حصولِ حقوق کے لیے جدوجہد کرتی خواتین عزم و اسقلال

سریتا دانو

چند ماہ قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے باپ کی جائیداد پر بیٹیوں کا حق دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے مطابق باپ کی جائیداد میں بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کسی شخص کے، اس کی موت سے پہلے اس کی کوئی وصیت نہیں ملتی ہے تو اس کی موت کے بعد بیٹوں اور بیٹیوں میں جائیداد کی مساوی تقسیم ہوگی۔ جبکہ اس سے قبل جائیداد متوفی کے بیٹے اور اس کے بھائی کے بیٹوں میں تقسیم ہوتی تھی۔یہ سن کر یقیناً حیرت ہوتی ہے کہ اب تک ملک کے کچھ مذہب میں خواتین کو ان کے پدرانہ جائیداد سے باہر رکھا جاتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 21ویں صدی کے جدید ہندوستان میں خواتین اب بھی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اسے تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے بھی معاشرے کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تاہم شہروں میں ان کے حقوق کافی حد تک حاصل ہیں۔
لیکن ان کی جدوجہد آج بھی ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں کس طرح جاری ہے اس کی ایک مثال کپکوٹ بلاک کا کرمی گاؤں ہے۔ جو اتراکھنڈ کی پہاڑی ریاست میں باگیشور ضلع سے 10 کلومیٹر دور واقع ہے۔ جہاں قدامت پسند عقائد اور روایات کے نام پر لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے تعلیم میں ترجیح دی جاتی ہے جبکہ لڑکیوں کو پرائی دولت کے نام پر علم حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیاں پوری طرح تعلیم حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔گاؤں میں پرائمری اور سیکنڈری سطح پر دو اسکول کام کر رہے ہیں۔ لیکن اساتذہ کی عدم موجودگی میں یہاں اچھی تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان سکولوں میں اس وقت ضرورت سے کئی گنا کم اساتذہ تعینات ہیں۔ جو اساتذہ تعینات ہیں ان کے کندھوں پر بچوں کو تمام مضامین پڑھانے کے ساتھ ساتھ دفتر سے متعلق فائلوں کو روزانہ اپ ڈیٹ کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایسے دباؤ والے ماحول میں استاد سے معیاری تعلیم فراہم کرنے کی توقع بے کار ہو جاتی ہے۔ اس کا براہ راست اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے، کیونکہ والدین لڑکوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کیریئر بنانے کے لیے شہر بھیجتے ہیں، جبکہ لڑکیاں انہی اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ تاہم اس وقت گاؤں میں کچھ لڑکیاں ایسی ہیں جو اچھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے میلوں دور جاتی ہیں۔ جن کی آدھی توانائی صرف اسکول جانے میں صرف ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتی۔ کچھ پڑھے لکھے اور باشعور والدین گاؤں سے 21 کلومیٹر دور کپکوٹ بلاک میں سرکاری زیر انتظام کستوربا گاندھی گرلز ریزیڈنشیل اسکول میں بیٹیوں کو پڑھا رہے ہیں۔ لیکن گاؤں کی تمام لڑکیوں کو یکساں طور پر یہ موقع ملنا ممکن نہیں ہے۔
اس حوالے سے گاؤں کی ایک نوعمرلڑکی گیتا بتاتی ہیں کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے، پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ رقص، موسیقی اور بنائی جیسے فنون میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن وہ ان مہارتوں سے محروم ہے کیونکہ اسے گاؤں میں ان تمام چیزوں کی تربیت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اسی گاؤں کی ایک اور لڑکی بھاونا کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ خود انحصاری اور نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بنانے سے متعلق بہت سی اسکیمیں حکومت کی طرف سے چلائی جاتی ہیں، لیکن وہ اسکیمیں نہ تو ہم تک پہنچتی ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی نوعمر لڑکیاں اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک دن اس نے گاؤں کے پردھان سے منصوبوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے صاف الفاظ میں کہا کہ یہ سب جان کر تم کیا کرو گی؟ یہ سب مردوں کا کام ہے۔ بھاونا یہ سب سن کر بہت دکھی ہوئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی اسکیمیں ہیں، جن کی فکر صرف مردوں تک محدود ہے؟
بھاونا، جوآئی اے ایس بن کر انتظامی خدمات میں شامل ہونے کی خواہشمند ہے، کہتی ہیں کہ جب انھوں نے گاؤں والوں سے پردھان کے جواب پر بات کی، تو کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا کہ آیا سرکاری اسکیمیں نوعمر لڑکیوں اور خواتین سے متعلق نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں۔ ایسے میں گاؤں میں اسکول کی بہت ضرورت ہے، جہاں سب کو یکساں تعلیم حاصل ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ میری طرح گاؤں کی بہت سی لڑکیاں ہیں جو پڑھنا چاہتی ہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش ادھوری رہ گئی ہے۔اس نے کہا کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے نہ صرف معاشرہ بیدار ہوگا بلکہ کئی قسم کی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر حیض والی خواتین اور نوعمر لڑکیوں سے جڑی غلط فہمی کے بارے میں۔ جنہیں اس دوران اچھوت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں آج بھی اسے گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس دوران نہ صرف ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے بلکہ اس دوران انہیں گھر کی بجائے گوشالہ میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔تاہم ملک کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم جیسے بنیادی حقوق کی جدوجہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج بھی پدرانہ معاشرے میں خواتین مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 72 سال پہلے آئین کے ذریعے خواتین کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً مرکز سے لے کر تمام ریاستی حکومتیں خواتین کو بااختیار بنانے کی اسکیمیں چلاتی رہتی ہیں، اس کے باوجود عورتوں اور مردوں کے درمیان یہ امتیازی فرق اتنا وسیع کیوں ہے؟ دراصل حقوق فراہم کرنے اور اسکیموں کو چلانے سے مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بیداری ضروری ہے اور یہ صرف تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے کہ معاشرہ جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ باشعور ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں اس کی کمی ہو وہاں خواتین اپنے حقوق کے لیے لڑتی نظر آئیں گی۔
(رابطہ 9350461877)
<[email protected]>