جموں وکشمیر میںسرکاری رقبہ کی بازیابی مہم  | عوام کے خدشات ۔حکومت کا موقف حال احوال

الطاف حسین جنجوعہ
جموں وکشمیر جوکہ بر صغیر ہند میں اپنے منفرد ومخصوص جغرافیائی محل ِ وقوع کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ بے نظیرخوبصورتی، امن وقانون یادیگر معاملات کی وجہ سے ہمیشہ ملکی وعالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میںرہتاہے۔یہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا موضوع یا معاملہ ضرور موضوع بحث اور توجہ کا مرکز رہتا ہے،کوئی مدعا چند روز اور کسی پر ہفتوں بحث وتمحیص اور تبصروں کا دور جاری رہتا ہے۔ سال نو میں9جنوری2023کو محکمہ مال حکومت ِ جموں وکشمیر کی طرف سے ایک سرکیولرزیر نمبر02-JK(Rev) of 2023جاری کیاگیا جواس وقت گھر گھر موضوع ِ بحث ہے جس میں تمام ضلع ترقیاتی کمشنرزکو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ 31جنوری2023تک رقبہ اراضی بشمول مخصوص کاہچرائی اور روشنی اسکیم پر100فیصد تجاوزات کو ہٹایاجائے۔
اس سرکیولر میںڈپٹی کمشنروں سے کہاگیا کہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں کو اس انخلائی /بازیابی / بے دخلی مہم کی موثر عمل آوری کے لئے ڈسٹرکٹ نوڈل افسر بنائیں،تجاوزات ہٹانے کے لئے محکمہ مال افسران کی ٹیمیں تشکیل دیں ،ذاتی طور بھی اس کی مانیٹرنگ کریں ،ہر روز کتنی زمین بازیاب کی اْس کی یومیہ رپورٹ شام4بجے تک متعلقہ صوبائی کمشنر دفتر میں پہنچ جائے اور فائنانشل کمشنر ریونیو جموں وکشمیر 5بجے تک ہر روز رپورٹ کو انتظامی محکمہ تک پہنچائے۔ اس حکم نامہ کے دوسرے روز سے ہی متعدد تحصیلداروں کی طرف سے اشتہارا عام/نوٹس بعنوان’بیدخلی اراضی/مکان/دوکان/ڈہارہ جات بررقبہ سرکار /مخصوص کاہچرائی وروشنی اسکیم‘ جاری ہونا شروع ہوئے۔12جنوری کو تحصیلدار سرنکوٹ نے پہل کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا،جس کے بعد درہال اور پھر یکے بعد دیگرے جموں وکشمیر کے سبھی تحصیل دفاتر سے متعلقہ علاقوں کے لئے اشتہار ات کا سلسلہ شروع ہوا،متعلقہ نمبرداروں ودیگر عملہ کے ذریعے انفرادی طور قابضین کو نوٹس بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا جوہنوز جاری ہے۔
اس بے دخلی مہم سے متعلق عوامی حلقوں میں بحث ومباحثوں کا دور جاری ہے اور یہ بات بھی زبان زد ِ عام ہے کہ ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق حکومت ایسا کر رہی ہے۔اس کے لئے30دسمبر2022کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی ڈویڑن بنچ کے فیصلے سے متعلق شائع خبر کا حوالہ بھی دیاجاتا ہے جس میں عدالت عالیہ نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھیں کہ پچھلے5سالوں کے دوران عوامی املاک پر ہوئی تجاوزات کو ہٹایاجائے اور اگر مستقبل میں Public Propertyپر کوئی تجاوزات ہوئی تو متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنر اور سنیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس(ایس ایس پی)ذمہ دار ہوں گے اور حکم عدولی کی صورت میں وہ توہین ِ عدالت کے مرتکب بھی سمجھے جائیں گے،یہ مخصوص ہدایات ہیں اور اس کا حکومت کے اِس سرکیولر سے کچھ لینا دینا نہیں۔
