حج۔دلوں کا سفر فکرو فہم

ڈاکٹر عبیدالرحمٰن ندوی

حج اسلام کا آخری ستون ہے۔ ’’لغوی اعتبار سے حج کا مطلب کسی مقام پر زیارت کے لئے جانا ہوتاہے، اور شریعت اسلامی کی اصطلاح میں، یہ بیت اللہ جاکر مقدس مقامات پر ضروری مناسک کی ادائیگی پر دلالت کرتاہے‘‘۔ (سیرت النبی ، جلد ۵، صفحہ ۱۱۷)
حج ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعہ انسان ایک فیاض ذات کے روبرواپنی محکومی اور غلامی کا مظاہرہ اور اپنی عاجزی، مسکنت اور انکساری کا اظہار کرتاہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حج درجات اور فضائل میں دوسرے ارکان اسلام کے مقابلے کہیں زیادہ فوقیت رکھتاہے۔کیونکہ سفرِ حج میں بدنی اورمالی دونوں طرح کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حجاجِ کرام اس مبارک سفر سے واپسی تک عبادت ودعا میںکھوئے رہتے ہیں۔ حج کسی آدمی یاعورت کی زندگی میں اگر وہ سفر مکہ کے اخراجات برداشت کرنے کی اہلیت رکھتاہے صرف ایک بار فرض ہے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (آل عمران: ۹۷) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ سے پوچھا:’’حج کوکیا چیز فرض کرتی ہے؟‘‘۔ آپؐ نے جواب دیا:’’سفر اورنقل وحمل کے اخراجات کا مہیا ہونا‘‘۔ لہذٰا اگر کوئی وسائل ہونے کے باوجود حج ادا نہیں کرتاہے تو وہ سچا مسلمان نہیں ہے بلکہ ایک دغاباز اور فریبی ہوتاہے۔

 

 

خلیفۂ راشد حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ایسا شخص جسے اللہ نے ادائیگی حج کے لئے کافی نوازا ہو اور وہ بیت اللہ تک اخراجات برداشت کرنے کی اہلیت رکھتاہو ، پھر بھی وہ ایسا نہ کرے پھر ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتاہے کہ بطورایک یہودی کے مرتا ہے یا بطور ایک عیسائی کے۔ اور ایسا اس لئے ہے کیوکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (ترمذی)

 

 

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پورا سفرِ حج ہی عقیدت کا ایک قالب ہوتاہے۔ یہ حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہما السلام کی یاد میںمنایاجاتاہے۔ انسان سفرِ حج سے یہ بخوبی جان سکتاہے کہ قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سے کس چیز کا مطالبہ کرتاہے؟ یہ ہمیں خودسپردگی اور اطاعت کی اہمیت اور معنویت بتاتاہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے اعمال وافعال سے اس قدر خوش ہوا کہ اسے اسلام کی پانچ بنیادی ارکان میں شامل کرکے مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا گیا کہ وہ اس قربانی کو یاد کریں۔حج میں مسلمان اپنے خالق اور رازق کے لئے مکمل خودسپردگی اور نذر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ احرام (ایک بغیر سلا ہواتولیہ جو دورا ن حج جسم پر لپیٹاجاتاہے) پہن کر وہ خود کو بارگاہِ الٰہی میںتلبیہ پڑھتے ہوئے پیش کرتے ہیں۔ تلبیہ: لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعم لک والملک، لا شریک لک۔(اے اللہ! میں تیرے سامنے حاضر ہوں! تیرا کوئی شریک نہیں! تمام تعریف بس تیرے لئے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی ہیں! تیری ہی شوکت اوربادشاہی ہے! تیرا کوئی شریک نہیں!)

 

 

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’حج کی سب سے نمایاں اور دلکش تصویر او ر وہ روح جو اس کے تمام اعمال ومناسک میںجاری وساری نظر آتی ہے وہ عشق وشوریدگی ، مرمٹنے اور قربان ہوجانے کا جذبہ ہے، اس میںجسم وعقل کی لگام دل وجذبات کے حوالہ کردی جاتی ہے اور عشاق ومحبین اور ان کے امام وپیشوا ابراہیم خلیل اللہ کی ہرہرادا کی نقل کی جاتی ہے ۔ کبھی بیت اللہ کے طواف کا شوق ہوتاہے ، کبھی حجر اسود کا بوسہ، کبھی صفاومرہ میں ماں کی مامتا اور جوش اضطراب کی اس طرح نقل کی جاتی ہے کہ جہاں وہ دوڑی تھیں اس جگہ دوڑاجاتاہے اور جہاں وقار ومتانت کے ساتھ چلی تھیں وہاں اسی طرح چلاجاتاہے ، پھر یوم الترویہ میں منیٰ روانگی کا حکم ہے، اس کے بعد عرفات کے میدان اور پہاڑی کے دامن میں ٹھیرنا اور دل کھول کر اور روروکر دعاومناجات کی ہدایت ہے۔ رات مزدلفہ میں گزاری جاتی ہے اور اس کے بعد منیٰ واپسی ہوتی ہے اور یہ حضرات ابراہیمؑ اور حضور ﷺ کی تقلید وپیروی میں کیاجاتاہے‘‘۔
مولانا مزید فرماتے ہیں: ’’لیکن اس عشق ومحبت اور تقلید ونقل کی سب سے واضح تصویر رمی جمرات ہے جو صرف ایک ایسے فعل کی تقلید ہے جو حضرت ابراہیمؑ سے صادر ہواتھا، عشاق ومحبین کی تقلید ایک متعدی طاقت ہے ، اس کی نقل کرنے والے میں بھی وہی جذباتِ محبت منتقل ہوجاتے ہیں اور گویا بجلی کے سوئچ یا پاور ہاؤس سے اس کا تعلق ہوجاتاہے جس سے تمام تاروں میں بجلی دوڑ جاتی ہے اور پورے پورے شہر کو جگمگا دیتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کو متوجہ کرنے کا بہترین اور بہت مؤثر ذریعہ ہے ، جس نے اس محبت کا مزہ چکھا ہے اس کے لئے اس منظر سے زیادہ پرکیف اور دلفریب منظر کوئی اور نہیں ہوسکتاہے، جب وفاشعار اور جاں نثار عشاق ومحبین اس کہانی کو دہرانے اوران واقعات کی نقل کے لئے اس سرزمین پر جمع ہوتے ہیں جو ہزاروں سال پیشتر پیش آئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بقادوام اور قبول عام عطافرمایا اور تمام مخلصین ومحبین سے اس کا مطالبہ کیا کہ وہ شیطان کو ذلیل کرنے، ایمان کو مضبوط کرنے ، اور ابراہیم خلیل الرحمن کی اقتدا وپیروی کے جذبہ کے ساتھ ساری کہانی اسی طرح دہرایاکریں‘‘۔ (ارکان اربعہ: صفحہ ۳۰۷-۳۰۸)

