جنگ ِآزادی میں علما ئے کرام کا نمایاں کردار ناقابل ِ فراموش

حبیب اللہ قادری

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصہ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیونکہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ،اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جذبہ صادقہ پیدا کیا۔
مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا ،چنانچہ اس وقت عالمی سطح پر ہندوستان نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا ء حاصل کی، اس شہرت و مقبولیت اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ بلند ہوا،اس خاکِ ہند کو افلاک کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔ہندوستان کی بد نصیبی کہ1857 میں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ گیا اور سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو تخت ِ ہند سے اتار دیا گیا۔سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے ۔پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال ’’ایسٹ انڈیا کمپنی ‘‘کے ذریعہ تجارت کے بہانے بھارت کو لوٹنا شروع کیا۔دھیرے دھیرے1857تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ،ان کم ظرفوں نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہند کی حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ طور پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح وطن عزیز انگریزوںکے قبضے میں چلی گئی اور پھر ملک میں تباہی و بربادی کا تہلکہ مچ گیا۔چاروں جانب ظلم کے شعلے اْٹھنے لگے ،جبروتشدد اور وحشت و بربریت کاہولناک مظاہرہ کیا جانے لگا۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اْتارا جانے لگا۔فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیںاور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا۔
اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باشی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و ا?برو اور جائیداد وغیرہ کی حفاظت و صیانت ہو سکے۔بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اللہ کی بارگاہ میں پہنچ گئی اور علمائے ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل ہوئی۔ چنانچہ بطل حریت علامہ فضل حق خیرا ٓبادی نے فتویٰ لکھا کہ’’ انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا ‘‘۔اس فتویٰ پر وقت کے اکابر علمائے کرام و مشائخ ذوی الاحترام نے دستخط کئے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے ہم نوائوں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی۔علمائے کرام کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ۔ ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ، تب جاکر15اگست1947کو ہند وستان کو آزادی ملی۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے ۔جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے میدان میں نکل آئے۔انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے۔ بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرہ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے۔ نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا۔لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیااور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش کردیئے گئے۔اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کی۔
علّامہ فضلِ حق خیرا ٓبادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کے فکری دور کا آغاز اس وقت کیاجب آپ لکھنومیں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے ،ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی، جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اْبھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے، جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ۔اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی اور یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
[email protected]