در اصل جموں وکشمیر ہائی کورٹ ڈویڑن بنچ نے متذکرہ بالا احکامات OWP No. 298/2011 (O&M)بعنوان جموں میونسپل کارپوریشن بنام محمد ندیم وغیرہ پر اپنا حتمی فیصلہ صادر کرتے ہوئے سُنائے۔ جموں میونسپل کارپوریشن نے جموں وکشمیر اسپیشل ٹریبونل کے20جنوری20210کے فیصلے کو چیلنج کیاتھا۔ اسپیشل ٹریبونل نے جموں میونسپل کارپوریشن کی طرف سے جموں وکشمیر کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ1988کی دفعہ7(3)کے تحت 100فیصد گونگے ، بہرے ایک شخص کو جاری انہدامی نوٹس نمبرMJ/Estt/CEO/598-99/3/09مورخہ8اپریل2009کو کالعدم قرار دیاتھا کہ اُس نے پبلک اسٹریٹ(گلی)میں غیر قانونی طور ڈھانچہ جموں میونسپل کارپوریشن ایکٹ2000کے تحت اجازت حاصل کئے بغیر تعمیر کیا۔ اس شخص کا دعویٰ تھاکہ وہ 6X2فٹ جگہ پر پچھلے 20سالوں سے کھوکھا ڈال کر اپنی روزی روٹی کما رہا ہے اور جموں میونسپل کارپوریشن کو ماہانہ کرایہ کی ادائیگی بھی کی جارہی ہے۔ جسٹس راجیش سیکری نے کہاکہ اْنہیں 100فیصدقوت ِ گویائی وقوت ِسماعت سے محروم اس شخص سے پوری ہمدردی ہے اور شاہد اسی وجہ سےاُس کو JMCنے یہاں کھوکھا لگانے کی اجازت دی تھی لیکن اس پر ٹین ڈالے یا کوئی ڈھانچہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
عدالت عالیہ نے کہاکہ بلاروک ٹوک راستے پرچلنا پھر ناہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ وقتاًفوقتاًملک بھر کی عدالتوں نے یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ سڑک، شاہراہ عام، فٹ پاتھ ، گلی کوچوں پر کوئی تجاوزات نہیں ہونی چاہئے، لیکن انتظامیہ کے کانوں تک جوں نہیں رینگتی۔جسٹس راجیش سیکری نے اِس OWPپر فیصلے صادر کرتے ہوئے آخری پیرا نمبر10میں جموں وکشمیر یوٹی انتظامیہ کو بالعموم اور جموں میونسپل کارپوریشن کو بالخصوص ہدایت جاری کی پبلک روڈ، گلی، راستہ اور فٹ پاتھ (Public Road, Street, Pathway, Lane)وغیرہ پر کسی قسم کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ عوامی املاک(پبلک پراپرٹی)ہے۔ یہ بھی حکم صادر کیاکہ اگر پچھلے پانچ سالوں کے دوران ایسا کوئی بھی ڈھانچہ تعمیر کیاگیا ہے، کواُکھاڑ دیاجائے اور آئندہ اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ تجاوزات نہ ہو۔ اگر مستقبل میں سڑکوں، شاہراہ عام، گلی کوچے پرکوئی تجاوزات ہوتی ہے تو اْس کے لئے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی ذمہ دار تصور ہوں گے۔ اس میں تو کہیں سرکاری اراضی، کاہچرائی یا روشنی قانون کا ذکر نہ ہے۔
سرکاری اراضی،جنگلات اراضی پر ناجائز تجاوزات کامعاملہ جموں وکشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے گرمایا ہے لیکن اس میں زیادہ شدت مفاد عامہ عرضی نمبر19/2011میں دائر درخواست IA No. 48/2014اورCM Nos. 4036, 4065 of 2020میں 19اکتوبر2020کو صادر64صفحات کے فیصلے کے بعد آئی، جس میں روشنی اسکیم کی آئینی جوازیت اس کے غلط استعمال پر ہائی کورٹ نے سخت تشویش ظاہر کی تھی۔ حالانکہ اس کے خلاف خود جموں وکشمیرسرکار نے ہائی کورٹ کے ڈویڑن بنچ میں نظرثانی عرضی Review Petition No. RP No. 37/2020 دائر کی گئی ہے اور استدعا کی ہے کہ جب تلک اس حوالے سے سرکارکوئی پالیسی لاتی، روشنی اسکیم کے مستفیدین کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ ہو۔