جہیز۔ معاشرے کا رِستا ہوا ناسُور! لوگوں نے اسے استحصالی آلہ بنایا ہے

ہارون ابن رشید ، ہندوارہ

اب ہمارے معاشرے کی رَگ رَگ میں ناجائز منفعت پرستی ،خود غرضی اور مادیت رچ بس گئی ہے۔زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ جائز یا ناجائز کاموں میں انہی چیزوں کا اطلاق رہتا ہے،جبکہ شادی جیسے مقدس رشتوں میں بھی اسی چیز کو اہمیت دی جاتی ہے کہ کس طرح رسم و رواج کے نام پر جہیز جیسی استحصالی بدعت کو فروغ دے کر اپنا حصول مقصد پاسکیں۔معاشرے میں جہیز کے لین دین کےبڑھتے ہوئے رجحان نے ہر کسی کی ناک میں شیطان کا بال اُگایا ہے۔ جس نے اُسے دینداری سے دور کرکے دنیاداری کا دیوانہ بنادیا ہے۔جس کے نتیجے میں اب جہیز جیسی بُرائی نے اُس ناسور کی صورت اختیا کرلی ہے جس سے انسانی زنگیاں تباہ و برباد ہوکر انسانیت شرمسار ہورہی ہیں۔ موجودہ دور میں جہیز ایک ایسا استحصالی آلہ بن گیا ہے جس کے بَل پرکوئی بھی انسان محض اپنی ناجائز خواہشات کے حصول میں ہی لگا ہوا ہے۔نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکوں کے والدین بھی اِس آلے سے فائدے اُٹھانے سے گریز نہیںکرتے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ جہیز کا لین دین اسلامی تصور کے بالکل خلاف ہے۔ جہاں شوہر کو بیوی کی ضروریات کا خیال رکھنے اور مہر کے طور پر جہیز فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے،وہاں اب لڑکی کی نوکری ،اُس کا عہدہ اور اُس کے والدین کی املاک و جائیداد کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ کل وراثت کی شکل میںاُن کےبیٹے کے ہاتھ میں کتنی جائداد آسکیں ۔گویا اب معاشرے کے بیشتر افراد نے قرآن و سنت سے منہ موڑکے شرعی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کا وطیرہ اختیار کیا ہے۔ واقعی اس صورت حال سے معاشرہ کا ایک بڑا حصہ خصوصاً متوسط و غریب طبقہ بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔اُن کے نوجوان بچوں کی زندگی بکھر کر رہ گئی ہےاور خاندان تہس نہس ہوکئے ہیں۔ظاہر ہےکہ اگر ہم اپنے دینی احکامات پر عمل کرنا شروع کر دیں اور اپنی خواہشات کی بھوک اوردولت کی تڑپ سے اپنی زندگیوں کو پاک کردیںقرآن و سنت کی تعلیم پر عمل کریںتو ہمارے مسلم معاشرے کی کایا ہی پلٹ جائے گی۔آج جہیزکے استحصالی آلے نے رشتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں ذات پات، رنگ و نسل کی تمام رکاوٹیں ختم کر دی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مادیت پرستی نے جہیز کے رواج کے عام کردیا ہے۔مادیت کی ہوس نے معاشرے کے اقدار بدل دیئے ہیں۔صرف پیسہ و جائیداد ہی انسان کو پرکھنے کا پیمانہ بن گیا ہے۔ انسانی حرص لامحدود ہو گئی ہے، لالچ کی قربان گاہ پر بغیر کسی خوف و ڈر کے انسانی جانیں قربانی کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ جہیز کی عدم دستیابی نے بے شمار خواتین کو اُووَر ایج کرکےبازار کی ایک معمولی شۓ بناکر رکھ دیا ہے۔جبکہ لڑکے، دُلہے کے روپ میں منہ مانگے داموں پر بازار میں دستیاب ہیں۔اور عہدوں اور مالی حیثیت کے نرخ ناموںکے تحت بکتے رہتے ہیں۔
معاشرے کے غریب طبقے اب اپنی بیٹیوں کو مجبوراً مختلف پرائیویٹ سیکٹروں میں کام کرنے لئےباہر بھیجتے ہیں تاکہ ان کے جہیز کا بندوبست ہوسکے۔ جہیز کے نظام کی وجہ سے کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر انہیں محکومی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے چاہے وہ اعلیٰ تعلیم ہو یا کم تعلیم یافتہ۔متوسط ​​اور اعلیٰ طبقے سے منسلک لوگ اپنی بیٹیوں کو اسکول یا کالج تو بھیجتے ہیں، لیکن کیریئر کے اختیارات پر زور نہیں دیتے۔ ملک میں لڑکیوں کی ایک خاصی تعداد، تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ ہونے کے باوجود غیر شادی شدہ ہیں کیونکہ ان کے والدین مناسب وقت پراُن کی شادی کے لئے جہیز کا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے۔
المختصر عصری جہیز زیادہ طاقتور روابط اور پیسہ کمانے کے مواقع میں شامل ہونے کے لیے دلہن کے خاندان کی سرمایہ کاری کی طرح ہے۔جبکہ بعض صورتوں میں، جہیز کا نظام خواتین کے خلاف جرائم کا باعث بنتا ہے، جس میں جذباتی زیادتی اور چوٹ سے لے کر موت تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت بھی خواتین میں سماجی بیداری لانے کی بہت ضرورت ہے۔ مزید سخت قوانین، زیادہ آگاہی، لڑکیوں کو زیادہ تعلیم، لڑکیوں کا زیادہ خود انحصاری اور سماجی بیداری ہی اس بڑھتی ہوئی بُرائی اور بدعت کو روک سکتی ہے۔جہیز کی لعنت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمیں اس کے خلاف ایک مضبوط عوامی رائے عامہ قائم کرنا ہو گی۔ سکولوں اور کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں سے یہ عہد لیا جائے کہ وہ نہ جہیز مانگیں گے اور نہ ہی دیں گے۔
(مضمون نگار ، پی جی کے طالب علم ہیں)
<[email protected]>