکر میں ہو،وہ اولیائے کرام کی نظروں میں پیر نہیں شیطان ہے۔مرشد ِخدا پرست کو چائیے کہ اگر کہیں اس کے دل میں مرید بنانے کی آرزو پیدا ہوئی ہو تو اُس آرزو کو فوراً دِل سے نکالے اور اس خواہش اعیان سوز سے فوراً توبہ کرلے،خدا سے معافی مانگے اور دِل کو پاک وصاف کرے۔(دستورالسالکِین)
جب تک یہ دنیا قائم ر ہے گا ،ریاست جموں کشمیر کے دوعظیم المرتب شخصیتیں اپنے منفرد ، مخصوص اور معتبر مقام کی بدولت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر کے ساتھ جڑی رہیں گی۔ ایک حضرت شیخ العالم رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرےحضرت محبوب العالم رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ اس مردِ خدا اور شریعت ومعرفت کےبے بدل رہنما حضرت سلطان العارفینؒ نے تجرسے سرینگر تشریف لاکرکوہِ ماران کے دامن میں سکونت پذیر ہوئے اور آپ نے لوگوں کو جس قدرتربیت کی، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطا عت اور آخرت کی سرخروئی کے لئے کی تھی۔ حضرت علمدار کشمیرؒکے اشعار سے مضمون اختتام پذیرکرتاہوں۔ ؎
کُس ییہ ژِے کُن بے غرضہ یے
کس اسہ دِلس ثیووّسحت
جنتکہ ہاوّسہ تہ دوزِخنہ بیئے
دیہ ِچھی کران عبادت
حضرت مخدومؒ صاحب کے کرامت مثال وصال کی تاریخ حضرت شیخ دائودؒ کے ان اشعار سے نکلتی ہے۔(شیخ حمزہ مرشد والا گہر٭فوت شد دربست و چارم از صفر٭رفت اکمل یافت فضل کردگار٭عاقبت درنہ صد دہشتاد و چار)۔’’بلند مرتبہ مرشد شیخ حمزہ صفر کی 24 کو وفات پا گئے۔ وہ کمال پا کر گئے اور آخر984 (23اپریل1576ء) میں فضل کاردگار سے بہرہ ور ہوئے‘‘۔ا سی عقیدت کے ساتھ یہ دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مقدس بندہ اور راہ حق کے عظیم مجاہدکے فیوض حیات بخش کو تاقیام قیامت جاری رکھےاوروادی کشمیر کے تمام لوگوں کو پریشانیوںاور مصائب سے آزاد کرادے ۔ ائے اللہ تمہارے بغیر ہمارا کوئی نہیں ہے، ہمیں توحید و سنت ِرسول رحمتؐ کے ساتھ ساتھ صالحین واولیاء کاملین کی اتباع کی توفیق عنایت فرما۔ آمین
( اُوم پورہ بڈگام ،رابطہ۔ 9419500008)