مذکورہ فیصلے کیخلاف متعدد افراد نے عدالت عظمیٰ میں SLPبھی دائر کی ہیں جس میں ایڈووکیٹ مظفر اقبال خان کی طرف سے دائر عرضی SLP (Civil) No. 15991-93 of 2022 بعنوان عبدالرشید وغیرہ بنام ایس کے بھلہ وغیرہ ‘میں جموں وکشمیر سرکار کو نوٹس بھی جاری ہوا ہے اور اس میں جواب طلب کیاگیاہے۔ جب یہ عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر ِ سماعت آئیں تو اْس وقت سالسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے واضح طور کہاتھاکہ روشنی اسکیم کے تحت جن لوگوں کو مالکانہ حقوق تفویض ہیں ، جنہوں نے مکانات ودیگر تعمیرات کی ہیں، کیخلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جائے گی ، لہٰذا کورٹ کو آرڈر پاس کرنے کی ضرورت نہیں۔
مظفر اقبال خان ایڈووکیٹ نے I.A. NO. 10121 OF 2023عدالت عظمیٰ میں دائر کی جس کی 20جنوری کوسماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ اس میں تحریری آرڈر پاس کرنا چاہتی تھی لیکن جموں وکشمیر سرکار کی پیروی کر رہے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ اگر پورے سرکیولر پر اسٹے ہوگا تو پھر غیر قانونی قابضین کیخلاف کارروائی نہیں ہوسکے گی ،جن کے قبضے میں غیر قانونی اراضی ہے۔ البتہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ مدعیان کے مکانات نہیں گرائے جائیں گے جوکہ روشنی اسکیم کے تحت منتقل سرکاری اراضی پر تعمیر ہیں۔اس پر عدالت عظمیٰ نے اْن سے کہاکہ وہ متعلقہ حکام کو اس بارے بتائیں۔عدالت عظمیٰ میں کہاگیا ایک ایک لفظ بھی معنی رکھتا ہے اور اْس کو عملی جامہ بھی پہنانا لازمی ہوتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جموں وکشمیر حکومت نے نظرثانی عرضیNo. 37/2020 میں اختیار موقف کے برعکس جاتے ہوئے 9جنوری2023کو سرکیولر جاری کیا، وہیں حکومت کا موقف ہے کہ وہ ایک ایک انچ سرکاری اراضی کے تحفظ کی وعد ہ بند ہے اور اس کی بازیابی کے لئے ہرممکن اقدام اْٹھائے جائیں گے۔ کمشنر سیکریٹری ریونیو حکومت ِ جموں وکشمیر وجے کمار بڈھوری کے مطابق و ہ مرحلہ وار طریقہ سے کام کر رہے ہیں۔ پہلے محکمہ مال ریکارڈ کی ڈیجیٹل آئزیشن پر مکمل توجہ دی گئی۔اس کے بعد سبھی سروسز کو یکے بعد دیگرے آن لائن کیاگیا۔ یہ دو اہم کام کرنے کے بعد 15دسمبر2022کو ورچول موڈ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیاگیاکہ اب سرکاری اراضی کو بازیاب کرنے پر پوری توجہ دی جائے اور اْسی سلسلہ میں یہ آرڈر جاری کیاگیاہے۔
اس میں بھی مرحلہ وار طریقہ سے کارروائی ہوگی لیکن سبھی سرکاری اراضی کو بازیاب کیاجائے گا۔وجے کمار بڈھوری کے مطابق یہ سرکیولرکسی خاص طبقہ کے خلاف نہیں بلکہ ہراْس شخص کے لئے ہے، جس کے قبضہ میں سرکاری اراضی ہے چاہے وہ سیاستدان ہو، بیروکریٹ ہو یا عام آدمی۔ سرکار کی نظر میں صرف کارروائیEncroacherکیخلاف ہوگی چاہئے وہ جو بھی ہو۔حکام کے مطابق پہلے مرحلہ میں خالی سرکاری اراضی کو بازیاب کیاجارہا ہے۔ پھر سرکاری اراضی پر تعمیر کمرشیل ڈھانچوں کو منہدم کرنا ہے اور آخر میں رہائشی مکانات کی باری آے گی۔ عوام کے بیچ پائے جارہے خوف لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ غریب اور کمزور لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ کارروائی اْن کے خلاف ہوگی جن کے پاس زیادہ سرکاری اراضی ہے مگر سیاسی تنظیموں اور عوام کا مطالبہ ہے کہ اِس ضمن میں کوئی تحریری حکم نامہ بھی آنا چاہئے جوکہ ابھی تک نہیں آیاکیونکہ بقول اْن کے حکومتیں زبانی باتوں پر نہیں چلتی۔
