جی۔ 20کا حالیہ اجلاس اورعوامی اُمیدیں حال و احوال

سیّد انیس الحق۔پونچھ
بلا شبہ کشمیر میں منعقدہ جی20 ٹورازم ورکنگ گروپ کا حالیہ اجلاس جموں و کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا اور کامیاب اجلاس رہا جو عالمی سطح کا تھا ۔اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اجلاس میں شامل ہوئے دنیا کے مختلف ممالک سے آئے مندوبین نے دنیا میں جنت تصور کی جانے والی وادی ِکشمیر کی خوبصورتی اور یہاں کی ثقافت، طرز زندگی کا نہایت ہی باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔واقعی کشمیر میں منعقدہ یہ اجلاس کشمیر کی سیاحتی،ثقافتی اور اقتصادی ترقی کیلئے سومند ثابت ہوگااور وادی کی طرف اس اجلاس کی وجہ سے عالمی سیاحوں کی توجہ مزید بڑھے گی۔ وادی کے علاوہ جموں و کشمیر میں بیشتر ایسے سیاحتی مقامات موجود ہیں،جہاں سالانہ سیاحوں کی آمد نہ کے برابر ہے۔ایسے میں سوال ابھر رہاہے کہ کیایو ٹی کی گرمائی دارالسلطنت سرینگرمیں منعقدہ اس اجلاس کا اثر جموں و کشمیر کے دیگر سیاحتی مقامات پر پڑے گا؟کیا یہ علاقے جو آج تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، وہ عالمی سیلانیوں کی توجہ کا مرکز بن پائیں گے؟آج بھی اپنے قدرتی حسن سے مالا مال سرحدی ضلع پونچھ اور راجوری پر مشتمل خطہ پیر پنجال کی دلکش پہاڑیاں اور مرگ عالمی سیاحتی مرکز بننے کے منتظر ہیں۔یہاں کی آب و ہوا، خوبصورت جھرنے، قد آور درخت دلفریب اوردیدہ زیب ہیں۔ لیکن پیر پنجال کےیہ حسین نظارے اور عظیم شا ہکار انتظامیہ کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ خطہ پیر پنجال کا اگر ایک سیاحتی سروے کیا جائے تو تقریباً دونوں اضلاع کا ہر گاؤں سیاحت کو فروغ دینے کے لائق ہے، اگر یہاں سیاحتی شعبہ کو فروغ دیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ملک کے ان آخری اضلاع کا شمار ہندوستان بھر کے خوبصورت اور ترقی یافتہ اضلاع میں ہوگا۔اِ ن اضلاع میں اتنی خوبصورت اور دلکش جگہیں ہیں ،جنہیں اگر سیاحتی نقشے پر لانے سےوادی ٔ کشمیرکے مشہور سیاحتی مقامات گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوس مرگ سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔سر سبز میدان، برف پوش چوٹیاں،جھرنے، پرسکون فضائیںاور روح پرور ہوائیں سے مزین ان حسین وجمیل علاقوں میں مذہبی سیاحت کے بھی وسیع ترامکانات موجود ہیں۔جن میں پیر کی گلی، نوری چھم، پناڑ، پوشانہ، بفلیاز، نندی چھول، گرجن ڈھوک، پنج دھارنی مرگ، راجاڑہ ڈھوک، جموں شہید، دھیرہ گلی، جبی طوطی، نور پر، لورن، گگڑیاں، پرنائی، زیارت سائیں میراں باباؒ، زیارت سائیں الہٰی بخشؒ، بٹل کوٹ، ڈھیرہ ننگالی صاحب، بڈھا امر ناتھ، پونچھ قلعہ، شیش محل، موتی محل، وغیرہ جیسے مقامات قابل ذکر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاحتی شعبہ فی الحال براہ راست اوربلاواسطہ طور پر بھارت میں کل نوکریوں کا 12.9 فیصد مہیا کرتا ہےاور تجرباتی سیاحت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مد نظر مقامی برادریوں،خاص کر خواتین سرمایہ کاروں کیلئے اس میں بے انتہا اقتصادی امکانات موجود ہیں۔ پیر پنجال خطے میں مردوں کے مد مقابل خواتین زیادہ کام کاج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر انہیں موقع فراہم کیا جائے یا سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے تو یقیناً پیر پنجال کی خواتین کو بھی صاحب ِروزگار بنایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے وادی کشمیر میں بہتر ہونے کی وجہ سے امسال سیاحوں کی آہ و جائی پہلے سے بہتر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سیاح اب کشمیر اور جموں کے بھی کئی صحت افزاء مقامات کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس لئے اگر خطہ پیر پنجال یعنی پونچھ راجوری کے سیاحتی مقامات کو فروغ دے کرسیاحوں کی توجہ مبذول کروائی جائے تو یہ ایک بہترین پہل ہوگی۔