جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی سرفہرست 10 معیشتیں تجارت

عمیر حسن
مجموعی قومی پیداوار (GDP) کو عام طور پر کسی بھی ملک کی معیشت کے سائز کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مخصوص مدت کے دوران(عموماً ایک سال) ملک کے اندر تیار شدہ مصنوعات اور خدمات کی کل قیمت کا تخمینہ ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں، ممالک کے جی ڈی پی میں مختلف اقتصادی سائیکل کے مراحل کے ساتھ اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، تاہم اس کے باوجود جی ڈی پی کے حساب سے سرفہرست معیشتیں اپنی طویل مدتی اقتصادی ترقی سے آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔ 2021ء کا دستیاب سالانہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ممالک نے کووڈ-19وبائی مرض کے اثرات سے باہر نکلنا شروع کیا۔ عالمی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید متاثر کیا تھا۔
اس کے نتیجے میں توانائی کی قیمتوں، سیاحت اور تجارتی حجم میں کافی کمی دیکھی گئی تھی۔ دنیا بھر کے تقریباً تمام ممالک نے 2020ء میں اپنے جی ڈی پی میں ریکارڈ توڑ کمی کا سامنا کیا۔ دنیا کی سرفہرست معیشتوں کی اکثریت نے 2020ء میں جی ڈی پی کی منفی نمو کا تجربہ کیا، لیکن 2021ء کے جی ڈی پی نمبرز نے معاشی بحالی ظاہر کی۔ ذیل میں بغیر افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ، موجودہ قیمتوں کے حساب سے جی ڈی پی (Nominal GDP) کی بنیاد پر دنیا کی سرفہرست معیشتوں کا ذکر ہے۔
امریکا : امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی جی ڈی پی میں سب سے بڑا شراکت دار خدمات کا شعبہ ہے، جس میں فائنانس، رئیل اسٹیٹ، انشورنس، پیشہ ورانہ اور کاروباری خدمات اور صحت کی سہولتیں شامل ہیں۔ امریکا کی معیشت نسبتاً اوپن ہے، جو ملک میں لچکدار کاروباری اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ دنیا کی غالب جیو پولیٹکل طاقت ہے اور دنیا کی بنیادی ریزرو کرنسی (Dollar) جاری کرنے والے ملک کے طور پر ایک بڑے بیرونی قومی قرض کو برقرار رکھنے کے قابل ہے۔ امریکی معیشت بہت سی صنعتوں میں ٹیکنالوجی کے معاملے میں سب سے آگے ہے، لیکن اسے معاشی عدم مساوات، صحت کی سہولیات اور سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور بگڑتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کی صورت میں خطرات کا سامنا ہے۔
چین : نومنل جی ڈی پی کے حساب سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جبکہ پرچیزنگ پاور پیریٹی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑی معیشت ہے۔ اپنی سالانہ ترقی کے ساتھ چین آنے والے سالوں میں نومنل جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ چین نے گزشتہ چار دہائیوں میں اپنی معیشت کو بتدریج اوپن کیا ہے، اس کی اقتصادی ترقی اور معیار زندگی میں بہت بہتری آئی ہے۔
چونکہ حکومت نے بتدریج اجتماعی زراعت اور صنعت کو ختم کیا ہے، اس نے مارکیٹ کی قیمتوں کے لیے زیادہ لچک کی اجازت دی اور کاروبار کی خودمختاری میں اضافہ کیا ہے۔ اس سب کی وجہ سے غیر ملکی اور ملکی تجارت اور سرمایہ کاری شروع ہو گئی ہے۔ گھریلو مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرنے والی صنعتی پالیسی کے ساتھ مل کر اس نے چین کو دنیا کا نمبر ایک برآمد کنندہ ملک بنا دیا ہے۔ ان فوائد کے باوجود، چین کو کچھ اہم چیلنجوں کا سامنا ہے، جیسے کہ تیزی سے بڑھاپے کی طرف جاتی آبادی اور شدید ماحولیاتی انحطاط۔
جاپان : جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ 2018ء میں اس کا جی ڈی پی5 ٹریلین ڈالر کا ہندسہ عبور کر گیا۔ حکومت اور صنعت کے درمیان مضبوط تعاون اور جدید تکنیکی صلاحیت نے مینوفیکچرنگ اور برآمدات پر مبنی جاپانی معیشت کو بنایا ہے۔ بہت سے بڑے جاپانی کاروبار آپس میں جڑی ہوئی کمپنیوں کے نیٹ ورک کے طور پر منظم ہیں، جنہیں کیریٹسو (keiretsu)کہا جاتا ہے۔
ملک میں 1990ء کی دہائی کی معاشی مشکلات اور عالمی کساد بازاری کے اثرات کے بعد، جاپان نے حالیہ برسوں میں سابق وزیر اعظم شنزو آبے کی پالیسیوں کے تحت ترقی میں اضافہ دیکھا ہے۔ تاہم، جاپان قدرتی وسائل کے لحاظ سے مالا مال نہیں ہے، خاص طور پر 2011ء کے فوکوشیما حادثے کے بعد جوہری توانائی کی صنعت بند ہونے سے اس کی توانائی کا انحصار درآمدات پر ہے۔ اس کے علاوہ، جاپان کو بھی تیزی سے عمر رسیدہ آبادی میں اضافے کا سامنا ہے۔
جرمنی : جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ جرمنی دنیا بھر میں گاڑیوں، مشینری، کیمیکلز اور دیگر تیار کردہ سامان کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور اس کے پاس انتہائی ہنر مند افرادی قوت ہے۔ تاہم جرمنی کو اپنی اقتصادی ترقی کے لیے آبادیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جرمنی میں کم شرح پیدائش اس کی عمر رسیدہ افرادی قوت کو تبدیل کرنا زیادہ مشکل بناتی ہے، اور اس کی امیگریشن کی اعلیٰ سطح ملک کے سماجی بہبود کے نظام پر دباؤ ڈالتی ہے۔
