جیمس ویب دُوربین اور سوچنے کا نیا انداز ! فہم و فراست

شہباز رشید

جیمس ویب ٹیلیسکوپ ناسا کی طرف سے خلاءمیں بھیجی گئی ایک خلائی اوبزرویٹری ہے جس کو 25 دسمبر 2021 میں لانچ کیا گیا تھا۔10بیلین ڈالر کی لاگت سے بنائی گئی یہ دوربین ناسا کی سب سے بڑی خلائی دوربین ہے جس کا مقصد کائنات کو مزید گہرائی میں جا کر بے نقاب کرنا ہے۔اس دوربین نے 30 دن کی مسافت طے کر کے 1.5میلین کلومیٹر کی دوری پر ایک لیگرینج پوائنٹ پر قیام کیا۔ناسا کے مطابق یہ دوربین آسمان میں ہر قسم کا مشاہدہ کرے گی لیکن اس کے دو اہم مقاصد ہیں۔ ان میں سے پہلا دور افتادہ سیاروں کا جائزہ لے کر یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ انسانی رہائش کے قابل ہیں یا نہیں اور دوسرا کائنات میں سب سے پہلے چمکنے والے ستاروں کی تصاویر حاصل کرنا ہے جو 13 ارب سال قبل رونما ہونے والا واقعہ ہے۔جیمس ویب ٹیلیسکوپ ناسا, ای ایس اے اور کینڈئین اپیس ایجینسی کی باہمی اتحادی کوشش ہے ۔ناسا کے مطابق اس دوربین کو تیار کرنے میں 300 سے زائد جامعات ،تنظیموں اور کمپنییوں سے معاونت حاصل کی گئی ہے۔ماہرین کے مطابق جیمس دوربین انسانیت کے لئے ایک فتح ہے جو انسانی وجود کے متعلق سمجھنے کے زاویے کو بدل سکتا ہے۔اس دوربین کے ذریعے ہم کچھ بنیادی سوالات کا جواب دینے کے قابل ہو سکتے ہیں جیسے کائنات کی موجودہ ہیئت کیسے وجود میں آئی؟ کیا کائنات میں صرف کرہ ارض پر زندگی موجود ہے؟ پہلی تصویر جو جیمس دوربین نے ریلیز کی وہ گلیکسی کلسٹر SMACS 0723 جسے ویبس فسٹ ڈیپ فیلڈ کہتے ہیں ۔یہ تصویر آسمان کے صرف اتنے حصے کی ہے جو انسان زمین سے ریت کے ایک ذرے کے برابر ہے۔اس نہایت چھوٹے سے حصے کو دوربین کے فوکس میں لانے سے ہزاروں کہکشائیں دریافت ہوئیں اور ہر ایک گیلکسی میں 100بیلین ستارے موجود ہیں اور ہر ستارا اپنے سیاروں اور سٹیلائٹ کے ہمراہ ایک نظام تشکیل دئے ہوئے ہے۔
جیمس ویب دوربین کے ذریعے انسان لاکھوں کروڑوں سال پہلے کائنات کے مناظر بھی دیکھ سکتا ہے ۔سائنس نے اس دوربین کے ذریعے کائنات کی ابتدائی حالت کو واضح کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔یہ کوئی اچمبے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ دوربین کے ذریعے ہم واقعی کائنات کے ابتدائی مناظر کے احوال جان سکتے ہیں ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشین کی مدد سے ہم کس طرح ماضی میں پیچھے جا سکتے ہیں. لیکن یہ کوئی جادوئی شغل یا مداری کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے ۔یہ دراصل روشنی کی خصوصیت ہے جس سے یہ ممکن ہو رہا ہے۔ناسا کے سائنسدان کہتے ہیں کہ دوربین ٹائم مشین کی طرح ہیں جس کی مدد سے خلا میں دیکھنے کا مطلب ماضی میں دیکھنا ہے۔ناسا کہتا ہے کہ یہ سب کھ جادوئی لگتا ہے لیکن یہ سادہ سی حقیقت ہے کہ روشنی کو دوردراز ستاروں سے خلا سے ہوتے ہوئے زمین تک پہنچنے کے لئے وقت لگتا ہے۔جو روشنی آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں سے ہمیں نظر آتی ہے ۔ اس روشنی کو ہماری آنکھوں تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال لگے ہیں ۔روشنی کی رفتار ایک بیلین کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔مثلا ہمارا سورج ہے جو زمین سے 150میلین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔روشنی کو سورج سے زمین تک 8منٹ 20اسکینڈ لگتے ہیں ۔تو جب ہم سورج کی طرف دیکھتے ہیں اور ہمیں سورج نظر آتا ہے وہ سورج ہم 8منٹ پہلے والا سورج دیکھ رہے ہیں یا دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم 8منٹ پیچھے ماضی میں دیکھ رہے ہیں ۔اب اسی طرح سے جوکہکشائیں یا ستارے کئی لاکھ نوری سال ہم سے دور ہیں اور ہم انہیں آج دیکھ پارہے ہیں وہ اس وجہ سے ہے کہ روشنی کئی نوری سال کا سفر طے کرکے ہماری آنکھوں تک پہنچی۔اب جو تصاویر جیمس ویب دوربین ان ستاروں یا کہکشاؤں کی لے رہی ہے وہ تصاویر تو کئی نوری سال پہلے کی ہیں ۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دوربین کے ذریعے ہم پیچھے ماضی میں جا کرکائنات کے آغاز و ابتداء کو سمجھ سکتے ہیں ۔جیمس ویب انفراریڈ ریز کو بھی detect کرتی ہے اس لئے کائنات میں ان چیزوں کا مشاہدہ بھی ممکن ہے جو صرف انفراریڈ ریز چھوڑتی ہیں ۔انفراریڈ ریز چونکہ ہماری آنکھوں کی گرفت میں نہیں آتی اس لئے ہم ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے جو صرف یہی ریز چھوڑتی ہیں۔
کائنات کی ان وسعتوں کو دیکھتے ہوئے حضرت انسان کو خدا کے متعلق قائم کئے گئے نظریہ پر غورکرنا چاہیے۔مغرب نے انیسویں صدی میں جس غیر اخلاقی دلیری کا مظاہرہ کیا کہ اس نے خدا کی ذات پر بےجا سوالات کھڑے کئے۔سوالات اس لئے پیدا کئے کیونکہ مغرب نے کائنات کو وسعتوں کو بے نقاب کرنا شروع کیا تھا اور وہ ان انکشافات سے محوِ حیرت تھا کہ میں نے کمال کر دیا۔اس حیرت و استعجاب کے زیرِ اثر مغرب کو جہاں خدا کا شکر کرنا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس مغرب نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا۔انسان گاہے بگاہے حقائق کے قریب جا رہا ہے اور قرآن کی اس آیت کا مفہوم واضح سے واضح تر ہورہا ہے’’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں ۔‘‘