اسی طرح مغل شاہراہ ہو یا جموں پونچھ ہائی وے، ان دونوں سڑکوں کے اطراف پر بھی کئی ایسے صحت افزاء مقامات ہیں جہاں سیاحتی ترقی کے امکان موجود ہیں۔ جموں پونچھ شاہرہ یعنی 144Aپر بھی کئی ایسے مقامات ہیں جو اپنی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ جن میں شاہدرہ شریف زیارت، دندی دھار قلعہ، دودھا دھاری مندر، کالاکوٹ بروئی، تھنہ منڈی،طوطا گلی، وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ مغل روڈ والے راستے پونچھ راجوری سے وادیِ کشمیر محض 200کلو میٹر سے بھی کم کی مسافت پر ہے،جبکہ وادی میں ہر سال ملکی و غیر ملکی سیلانیوں کا تانتابندھا رہتا ہے۔ مگر افسوس ، پیر پنجال کی خوبصورتی تا ہنوز سیاحتی نقشے سے اوجھل ہے۔ اگر سیاحوں کو خطہ پیر پنجال کی خوبصورتی سے روشناش کروایا جائے، بالخصوص خطہ طویل پہاڑیوں پر موجود قدرتی پانی کے ذخائر والے سات سروں کی سیر کروائی جائے تویقینا ًسیاح متاثر ہونگے ۔ ضلع پونچھ اور راجوری کے دیگر سیاحتی مقامات کا اگر ایک سیاحتی سروے کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی کو دنیا کی نظروں کے سامنے لایا جائے تو ان علاقوں میں ترقی کے ایک نئے باب کا نہ صرف آغاز ہوگا بلکہ خطہ پیر پنجال پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ اسی سلسلہ میں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ ڈاکٹر ریحان احمد کے تاثرات یوں ہیں کہ انسان جب شوپیاں سے پونچھ کی اور سفر کر رہا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے وہ قدرت کے بلند نظاروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ریحان، پونچھ راجوری ضلع کو وادی سے جوڑنے والی تاریخی شاہرہ یعنی مغل روڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے جنگلوں کو ہی لیا جائے یا دونوں طرف برف سے ڈھکے ہوئے سفید پہاڑوں کو دیکھا جائے تو قدرتی حسن کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ لیکن ابھی تک محکمہ سیاحت کی طرف سے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔اگر شاہراہ پر جگہ جگہ چھوٹے ٹورازم ہَٹ بنائے جائیں، یا سیلفی پوئنٹ  قائم کئے جائیں تو یقینا ًمسافر ان جگہوں پر ٹھہرنا پسند کریں گے ،جن سے روزگار کے مواقع بھی کھل کر سامنے آئیں گے۔ یہاں تصویر نگاری سے لیکر کئی طرح کے روزگار کھولے جا سکتے ہیں جن سے سینکڑوں بے روزگار نوجوانوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔
چنانچہ گزشتہ ماہ ہی مرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی وئز نتن گڈکری نے ایک تقریب کے دوران اپنے ایک بیان میں جہاں جموں و کشمیر خاص کر ضلع پونچھ میں کئے جارہے متعدد کاموں اور سڑک ٹنلوں کا ذکر کیا،وہیں انہوں نے تاریخی مغل شاہراہ کیلئے ایک بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ سڑک سردی کی موسم میں بند ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اب اس سڑک پر برف سے حفاظت کیلئے سنو گیلری بنا کر سڑکوں کو پورے سال کیلئے جاری رکھا جائے گا۔ وزیر موصوف نے مغل روڈ کیلئے 6ہزار آٹھ سو بیالیس کروڑ کی لاگت کے تعمیری کام اور پیر کی گلی سے پانچ ہزار کروڑ کی لاگت سے دس کلو میٹر کا ٹنل تعمیر کیا جانے کا اعلان بھی کیا، جس کا ڈی پی آر رواں سال ہی بنائے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ جس سے واضح ہوتا ہےکہ مرکزی سرکار بذات خود اس تاریخی شاہراہ کی تعمیر اور ترقی کیلئے کوشاں ہے،جو ایک خوش آئند بات ہے اور عوام بھی اس سے خوش ہیں۔عوام کی خواہش ہےکہ وزارات ِ سیاحت بھی اس تاریخی شاہراہ پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے خطہ پیرپنجال کی مغل سڑک کے علاوہ دیگر مقامات کو سیاحتی نقشے پر لانے کی با ضابطہ حکمت ِعملی تیار کرے تو یہ خطہ پیر پنجال اور سرحدی اضلاع پونچھ و راجوری کی تعمیر ترقی کیلئے ایک عظیم اقدام ثابت ہوگا۔امید کی جانی چاہئے کہ جی 20کا کامیاب اجلاس اس جانب پہلا قدم ثابت ہوگا۔
 09350461877