 

 

یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ حج اتحاد، یکجہتی، بھائی چارہ، اخوت اور مساوات کو فرو غ دیتاہے۔ پروفیسر ہٹی کہتے ہیں:’’مختلف ادوار میںیہ دستوراسلام میںبطور ایک متحد کرنے والے اثر کے اور مختلف مومنین کے مابین مؤثر ترین رشتہ کے جاری رہاہے۔یہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ سفر کو لازم قرار دیتاہے۔روئے زمین کے دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے ملت اسلامیہ کے ایسے اجتماع کے سماجی اثر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ حبشیوں ، بربریوں، چینیوں، ایرانیوں، شامیوں، ترکیوں، امیر اور غریب ، اعلی اور ادنیٰ کے اخوت قائم کرنے اور مشترک مذہبی بنیاد پر ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کا ایک موقع فراہم کرتاہے‘‘۔ (History of the Arabs, P. 136)
ہم ہارورڈ اسٹڈی کے حوالے سے حج کی اہمیت ومعنویت کو مزید سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے Harvard Kennedyاسکول کے زائرین حج کے ایک مطالعہ میں پایاگیا کہ حج زائرین کے مابین تحمل کو فروغ دیتاہے اور مغرب کے تئیں منفی سوچ میں اضافہ کا سبب نہیں بنتاہے۔ اسٹڈی بعنوان “Estimating the Impact of the Hajj: Religion and Tolerance in Islam’s Global Gathering” کا کہنا ہے کہ سالانہ زیارت زائرین کے مابین دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے تئیں ایک متحمل سوچ کو فروغ دیتی ہے۔ دلائل شاہد ہیں کہ حج تحمل کو بڑھاوادیتاہے جو نہ کہ صرف یہ کہ عالم اسلام پر لاگوہوتاہے بلکہ اس کے ماوراء بھی، مزید یہ کہ اتحاد کایہ اضافہ غیر مسلموں کے تئیں ناپسندیدگی کا محرک نہیں بنتاہے۔
مزید برآں حج زائرین کو پاکیزہ، گناہوں سے مبرا اور بے داغ بناتاہے۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے:’’جوحج ادا کرتاہے اور اس دوران کسی شہوانی عمل کا مرتکب نہیںہوتاہے ، اللہ کی کسی طرح کی نافرمانی نہیںکرتاہے تو وہ واپس اس طرح ہوتاہے اتنا ہی پاکیزہ اور گناہو ںسے مبرا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا‘‘۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشا د ہے:’’حج اور عمرہ بار بار ادا کرو، کیونکہ دونوں حج اور عمرہ غربت اور گناہوں کو ایسے ہی ختم کرتے ہیں جیسے بھٹی سونے ، چاندی اورلوہے کے غیر صالح اجزاء کو ختم کرتی ہے ، اور ایک پاک اور پرخلوص حج کا اجر سوائے جنت کے کچھ نہیں ہے‘‘ ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ پیغمبر محمد ﷺ سے پوچھا گیا:’’بہترین عمل کون سا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنا‘‘۔ پھر آپؐ سے پوچھاگیا:’’اگلا کون سا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔ پھر آپؐ سے پوچھا گیا:’’پھر کون سا؟‘‘ ۔ آپؐ نے فرمایا:’’حج مبرور کی ادائیگی‘‘۔
یہ لازمی ہے کہ ہمیں اس نیک سفر کے لئے اور اس سے اللہ کا فضل حاصل کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ علاوہ ازیں ہمیں اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ۔ یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا عظیم ترین مظہر ہے ۔ یہ ہمیں بے ہودہ اعمال اور غیر پاکیزہ افعال سے دور رکھتاہے۔ حج ہمیں یہی پیغام دیتاہے اور ہمارے ایمان واعتقاد کو جلا بخشتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مبارک سفر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
[email protected]>