جَھنڈے والا کہانی

رحیم رہبر

وہ بنتِ حوّا نیم برہنہ تھی۔ جوان نے اُس کے مغزور کندھوں پر اپنے بازو رکھے تھے۔ وہ آپس میں کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔۔!
’’ناٹی۔۔۔! دوشیزہ نے مسکراتے ہوئے اس جوان سے کہا۔
’’چلے گا۔۔۔!‘‘ جوان بولا اور اس کے ماتھے کو چوما۔
یہ شرمناک منظر دیکھ کر پاس ہی بیٹھے بزرگ کا چہرہ غصّے سے لال ہوا۔ اُس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’کیا۔۔۔کیا ان گنہگار آنکھوں سے دیکھنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔ آکاش سے پتھر نہیں تو اور کیا برسیں گے۔!؟ زمین پھٹ جائیگی۔۔۔۔ آندھی پاگل ہوکر زور زور سے غرائے گی۔۔۔۔ پھر۔۔۔ پھر یہ سارا شہر سونا پڑ جائے گا! آنکھیں بے نور ہوجائینگی۔ ۔۔۔ پھر اس اُجڑے شہر کی کربناک داستان باقی رہ جائے گی۔!!‘‘
’’کیوں۔۔۔ایسا کیا ہوا!؟‘‘ عورت نے بڑے ہی انہماک سے اپنے مرد سے پوچھا۔
’’تم کہہ رہی ہو ایسا کیا ہوا۔۔۔ یہ نہیں بول رہی ہی کہ ایسا کیا نہیں ہوا؟‘‘۔ بزرگ نے چلّا چلّا کر اپنی بیوی سے کہا۔
’’مجھ پر کیوں چلّاتے ہو‘‘۔ عورت نے شوہر سے پوچھا۔
’’دیکھ۔۔۔دیکھ یہ بے حیاء لڑکی اس بے حیاء جوان کے ساتھ کس طرح لپٹ گئی ہے!؟اتنی ساری نگاہیں اس بے شرم جوڑی پر جمی ہوئی ہیں۔ پھر بھی یہ باز نہیں آتے ہیں!‘‘۔
’’یہ شہر بھی انوکھا ہے۔ یہاں عورتیں نیم برہنہ اور مرد پورے لباس میں ہیں۔ اس میٹرو میں جتنی بھی جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں یا کھڑی ہیں، ان میں اکثر نیم عُریاں ہیں۔ حیا، شرم، حق اور شرافت، یہ سب الفاظ اس شہر میں بیمار ہیں۔‘‘ عورت نے دھیمی آواز میں اپنے شوہر سے کہا۔
’’اور یہاں کے لوگ بھی یہ شرمناک مناظر دیکھنے کے عادی بن بیٹھے ہیں!‘‘۔ بزرگ نے جواب دیا۔
’’اس شہر میں انسانی قدریں، سنسکار نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔۔۔ ہمیں اس شہر سے جلدی نکلنا چاہیے۔‘‘ بیوی نے شوہر سے کہا۔
اسی اثناء میں اس جوان نے دوشیزہ کے بال اُس کے مغرور کندھوں پر بکھیر دیئے۔ یہ حقیرمنظر اُس بزرگ سے دیکھا نہ گیا۔ وہ چلّا چلّا کر جوان سے کہنے لگا۔
’’ارے۔۔۔ارے بے شرمو! کچھ تو شرم کرو۔ اگر تم بے حیا لوگ اس میٹرو میں سوار لوگوں سے ڈرتے نہیں ہو کم از کم اُس بھگوان، ایشور اور اُس خدا سے تو ڈرو۔۔۔ اس کی لاٹھی میں آواز نہیں پر جس پر وہ لاٹھی گرتی ہے وہ برباد ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی دھرم بے حیائی کی ترغیب نہیں دیتا ہے۔ ہر دھرم پردہ کرنے کو کہتا ہے۔۔۔ یہ لڑکی یشودا کی ہم جنس اور رادھا کی بیٹی ہے۔۔!!‘‘
’’بوڑھے سالے۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔ تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘ جوان نے غصے میں بزرگ سے کہا۔
بے شرم لڑکی نے اس بزرگ کا گریبان پکڑ لیا اور اس کے یار نے بزرگ پر پے در پے مُکےمار دیئے یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوا۔ میٹرو میں سوار کوئی بھی مسافر اس بزرگ کی مدد کے لئے آگے نہیں آیا نہ کسی مسافر نے اُس جوان بے حیاء جوڑے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہمارے ہاں ایسا نہیں چلے گا۔۔۔ وہاں حیاء اور شرم اس طرح تار تار نہیں ہے۔۔۔ ایسے بے شرم لوگوں کے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہاں عورت بنتِ ہو اہے۔۔۔ وہ یشودا کی بیٹی ہے۔۔۔وہ رادھا ہے!‘‘۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے اجنبی مسافر سے کہا۔
’’کہاں۔۔۔ تم کس جگہ کی بات کررہے ہو؟‘‘ اجنبی مسافر نے پوچھا۔
’’جہاں غیر محرم لڑکی کی طرف دیکھنا گناہ اور جُرم تصور کیا جاتا ہے، جہاں وجود زن کو وقار سے دیکھا جاتا ہے!‘‘
’’آپ۔۔۔۔!‘‘
’’جی صحیح سمجھ لیا۔۔۔ میں کشمیر سے ہوں‘‘۔ میں نے اس اجنبی مسافر سے کہا۔
کشمیر کا نام سُن کر وہ جوان میری طرف لپکا اور کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’جنٹل مین! Mind you own business، اپنے کام سے کام رکھا۔۔۔ اس بوڑھے کو سمجھائو۔۔۔ ہاں۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔!‘‘
میٹرو کی رفتار دھیمی پڑ گئی۔۔۔ اس کے ساتھ اعلان ہوا۔
’’اگلا سٹیشن جھنڈے والا ہے، دروازے بائیں کی اور کھلیں گے۔‘‘
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ بیروہ بڈگام،موبائل نمبر؛9906534724