حالیہ برف باری اور مکرّر تجربہ

وادی میں چند روزقبل ہوئی برف باری نے ایک بار پھر شہر سرینگر میں ناقص ڈرینج سسٹم کی قلعی کھول کررکھ دی کیونکہ محض چند گھنٹوں کی برف باری سے نہ صرف پورا شہر پانی پانی ہوا گیا بلکہ بجلی سپلائی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا۔برف کے پانی سے نہ صرف سڑکیں اور گلی کوچے زیر آپ آگئے تھے بلکہ شہر کے سیول لائنز اور بالائی حصے میں بیشتر اور پائین شہر کے متعدد علاقوں میں پانی رہائشی مکانات اور تجارتی مراکز میں داخل ہونے لگاتھا۔ہر سو پانی جمع ہونے کے نتیجہ میں صورتحال اس قدر سنگین بن چکی تھی کہ کئی علاقوں میں عبور و مرور ناممکن بن چکا تھا۔ہر بار کی طرح اب کی بار بھی انتظامیہ کے اہلکاروں اور انجینئروں کو’’حالت جنگ میں خندق کھودنے ‘‘کے مصداق کئی مقامات پر ڈی واٹرنگ پمپ نصب کرتے ہوئے دیکھا گیا تاکہ شہر کو پانی پانی ہوتے دیکھ کر خود پانی پانی ہونے سے بچ سکیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیں کہ ’’قدرت‘‘کے سامنے بے بس وہ اپنی طرف سے لوگوں کو راحت دینے کے بھرپورجتن کررہے ہیںتاہم اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر لیپا پوتی کا یہ عمل قطعی طور کسی کو متاثر نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اب یہ متعلقہ انتظامیہ کا معمول بن چکا ہے ۔ 1980میں ڈرینج سسٹم سے منسلک محکمہ ،جسے اربن اینوائرنمنٹل انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ ( UEED)پکا را جاتا ہے ،کے قیام کے ساتھ ہی اس محکمے نے شہر سرینگر میں ڈرینج سسٹم اور انتظام بدرو کیلئے ایک جامع پروجیکٹ رپورٹ تیار کرلیا جسے عملانے کیلئے حکومت کی منظوری بھی ملی تھی ۔118کروڑتخمینہ کے اس پروجیکٹ کو دس یا گیارہ سال میں مکمل ہونا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔21سال بعد یعنی2001میں حکومت نے اسی پروجیکٹ کوکئی گنا زیادہ اخراجات کے تخمینہ کے ساتھ اپ گریڈ کرکے اس کو عملانے کی منظوری دے دی ۔اس تجدید شدہ پروجیکٹ کے مطابق شہر سرینگر میں نقائص سے عاری ڈرینج سسٹم 2002-03تک مکمل ہونا تھاجبکہ انتظام بد رو کیلئے جون2010کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی ۔اس کے بعد بھی ڈیڈلائن آتی اور جاری رہیں لیکن پروجیکٹ کبھی مکمل نہیںہوپایا۔اس پروجیکٹ پر کتنا کام ہوا ہے،اس کا اندازہ سب کو کل کی برف باری سے پھر ہوا ہوگا۔ یہ ستم ظریقی نہیں تو اور کیا ہے کہ 22برسوں میں نکاسی آب کا نظام شہر میں ٹھیک نہیںہوسکا ہے اور ہم سرینگر کو ملک کے بہترین شہروں میں گننے میں پس وپیش سے کام نہیں لے رہے ہیں۔2005میں جموں اور سرینگر میونسپل کارپوریشن اور قصبہ جات میں میونسپل کونسلوں کے قیام کے بعد ڈرینج سیکٹر ان کارپوریشنوں اور کونسلوں کی تحویل میں دیا گیاجبکہ یو ای ای ڈی کے ذمہ صرف سیوریج کا کام رکھا گیا تاہم یہ دونوں محکمے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آں ہونے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور جواہر لعل نیشنل اربن رنیو ل مشن پروگرام کے تحت گریٹر سرینگر پروگرام کے تحت نکاسی آب اور انتظام بد رو کیلئے اربوں روپے صرف کرنے کے باوجود زمینی صورتحال بدلنے کانام نہیں لے رہی ہے ۔اب تو سرینگر کو سمارٹ سٹی کا درجہ دیاگیااور سمارٹ سٹی منصوبہ کے تحت بیک وقت درجنوںمنصوبوںپر کام چل رہا ہے تاہم اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق شہر کی حالت ہے کہ بدلنے کانام نہیں لے رہی ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ و ہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے باہر آکر شہری آبادی کو درپیش مشکلات کے ازالہ کیلئے عملی اقدامات کرے تاکہ حکام کو ہر بار بارش کے وقت شہر کو پانی پانی ہوتا دیکھ کر خود بھی پانی پانی نہ ہونا پڑے۔