یونائیٹڈ کنگڈم : انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل یونائیٹڈ کنگڈم (UK) دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ عمومی طور پر یونائیٹڈ کنگڈم کی معیشت اپنے بڑے خدمات کے شعبے سے چلتی ہے، خاص طور پر فنانس، انشورنس، اور کاروباری خدمات۔ یورپ کے ساتھ UK کے وسیع تجارتی تعلقات 2016ء میں یورپی یونین (EU) کو چھوڑنے کے لیے بریگزٹ کی قرارداد پر ڈالے گئے ووٹ کے بعد سے بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ UK سرکاری طور پر اب یورپی یونین کا رکن نہیں ہے، لیکن دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات پر مذاکرات جاری ہیں۔
انڈیا : ویسے تو انڈیا دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے لیکن اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے فہرست میں اس کا فی کس جی ڈی پی سب سے کم ہے۔ انڈیا کی معیشت ترقی پذیر جدید صنعت اور مشینی زراعت کے ساتھ روایتی کاشتکاری اور دستکاری کا مرکب ہے۔ انڈیا ٹیکنالوجی خدمات اور کاروباری آؤٹ سورسنگ کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے اور خدمات کا شعبہ اس کی اقتصادی پیداوار کا بڑا حصہ بناتا ہے۔ 1990ء کی دہائی سے انڈیا کی معیشت کو لبرلائز کرنے سے معاشی نمو میں اضافہ ہوا ہے، لیکن غیر لچکدار کاروباری ضابطے، وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور مسلسل غربت نے جاری وسعت کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔
فرانس : فرانس ایک مخلوط معیشت ہے جس میں صنعتوں کی متنوع رینج میں بہت سے نجی اور نیم نجی کاروبار ہیں۔ تاہم، ابھی بھی بعض اہم شعبوں، جیسے کہ دفاع اور بجلی کی تیاری میں حکومت کی کافی شمولیت موجود ہے۔ فرانس کی معیشت میں سیاحت ایک اہم صنعت ہے۔ کسی بھی ملک کے مقابلے میں ہر سال سب سے زیادہ سیاح فرانس کا رُخ کرتے ہیں۔ سماجی مساوات کے حق میں معاشی مداخلت کے لیے فرانسیسی حکومت کی وابستگی بھی معیشت کے لیے کچھ چیلنجز پیدا کرتی ہے، جیسے کہ زائد بےروزگاری کے ساتھ سخت لیبر مارکیٹ اور دوسری ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں ایک بڑا عوامی قرض۔
اٹلی : اٹلی، یورو زون کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ یہ دنیا کی 10سرفہرست معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔ شمال اور پسماندہ جنوبی علاقوں میں زیادہ ترقی یافتہ، صنعتی معیشت کے ساتھ اٹلی کی معیشت اور ترقی کی سطح خاص طور پر خطے کے لحاظ سے مختلف ہے۔
اٹلی کو بہت زیادہ عوامی قرضوں، غیر مؤثر عدالتی نظام، کمزور بینکنگ سیکٹر، نوجوانوں کی بے روزگاری کے ساتھ غیر مؤثر لیبر مارکیٹ، اور ایک بڑی پوشیدہ معیشت کی وجہ سے مسلسل سست اقتصادی ترقی کا سامنا ہے۔
کینیڈا : کینیڈا دنیا کی نویں بڑی معیشت ہے۔ کینیڈا میں دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ثابت شدہ تیل کے ذخائر کے ساتھ ساتھ انرجی ایکسٹریکشن کا انتہائی ترقی یافتہ شعبہ ہے۔ کینیڈا میں مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے بھی متاثر کن ہیں، جو زیادہ تر امریکی سرحد کے قریب شہری علاقوں میں واقع ہیں۔ امریکا کے ساتھ کینیڈا کے آزاد تجارتی تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ کینیڈا کی تین چوتھائی برآمدات ہر سال امریکی مارکیٹ کی طرف جاتی ہیں۔ کینیڈا کے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے اس نے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے متوازی طور پر ترقی کی ہے۔
جنوبی کوریا : جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی سرفہرست 10 معیشتوں کی فہرست میں جنوبی کوریا بھی موجود ہے۔ جنوبی کوریا کی معیشت 20ویں صدی کی کامیابی کی کہانی ہے جو آج مضبوطی سے ایک ترقی یافتہ صنعتی معیشت کے طور پر قائم ہے۔ جنوبی کوریا جو برآمدات پرمبنی ترقی کی حکمت عملی اور اپنے بڑے کاروباری گروہوں کے غلبے کے لیے جانا جاتا ہے، اس نے حالیہ دہائیوں میں آزاد تجارتی معاہدوں کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے جس میں 58 ممالک شامل ہیں جو کہ دنیا کی جی ڈی پی کے تین چوتھائی سے زیادہ کا حصہ ہیں۔
جنوبی کوریا الیکٹرانکس، ٹیلی کمیونیکیشن آلات اور گاڑیوں کا ایک بڑا پروڈیوسر اور برآمد کنندہ ہے۔ تاہم، اس پیش رفت کے ساتھ، جنوبی کوریا کو بھی اب کچھ انہی چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے بہت سی دوسری ترقی یافتہ معیشتیں نمٹ رہی ہیں، بشمول سست ترقی اور عمر رسیدہ افرادی قوت۔
�������������������