عوامی حلقوں میں اس بات کو لیکر بھی تشویش ہے کہ نہ صرف روشنی اسکیم کے تحت تفویض مالکانہ حقوق منسوخ کئے گئے ہیں بلکہ/LB6 S432 ´اور زرعی اصلاحات قانون کی دفعہ4,8,12 کے تحت زمینوں کے جوانتقالات ہوگئے تھے، وہ بھی کئی مقامات پر منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ ضلع پونچھ جوکہ 1947سے قبل علیحدہ ریاست ہوا کرتی تھی، میں مہاراجہ نے جن لوگوں کو جنگلات کی اراضی دی تھی اور جس کا ذکر’نوتوڑ رجسٹر‘میں بھی ہے، کے انتقالات بھی منسوخ کئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت سے تفصیلی وضاحت درکار ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ روشنی اسکیم سے متعلق ہدایات کی آڑ میں سابقہ دور حکومتوں میں متعدد آرڈرز کے تحت سرکاری اراضی کے ہوئے انتقالات کو منسوخ کیاگیا اور اْن کی گرداوریاں بھی کاٹ دی گئی ہیں۔
یہ بات غور طلب ہے کہ روشنی اسکیم کے خلاف جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ جن لوگوں کو مالکانہ حقوق دیئے گئے ہیں، اْن کی بے دخلی کی جائے بلکہ یہ کہاگیاکہ جن افسران نے اس قانون کا غلط استعمال کیا، اْن کے خلاف کارروائی ہو، اْس طرف تو حکومت نے ابھی کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی۔ اس میں سی بی آئی کو خاطی افسران کیخلاف مقدمہ درج کرنے اور اِس بات کی بھی تحقیقات کرنے کو کہاگیاتھاکہ کیسے روشنی اسکیم رولز2007کو قانون سازیہ کی منظوری کے بغیر گزٹ نوٹیفکیشن میں شائع کرنے کے بعد عملی جامہ پہنادیاگیا۔روشنی اسکیم سے متعلق عدالت عالیہ کے فیصلے پر ایک تفصیلی مضمون بھی تحریر کیا جائے گا۔
قانونی ماہرین کے مطابق جموں وکشمیر میں اراضی سے متعلق کئی قوانین ہیں سال 1947کے بعد وقتاًفوقتاً حکومتوں نے کئی اسٹینڈنگ آرڈرز وغیرہ کے تحت لوگوں کو مالکانہ حقوق بھی تفویض کئے، کئی قوانین آج بھی روبہ عمل ہیں۔ 2001میں روشنی قانون بنایاگیا، اْس سے پہلے بھی تو بہت سارے قوانین یا اسٹیڈنگ آرڈزر حکومتوں کی طرف سے جاری ہوتے رہے۔اس لئے اراضی سے متعلق کوئی بھی حکم نامہ صادر کرنے سے پہلے وسیع پیمانے پر قانونی مشاورت لازمی ہے جس میں ایڈووکیٹ جنرل ودیگر معروف ماہرین قانون کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔
افسرشاہی کے نشہ میں سرشار ہوکر عجلت میں کوئی بھی آرڈرپاس کرنا معاملات کو مزید پیچیدہ بناسکتا ہے۔ جموں وکشمیر جہاں پچھلے چارسال کے زائد عرصہ سے منتخب حکومت ہی نہیں، میں پہلے ہی بیروکریٹک سطح پر لئے گئے یکے بعد دیگر فیصلوں سے انتظامیہ اور عوام میں دوریاں ہیں۔ لوگوں میں مایوسی، ناراضگی کا عنصر زیادہ پایاجاتا ہے۔ ایسے میں اعتماد سازی اقدام وقت کی ضرورت ہے اور ایسے فیصلے منتخب حکومت پرچھوڑیں جائیں تو زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔
( مضمون نگار ہائی کورٹ کے وکیل ہیں)
رابطہ۔7006541602,
[email protected]>